ابن جریج نے ابن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر لوگوں کو ان کے دعووں کے مطابق دے دیا جائے تو بہت سے لوگ دوسروں کے خون اور ان کے اموال پر دعویٰ کرنے لگیں گے لیکن قسم مدعا علیہ پر ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کا دعویٰ قبول کر لیا جائے تو بہت سے لوگ دوسرے لوگوں کے خونوں اور مالوں کے خلاف دعویٰ کر بیٹھیں گے، لیکن مدعی علیہ کو قسم اٹھانا ہو گی۔“
افع بن عمر نے ابن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم مدعا علیہ پر ہونے کا فیصلہ کیا
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھانے کا فیصلہ، مدعی علیہ کے بارے میں کیا ہے (قسم مدعی علیہ اٹھائے)۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قسم اور ایک گواہ سے فیصلہ فرمایا۔ (یعنی ایک گواہ کی موجودگی میں مدعی کی قسم کو دوسرے گواہ کا قائم مقام بنایا
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اور گواہ کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا۔
4473. ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔“
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے پاس جھگڑا لاتے ہو اور ہو سکتا ہے تم میں سے بعض، دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل بہتر انداز یا فطانت سے پیش کرے تو میں اس کے حق میں، اس سے سننے کے مطابق فیصلہ کر دوں تو جس کو میں نے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دلوا دی، وہ اس کو نہ لے، کیونکہ میں اس کو اس چیز کی صورت میں آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں۔“
ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا
امام صاحب یہی حدیث دو اور اساتذہ سے ہشام کی مذکورہ بالا سند سے بیان کرتے ہیں۔
وحدثني حرملة بن يحيي ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني عروة بن الزبير ، عن زينب بنت ابي سلمة ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " سمع جلبة خصم بباب حجرته فخرج إليهم، فقال: إنما انا بشر وإنه ياتيني الخصم، فلعل بعضهم ان يكون ابلغ من بعض، فاحسب انه صادق فاقضي له، فمن قضيت له بحق مسلم، فإنما هي قطعة من النار فليحملها او يذرها "،وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَمِعَ جَلَبَةَ خَصْمٍ بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضَهُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَأَقْضِي لَهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ، فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ فَلْيَحْمِلْهَا أَوْ يَذَرْهَا "،
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے والوں کا شور و غوغا سنا، آپ باہر نکل کر ان کی طرف گئے اور فرمایا: "میں ایک انسان ہوں اور میرے پاس جھگڑا کرنے والے آتے ہیں، ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی دوسرے سے زیادہ زبان آور ہو، میں سمجھوں کہ وہ سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ میں جس شخص کے حق میں کسی (دوسرے) مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے اٹھا لے یا چاہے تو چھوڑ دے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کمرہ کے دروازہ پر جھگڑنے والوں کا شور سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکلے اور فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں اور صورت حال یہ ہے، میرے پاس جھگڑنے والے (اپنا جھگڑا) لے کر آتے ہیں اور ممکن ہے، ان میں سے بعض، بعض کے مقابلہ میں زیادہ مؤثر بیان کرے اور میں سمجھوں یہ سچا ہے، اس لیے اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں جس کے حق میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کروں تو وہ اس کے لیے آگ ہی کا ٹکڑا ہو گا، اس کو اٹھا لے یا چھوڑ دے۔“
صالح اور معمر دونوں نے زہری سے اسی سند کے ساتھ یونس کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔ معمر کی حدیث میں ہے: انہوں (ام سلمہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر جھگڑنے والوں کا شور سنا
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے زہری کی مذکورہ بالا سند سے یونس کی طرح روایت بیان کرتے ہیں، ہاں معمر کی حدیث میں ہے کہ وہ بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ پر جھگڑنے والوں کا شور (لَجَبه) سنا، (یعنی اس حدیث میں جَلَبه کی جگہ لَجَبَه ہے معنی دونوں کا ایک ہی ہے۔)
حدثني علي بن حجر السعدي ، حدثنا علي بن مسهر ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: " دخلت هند بنت عتبة امراة ابي سفيان على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل شحيح، لا يعطيني من النفقة ما يكفيني ويكفي بني، إلا ما اخذت من ماله بغير علمه، فهل علي في ذلك من جناح؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خذي من ماله بالمعروف ما يكفيك ويكفي بنيك "،حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " دَخَلَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ امْرَأَةُ أَبِي سُفْيَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ، لَا يُعْطِينِي مِنَ النَّفَقَةِ مَا يَكْفِينِي وَيَكْفِي بَنِيَّ، إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْ مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمِهِ، فَهَلْ عَلَيَّ فِي ذَلِكَ مِنْ جُنَاحٍ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذِي مِنْ مَالِهِ بِالْمَعْرُوفِ مَا يَكْفِيكِ وَيَكْفِي بَنِيكِ "،
علی بن مسہر نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (بیعت کے لیے) حاضر ہوئیں تو عرض کی: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کو کافی ہو جائے، سوائے اس کے جو میں اس کے مال میں سے اس کی لاعلمی میں لے لوں، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہو گا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معروف طریقے سے ان کے مال میں سے (بس) اتنا لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہا کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوسفیان لالچی اور حریص آدمی ہے،مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو، الا یہ کہ میں اسے بتائے یا اس کے علم میں لائے بغیر اس کے مال سے کچھ لے لوں، کیا اس صورت میں مجھ پر گناہ ہو گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس کے مال سے عرف و دستور کے مطابق اتنا لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کے لیے کافی ہو۔“
وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت:" جاءت هند إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، والله ما كان على ظهر الارض اهل خباء احب إلي من ان يذلهم الله من اهل خبائك، وما على ظهر الارض اهل خباء احب إلي من ان يعزهم الله من اهل خبائك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: وايضا والذي نفسي بيده، ثم قالت: يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل ممسك، فهل علي حرج ان انفق على عياله من ماله بغير إذنه؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا حرج عليك ان تنفقي عليهم بالمعروف".وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُذِلَّهُمُ اللَّهُ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُعِزَّهُمُ اللَّهُ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مُمْسِكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُنْفِقَ عَلَى عِيَالِهِ مِنْ مَالِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُنْفِقِي عَلَيْهِمْ بِالْمَعْرُوفِ".
معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہند رضی اللہ عنہا (بیعت کے لیے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! (پہلے) روئے زمین پر آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کے بارے میں یہ بات نہیں چاہتی تھی کہ اللہ انہیں ذلیل کرے اور (اب ایمان لانے کے بعد) روئے زمین پر آپ کے گھرانے سے بڑھ کر میں کسی گھرانے کے بارے میں یہ نہیں چاہتی کہ اللہ انہیں عزت دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اور بھی (زیادہ تم یہ چاہو گی۔) " پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان مال روک کر رکھنے والے آدمی ہیں۔ تو کیا مجھ پر اس بات میں کوئی حرج ہے کہ میں ان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں سے ان کے گھر والوں پر خرچ کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم معروف طریقے سے ان پر خرچ کرو
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ہند رضی اللہ تعالی عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! زمین کی پشت پر کوئی گھرانہ نہ تھا جس کی ذلت و رسوائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کی ذلت سے زیادہ محبوب ہو اور اب روئے زمین پر آپ کے اہل خانہ سے زیادہ کسی گھرانہ کی عزت مجھے محبوب نہیں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں اور اضافہ ہو گا، اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔“ پھر اس نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوسفیان ایک بخیل آدمی ہے تو کیا مجھے کوئی گناہ ہو گا، اس صورت میں کہ میں اس کا مال اس کے عیال (اہل خانہ) پر اس کی اجازت کے بغیر خرچ کروں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر اس صورت میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ ان پر دستور کے مطابق خرچ کرو۔“