امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ایک اور جگہ بیان کرچکا ہوں۔ (جو اس مسئلہ کی دلیل ہے۔ دیکھئے حدیث نمبر: 2171)
جناب عبداللہ بن عبداللہ بن خبیب بیان کرتے ہیں کہ ہم اس مہینے میں (رمضان المبارک میں) جہینہ قبیلے کی مجلس میں سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے تو ہم نے عرض کیا کہ اے ابویحییٰ، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مبارک رات کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ جی ہاں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مہینے کے آخر میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی نے آپ سے عرض کی کہ ہم اس مبارک رات کو کب تلاش کریں؟ آپ نے فرمایا: ”اس کو اس تئیسویں رات میں تلاش کرو تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ تب تو یہ رات آٹھوں راتوں میں سے پہلی رات ہوئی۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ابن علیہ نے جس راوی کا نام نہیں لیا، اس کا نام عبداللہ بن خبیب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ سے شب قدر کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اسے آج رات تلاش کرو۔“ اور وہ تئیسویں رات تھی تو ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، تو یہ آٹھ راتوں میں سے پہلی ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ سات میں سے پہلی ہوئی کیونکہ مہینہ بعض اوقات پورے تیس دنوں کا نہیں ہوتا۔“
1505. اس بات کی دلیل کا بیان کہ کسی سال شب قدر ستائیسویں رات بھی ہوتی ہے کیونکہ شب قدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے
سیدنا زربن جیش رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ اگر تمہارے بیوقوف لوگوں کا خدشہ نہ ہوتا تو میں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر بلند آواز سے پکارتا کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے۔ یہ اس شخص کی خبر ہے جس نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولا، اور اس نے اس ہستی سے خبر دی ہے جس نے غلط بیانی نہیں کی یعنی سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔ یہ جناب بندار کی روایت ہے۔ اور جناب ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زر بن جیش رحمه الله کو سنا۔ اور فرمایا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے، آخری سات راتوں میں شب قدر ہوتی ہے۔ یہ اس شخص کی خبر ہے جس نے مجھے جھوٹ نہیں بتایا اور اس ہستی سے بیان کیا ہے جس نے اس سے غلط بیانی نہیں کی اور یہ نہیں کہا کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم سے روایت کی ہے۔
سیدنا ابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ شب قدر کو میں بخوبی جانتا ہوں۔ یہ وہی رات ہے جس کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا تھا۔ وہ ستائیسویں رات ہے۔
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو (رمضان المبارک کی) آخری رات میں تلاش کرو۔“ اور سیدنا ابوبکرہ کی روایت میں ہے کہ ”یا آخری رات میں (تلاش کرو)۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی پھر مجھے بھلادی گئی اور وہ آخری عشرے کی ایک رات ہے، وہ رات خوب روشن، پرسکون، نہ گرم اور نہ سرد ہوتی ہے۔“ جناب الزیادی نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ ”گویا کہ اس رات چاند اپنے ستاروں کی روشنی کو ماند کررہا ہو گا۔“ دونوں راویوں نے یہ الفاظ بیان کیے: ”فجر روشن ہونے تک اس رات شیاطین باہر نہیں نکلتے۔“
حضرت زر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، تو عرض کی، آپ کا بھائی ابن مسعود کہتا ہے کہ جو شخص سال بھر قیام کرے وہ شب قدر کو پالے گا۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے، یقیناً اُن کا ارادہ یہ ہے کہ لوگ (صرف آخری عشرے پر) بھروسہ کرکے بیٹھ نہ جائیں۔ یقیناً اُنہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان المبارک میں ہے اور وہ اس کے آخری عشرے میں ہے اور وہ ستا ئیسویں رات ہے۔ کہتے ہیں، ہم نے عرض کی کہ اے ابومنذر، یہ رات کیسے پہچانی جائے گی؟ اُنہوں نے فرمایا کہ اس علامت اور نشانی کے ذریعے سے جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے کہ اُس روز سورج اس حال میں طلوع ہوگا کہ اُس کی شعاعیں نہیں ہوں گی۔ جناب دورقی کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ یقیناً ان کا ارادہ یہ ہے کہ لوگ اعتماد و بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں۔
1509. شب قدر کی صبح سورج کا طلوع ہوتے وقت سرخ اور کمزور ہونا۔ سورج کی اس کیفیت سے شپ قدر پر استدلال کرنا، بشرطیکہ روایت صحیح ہو کیونکہ زمعہ کے حافظے کے بارے میں میرے دل میں عدم اطمینان ہے