امام صاحب اپنے استاد جناب محمد بن یحییٰ کی سند سے روایت بیان کرتے ہیں مکر عفان کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اپنے کپڑے میں داخل کرلیے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں اونگھنے لگے تو اسے (نماز ختم کر کے) سو جانا چاہیے حتیٰ کہ اس کی نیند ختم ہو جاۓ کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص اونگھتے ہوئے نماز پڑھتا ہے تو شاید وہ استغفار کرنا چاہتا ہو مگر (اونگھ کی وجہ سے) اپنے آپ کو بددعا دے بیٹھے۔“ یہ عیسیٰ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ اونگھ سے نماز نہیں ٹوٹتی کیونکہ اگر اونگھ سے نماز ٹوٹ جاتی تو پھرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کوئی معنی نہیں بنتا کہ ”وہ نہیں جانتا شاید کہ وہ دعا و استغفار کرنا چاہتا ہو (مگر اونگھ کی وجہ سے) اپنے لئے بددعا کر بیٹھے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز چھوڑ دینے کا حُکم اس خدشے کی وجہ سے دیا ہے کہ کہیں نمازی دعا کی بجاۓ اپنے لئے بددعا نہ کر بیٹھے۔ یہ مطلب نہیں کہ جب اسے اونگھ آجاۓ تو وہ نماز میں نہیں رہتا (اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔)