سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کی تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ بالا خانے میں اُنتیس دن رہے ہیں (جبکہ آپ نے ایک مہینے کی علیحدگی اختیار کی تھی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مہینہ اُنتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“
1321. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں رمضان المبارک کے اُنتیس روزوں کی تعداد روزوں کی نسبت زیادہ تھی۔ ان جاہل اور بے عقل لوگوں کے خیال کے برخلاف جو کہتے ہیں کہ ہر رمضان کے تیس روزے مکمّل کرنا واجب ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو اُس نے کہا کہ میں نے آج رات چاند دیکھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم گواہی دیتے ہو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ اُس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فلاں، کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ صبح روزہ رکھیں۔“
جناب زائدہ کی سند سے مذکورہ بالا کی طرح مروی ہے اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں۔
1323. اس بات کا بیان کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ”حتّیٰ کہ صبح کی سفید دھاری تمہارے لئے سیاہ دھاری سے واضح ہو جائے“ سے اللہ تعالیٰ کی مراد رات کے بعد دن کی سفیدی کا ظاہر ہونا ہے۔
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ» [ سورة البقرة: 187 ]”اور تم کھاؤ اور پیو حتّیٰ کہ تمہارے لئے صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے واضح ہو جائے“ اُتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ رات کی سیاہی سے دن کی سفیدی کا نمایاں ہونا ہے۔“
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول سیاہ دھاگے اور سفید دھاگے سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ دو دھاگے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تم چوڑی گُدی والے ہو۔“ مجھے بتاؤ کیا تم نے کبھی دو دھاگے دیکھے ہیں؟ پھر فرمایا: ”نہیں، بلکہ اس سے مراد رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی ہے ـ“
1324. اس بات کی دلیل کا بیان کہ فجر دو قسم کی ہے۔ اور دوسری فجر کے طلوع ہونے سے روزے دار کے لئے کھانا پینا اور جماع کرنا حرام ہو جاتا ہے پہلی فجر سے نہیں ہوتا اور یہ مسئلہ اسی جنس سے ہے جسے میں نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے فرامین کی وضاحت کی ذمہ داری اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپی ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر دو قسم کی ہے، پہلی فجر تو نہ کھانا کھانے کو حرام کرتی ہے اور نہ نماز فجرپڑھنے کو جائز کرتی ہے۔ جبکہ دوسری فجر کھانا حرام کرتی ہے اور نماز کو حلال کرتی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ابواحمد سے صرف ابن محرز ہی روایت کرتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کو بلال (رضی اللہ عنہ) کی اذان اُسے سحری کرنے سے نہ روکے کیونکہ وہ اذان اس لئے دیتے ہیں تاکہ تمہارا سونے والے جاگ جائے اور نماز تہجّد کے لئے کھڑا ہونے والا (سحری کھانے کے لئے گھر) لوٹ جائے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبح اس طرح (لمبائی میں) ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس طرح یعنی چوڑائی میں ظاہر ہوتی ہے۔“