معتمر نے اپنے والد (سلیمان تیمی) سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابوعثمان نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اسی (سابقہ حدیث) کی طرح بیان کیا۔
یہی روایت امام صاحب ایک اوراستاد سے بیان کرتے ہیں۔
ایوب نے ابوعثمان سے اور انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، پھر عاصم کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
امام صاحب دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں،حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا،ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ،آگے سب سے پہلی روایت کے ہم معنی روایت ہے۔
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا الثقفي ، حدثنا خالد الحذاء ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة فذكر الحديث، وقال: فيه والذي تدعونه اقرب إلى احدكم من عنق راحلة احدكم، وليس في حديثه ذكر: لا حول ولا قوة إلا بالله.وحَدَّثَنَا إِسْحاَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: فِيهِ وَالَّذِي تَدْعُونَهُ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَةِ أَحَدِكُمْ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِ ذِكْرُ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.
خالد حذاء نے ابوعثمان سے اور انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ایک غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، پھر اس حدیث کو بیان کیا اور اس میں کہا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) "تم جس کو پکار رہے ہو وہ تم میں سے کسی کی اونٹنی کی گردن کی نسبت بھی اس کے زیادہ قریب ہے۔" اور ان (خالد حذاء) کی حدیث میں " لا حول ولا قوۃ الا باللہ " کا ذکر نہیں ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے،آگے مذکورہ بالاحدیث ہے اور اس میں یہ بھی ہے،آپ نے فرمایا:"جس ذات کوتم پکاررہے ہو،وہ تمہاری اونٹنی کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔"اور اس حدیث میں "لاحول ولا قوة الا بالله" کاذکر نہیں ہے۔
عثمان بن غیاث نے کہا: ہمیں ابوعثمان نے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا: "کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک کلمہ نہ بتاؤں؟"۔۔ یا فرمایا:۔۔ "جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کا پتہ نہ بتاؤں؟" میں نے عرض کی: کیوں نہیں (ضرور بتائیں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " لا حول ولا قوۃ الا باللہ "
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمھیں وہ کلمہ بتاؤں،جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟یا جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ بتاؤں؟"تو میں نے عرض کیا،ضروربتائیں،چنانچہ آپ نے فرمایا: "لاحول ولا قوة الا بالله"
6869. قُتیبہ بن سعید اور محمد بن رُمح نے کہا: ہمیں لیث نے یزید بن ابی حبیب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوالخیر سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے اور انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: مجھے ایک ایسی دعا سکھائیے جو میں نماز میں مانگا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم یہ کہا کرو: اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے۔۔ قتیبہ نے (اپنی روایت میں) کہا: بہت ظلم کیا۔۔ اور تیرے سوا کوئی بھی گناہ نہیں بخش سکتا، تو اپنی طرف سے (رحمت کرتے ہوئے) میرے گناہ بخش دے اور مجھ پر رحم فرما! بےشک تو بہت بخشنے والا، ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔"
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی،آپ مجھے کوئی ایسی دعاسکھائیں جو میں اپنی نماز میں مانگوں،آپ نے فرمایا:"کہو،اے اللہ!میں نے اپنی جان پر بہت بڑاظلم کیا ہے،قتیبہ کی روایت میں ہے،بہت ظلم کیے ہیں اور گناہوں کو تیرے سواکوئی نہیں بخش سکتا،اس لیے تو اپنے پاس سے مجھے مغفرت عنایت فر اور مجھ پر رحم فرما،کیونکہ تو ہی بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔"
عبداللہ بن وہب نے ہمیں خبر دی، کہا: ہمیں ایک آدمی نے جس کا انہوں نے نام لیا اور عمرو بن حارث نے یزید بن ابی حبیب سے خبر دی اور انہوں نے ابوالخیر سے روایت کی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے ایک ایسی دعا سکھائیے جس کو میں اپنی نماز میں بھی مانگا کروں اور اپنے گھر میں بھی مانگا کروں۔۔ پھر لیث کی حدیث کے مانند بیان کیا۔ مگر انہوں نے (بغیر شک کے) " ظلما کثیرا " (بہت ظلم کیا) کہا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا،اے اللہ کے رسول! مجھے ایسی دعا سکھائیں،جومیں اپنی نماز میں اور اپنے گھر میں مانگوں،آگے مذکورہ بالا روایت ہے،صرف اتنا فرق ہے کہ اس میں ہے،آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا:"ظُلمًا كَثِيرا"بہت ظلم کیے ہیں۔"
ابن نمیر نے کہا: ہمیں ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اللہ تعالیٰ سے) یہ دعائیں مانگا کرتے تھے: "اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے فتنے سے اور آگ کے عذاب سے اور غنا کی آزمائش کے شر سے اور فقر کی آزمائش کے شر سے اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں جھوٹے مسیح کے فتنے کی برائی سے۔ اے اللہ! میری خطائیں برف اور اولوں (کے پانی) سے دھودے، اور میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح صاف ستھرا کر دے جس طرح تو سفید کپڑے کو میل سے صاف کرتا ہے اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنا فاصلہ ڈال دے جتنا فاصلہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان ڈالا ہے۔ اے اللہ! میں سستی، عاجز کر دینے والے بڑھاپے، گناہ اور قرج (کے غلبے) سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ،ان کلمات کے ذریعہ دعا مانگا کرتے تھے،"اے اللہ!میں تجھ سے آگ کے فتنہ اور آگ کے عذاب سے،قبر کے فتنہ اورقبر کےعذاب سے اور تونگری کے فتنہ کے شر سے اور فقر وتنگدستی کے فتنہ کےشر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں مسیح دجال کے فتنہ کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں،اے اللہ!میرےگناہ برف کے پانی اور برودت(اولوں) سے دھو ڈال اور میرے دل کو گناہوں سے اس طرح پاک صاف کردے،جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے پاک وصاف کیا ہے اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری پیدا کردے،جتنی دوری تو مشرق اور مغرب کے درمیان کردی ہے،اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں،سستی،کاہلی اور انتہائی بڑھاپے سے اور گناہ سے اور قرضہ سے۔"
حدثنا يحيى بن ايوب ، حدثنا ابن علية ، قال: واخبرنا سليمان التيمي ، حدثنا انس بن مالك ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اللهم إني اعوذ بك من العجز والكسل والجبن والهرم والبخل، واعوذ بك من عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات "،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْهَرَمِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ "،
ابن علیہ نے کہا: ہمیں سلیمان تیمی نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: "اے اللہ! میں عاجز ہونے، سستی، بزدلی، بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور میں قبر کے عذاب اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتےتھے،"اے اللہ!میں تجھ سے عاجزی وبے بسی،سستی وکاہلی،بزدلی اور انتہائی بڑھاپے اور بخل سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں،قبرکے عذابسے اور موت وحیات کے فتنہ سے۔"
یزید بن زریع اور معتمر دونوں نے تیمی سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی، البتہ یزید کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول: "اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے (میں تیزی پناہ میں آتا ہوں) " مذکور نہیں۔
امام صاحب اپنے دو اوراساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔ مگر اس میں آپ کا یہ قول نہیں ہے۔"زندگی اور موت کا فتنہ سے۔"