محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے عمر بن محمد بن یزید سے حدیث بیان کی انھوں نے اپنے والد سے سنا، وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر کسی چیز میں کسی ناموافقت کا ہو نا بر حق ہو سکتا ہے تو وہ گھوڑے عورت اور مکان میں ہے۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر نحوست میں کچھ حقیقت ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی۔“
حمزہ بن عبد اللہ بن عمر نے اپنے والد (حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اگر کسی چیز میں عدم موافقت ہو تو گھوڑے، مکان اور عورت میں ہو گی۔"
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر شوم (نحوست) کسی چیز میں ہوتی تو گھوڑے، گھر اور بیوی میں ہوتی۔"
امام مالک نے ابو حازم سے، انھوں نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اگر یہ بات ہو تو عورت، گھوڑے اور گھر میں ہو گی۔"آپ کی مراد عدم موافقت سے تھی۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ہوتی تو بیوی، گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔“ یعنی نحوست۔
ابن جریج نے کہا: مجھے ابو زبیر نے بتا یا کہ انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبردے رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی چیز میں یہ بات ہو گی تو گھر، کادم اور گھوڑےمیں ہو گی۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر (نحوست) کسی چیز میں ہوتی تو گھر، خادم اور گھوڑے میں ہوتی۔“
یو نس نے ابن شہاب سے، انھوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف سے، انھوں نے حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کچھ کا م ایسے تھے جو ہم زمانے جاہلیت میں کیا کرتے تھے ہم کا ہنوں کے پاس جا تے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم کا ہنوں کے پاس نہ جا یا کرو۔"میں نے عرض کی: ہم بد شگونی لیتے تھے، آپ نے فرمایا: " یہ (بدشگونی) محض ایک خیال ہے جو کوئی انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، یہ تمھیں (کسی کام سے) نہ روکے۔"
حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! بہت سے کام ہیں، جو ہم جاہلیت کے دور میں کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو کاہنوں کے پاس مت جاؤ“ میں نے کہا، ہم بدشگونی لیتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کا تمہارے کسی کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو وہ تمہیں تمہارے کام سے ہرگز نہ روکے۔“
عقیل معمر، ابن ابی ذئب اور مالک، ان سب نے زہری سے اسی سند کے ساتھ یو نس کی حدیث کے ہم معنی روایت کی، مگر مالک نے اپنی حدیث میں بدشگونی کا نام لیا ہے، اس میں کا ہنوں کا ذکر نہیں۔
امام مسلم اپنے مختلف اساتذہ کی چار سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، ان میں امام مالک کی روایت میں، بری فال کا ذکر ہے لیکن کہانت کا ذکر نہیں ہے۔
حجاج صواف اور اوزاعی، دونوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے، انھوں نے عطا ء بن یسار سے، انھوں نے معاویہ بن حکم سلمہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زہری کی ابو سلمہ سے اور ان کی معاویہ سے روایت کردہ حدیث کے مانند روایت کی، اور یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث میں یہ الفا ظ زائد بیان کیے، کہا: میں نے عرض کی: ہم میں ایسے لو گ ہیں جو (مستقبل کا حال بتا نے کے لیے) لکیریں کھینچتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " انبیاء علیہ السلام میں سے ایک نبی تھے جو لکیریں کھینچتے تھے، جو ان کی لکیروں سے موافقت کرگیا تو وہ ٹھیک ہے۔"
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی دو سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، یحییٰ بن ابی کثیر کی روایت میں ہے کہ حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں نے کہا، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء میں سے ایک نبی لکیریں کھینچتے تھے تو جو ان کے طریقہ کے مطابق لکیرین کھینچے گا وہ ٹھیک ہو گا۔“