صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
روزے کی حالت میں ایسے مباح اور جائز اعمال کے ابواب کا مجموعہ جن کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے
1375.
1375. اس بات کی دلیل کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ جنابت جس کے بعد آپ نے طلوع فجر تک غسل مؤخر کردیا تھا اور روزہ رکھ لیا تھا، وہ جنابت جماع کی وجہ سے تھی، احتلام کے سبب سے نہیں تھی۔
حدیث نمبر: 2013
Save to word اعراب
حدثنا يوسف بن موسى ، حدثنا جرير ، عن يحيى بن سعيد الانصاري ، عن عراك بن مالك ، عن عبد الملك بن ابي بكر ، عن ابيه ، عن امه ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح جنبا من النساء من غير حلم , ثم يظل صائما" حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُمَّهِ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنَ النِّسَاءِ مِنْ غَيْرِ حُلْمٍ , ثُمَّ يَظَلُّ صَائِمًا"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے (ہمبستری) جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے، احتلام کی وجہ سے نہیں، پھر آپ روزہ رکھ لیتے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1376.
1376. اس بات کی دلیل کا بیان کہ ہر اُس شخص کے لئے روزہ رکھنا جائز ہے جو جنابت کی حالت میں صبح کرتا ہے اور طلوع فجر کے بعد غسل کرتا ہے
حدیث نمبر: Q2014
Save to word اعراب

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2014
Save to word اعراب
حدثنا علي بن حجر السعدي ، حدثنا إسماعيل بن جعفر ، عن عبد الله يعني ابن عبد الرحمن بن معمر ابي طوالة ، ان ابا يونس مولى عائشة اخبره، عن عائشة ، ان رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم يستفتيه وهي تسمع من وراء الباب , فقال: يا رسول الله , تدركني الصلاة وانا جنب افاصوم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وانا تدركني الصلاة وانا جنب فاصوم". فقال: لست مثلنا يا رسول الله قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر. فقال:" والله" يعني:" إني لارجو ان اكون اخشاكم لله , واعلمكم بما اتقي" . قال ابو بكر: هذا الرجاء من الجنس الذي اقول: إنه جائز ان يقول المرء فيما لا يشك فيه ولا يمتري: وانا ارجو ان يكون كذا وكذا , إذ لا شك ان النبي صلى الله عليه وسلم كان مستيقنا غير شاك , ولا مرتاب ان كان اخشى القوم لله، واعلمهم بما يتقي. وهذا من الجنس الذي روي عن علقمة بن قيس انه قيل له: امؤمن انت؟ قال: ارجو , ولا شك ولا ارتياب انه كان من المؤمنين الذين كان يجري عليهم احكام المؤمنين من المناكحات , والمبايعات وشرائع الإسلام. وقد بينت هذه المسالة في كتاب الإيمان. فاسمع الدليل الواضح ان النبي صلى الله عليه وسلم اراد بقوله:" إني لارجو" ما اعلمت انه: قد اقسم بالله انه اشدهم خشيةحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ أَبِي طُوَالَةَ ، أَنَّ أَبَا يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَجُلا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِيهِ وَهِيَ تَسْمَعُ مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , تُدْرِكُنِي الصَّلاةُ وَأَنَا جُنُبٌ أَفَأَصُومُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَأَنَا تُدْرِكُنِي الصَّلاةُ وَأَنَا جُنُبٌ فَأَصُومُ". فَقَالَ: لَسْتَ مِثْلَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ. فَقَالَ:" وَاللَّهِ" يَعْنِي:" إِنِّي لأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَخْشَاكُمْ لِلَّهِ , وَأَعْلَمَكُمْ بِمَا أَتَّقِي" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الرَّجَاءُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَقُولُ: إِنَّهُ جَائِزٌ أَنْ يَقُولَ الْمَرْءُ فِيمَا لا يَشُكُّ فِيهِ وَلا يَمْتَرِي: وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يَكُونَ كَذَا وَكَذَا , إِذْ لا شَكَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مُسْتَيْقِنًا غَيْرَ شَاكٍّ , وَلا مُرْتَابٍ أَنْ كَانَ أَخْشَى الْقَوْمِ لِلَّهِ، وَأَعْلَمَهُمْ بِمَا يَتَّقِي. وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي رُوِيَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: أَمُؤْمِنٌ أَنْتَ؟ قَالَ: أَرْجُو , وَلا شَكَّ وَلا ارْتِيَابَ أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ كَانَ يَجْرِي عَلَيْهِمْ أَحْكَامُ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْمُنَاكَحَاتِ , وَالْمُبَايَعَاتِ وَشَرَائِعِ الإِسْلامِ. وَقَدْ بَيَّنْتُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ فِي كِتَابِ الإِيمَانِ. فَاسْمَعِ الدَّلِيلَ الْوَاضِحَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِقَوْلِهِ:" إِنِّي لأَرْجُو" مَا أَعْلَمْتُ أَنَّهُ: قَدْ أَقْسَمَ بِاللَّهِ أَنَّهُ أَشَدُّهُمْ خَشْيَةً
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھنے کے لئے حاضر ہوا جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دروازے کے پیچھے سن رہی تھیں، تو اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، مجھے جنابت کی حالت میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے، تو کیا میں روزہ رکھوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے بھی اس حالت میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے کہ میں جنبی ہوتا ہوں، تو میں روزہ رکھتا ہوں، اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ ہماری طرح نہیں ہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام قصور معاف فرما دیئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم، بیشک مجھے امید ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کو جاننے والا ہوں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ امید اسی جنس کے متعلق ہے جس کے بارے میں میں کہتا ہوں کہ آدمی جس چیز میں کوئی شک و شبہ نہ رکھتا ہو اس کے بارے میں کہہ دیتا ہے کہ مجھے امید ہے کہ میں ایسے ایسے ہوں گا۔ کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں بلکہ آپ کو مکمّل یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والے اور ان سب سے بڑھ کر تقویٰ کی چیزوں کو جاننے والے ہیں۔ یہ مسئلہ اسی قسم سے ہے جو علقمہ بن قیس سے مروی ہے کہ اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ مؤمن ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ میں مؤمن ہوں۔ جبکہ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ ان مؤمنوں میں سے تھے جن پر مؤمنوں کے احکام نکا ح، خرید و فروخت اور شریعت کے دیگر احکام لاگو ہوتے ہیں۔ میں نے یہ مسئلہ کتاب الایمان میں بیان کیا ہے۔ لیجیئے اس بات کی واضح دلیل سنیے کہ آپ کے اس فرمان کہ مجھے امید ہے سے مراد پختہ یقین ہے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ آپ نے قسم اُٹھا کر فرمایا تھا کہ آپ سب لوگوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2015
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن الاعمش ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض الامر , فرغب عنه رجال , فقال: " ما بال رجال آمرهم بالامر يرغبون عنه، والله إني لاعلمهم بالله , واشدهم خشية" حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ الأَمْرِ , فَرَغِبَ عَنْهُ رِجَالٌ , فَقَالَ: " مَا بَالُ رِجَالٍ آمُرُهُمْ بِالأَمْرِ يَرْغَبُونَ عَنْهُ، وَاللَّهِ إِنِّي لأَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ , وَأَشَدُّهُمْ خَشْيَةً"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی معاملے میں رخصت دی تو کچھ لوگوں نے اس سے اعراض کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ میں انہیں ایک حُکم دیتا ہوں تو وہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم، میں ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہوں اور ان سے بڑھ کر اللہ سے ڈرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري

Previous    1    2    3    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.