سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی اسی مسئلے کے بارے میں ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیسویں رات کی صبح کو دیکھا تو آپ کی پیشانی اور ناک کی نوک پر کیچڑ لگا ہوا تھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بتایا تھا کہ آپ نے شبِ قدر میں خود کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اکیسویں رات گزر جانے والے مہینے کے دنوں کے اعتبار سے طاق رات تھی۔ ممکن ہے اس سال رمضان المبارک اُنتیس دنوں کا ہو۔ اس طرح وہ رات باقی ماندہ دنوں کے اعتبار سے نویں رات تھی۔ جبکہ گزرجانے والے دنوں کے اعتبار سے اکیسویں رات تھی۔
1500. آخری سات راتوں میں شب قدر کو تلاش کرنے کے بارے میں نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس روایت کا بیان جس میں اس علت کا ذکر موجود نہیں جس کی بنا پر آپ نے دس دنوں کی بجائے صرف سات دنوں میں شب قدر کو تلاش کرنے کا حُکم دیا ہے۔
حدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا عبد الوارث ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: كان الناس يرون الرؤيا، فيقصونها على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ارى رؤياكم قد تواطات على السبع الاواخر، فمن كان متحريها فليتحرها في السبع الاواخر" . قال ابو بكر: هذا الخبر يحتمل معنيين , احدهما: في السبع الاواخر، فمن كان ان يكون صلى الله عليه وسلم لما علم تواطؤ رؤيا الصحابة انها في السبع الاخير في تلك السنة، امرهم تلك السنة بتحريها في السبع الاواخر , والمعنى الثاني: ان يكون النبي صلى الله عليه وسلم إنما امرهم بتحريها وطلبها في السبع الاواخر إذا ضعفوا وعجزوا عن طلبها في العشر كلهحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَرَوْنَ الرُّؤْيَا، فَيَقُصُّونَهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَى رُؤْيَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ عَلَى السَّبْعِ الأَوَاخِرِ، فَمَنْ كَانَ مُتَحَرِّيَهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الأَوَاخِرِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ يَحْتَمِلُ مَعْنَيَيْنِ , أَحَدُهُمَا: فِي السَّبْعِ الأَوَاخِرِ، فَمَنْ كَانَ أَنْ يَكُونَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا عَلِمَ تَوَاطُؤَ رُؤْيَا الصَّحَابَةِ أَنَّهَا فِي السَّبْعِ الأَخِيرِ فِي تِلْكَ السَّنَةِ، أَمَرَهُمْ تِلْكَ السَّنَةَ بِتَحَرِّيهَا فِي السَّبْعِ الأَوَاخِرِ , وَالْمَعْنَى الثَّانِي: أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَهُمْ بِتَحَرِّيهَا وَطَلَبِهَا فِي السَّبْعِ الأَوَاخِرِ إِذَا ضَعُفُوا وَعَجَزُوا عَنْ طَلَبِهَا فِي الْعَشْرِ كُلِّهِ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ لوگ خواب دیکھتے تو اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں میں متفق ہوگئے ہیں۔ پس جو شخص جستجو اور تلاش کرنا چاہے تو وہ آخری سات راتوں میں شب قدر کو تلاش کرے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت کے دو معنی ہوسکتے ہیں (1) آخری سات راتوں میں تلاش کرنے کے بارے میں ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوگیا کہ ان صحابہ کرام کے خواب اس سال آخری سات راتوں کے بارے میں متفق ہوگئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اس سال آخری سات راتوں میں شب قدر تلاش کرنے کا حُکم دے دیا۔ (2) دوسرا معنی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں آخری سات راتوں میں شب قدر کی جستجو اور تلاش کا حُکم اُس وقت دیا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آخری مکمّل دس راتوں میں شب قدر تلاش کرنے سے عاجز آگئے اور اُنہوں نے کمزروی کا اظہار کیا۔
1501. اس حدیث کا بیان جو دوسرے معنی کے صحیح ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کرنے کا حُکم اس وقت دیا جب شب قدر کا متلاشی اسے آخری مکمّل عشرے میں تلاش کرنے سے عاجز اور کمزور ہوگیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو آخری عشرے میں تلاش کرو، پھر اگر تم میں سے کوئی شخص کمزور ہو جائے یا عاجز آجائے تو پھر وہ باقی سات راتوں میں ہر گز مغلوب و لاچار نہ ہو۔“