ابواسامہ نے کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا: مجھے عطاء نے خبر دی، کہا: مجھے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے اپنے والد سے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ تبوک میں شرکت کی، کہا: اور حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: وہ غزوہ میرے نزدیک میرا سب سے قابلِ اعتماد عمل ہے۔ عطاء نے کہا: صفوان نے کہا: یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا ایک ملازم تھا، وہ کسی انسان سے لڑ پڑا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کے ہاتھ کو دانتوں سے کاٹا۔۔ کہا: مجھے صفوان نے بتایا تھا کہ ان میں سے کس نے دوسرے کو دانتوں سے کاٹا تھا۔۔ جس کا ہاتھ کاٹا جا رہا تھا اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے والے دو دانتوں میں سے ایک نکال دیا، اس پر وہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اس کے دانت (کے نقصان) کو رائیگاں قرار دیا
حضرت یعلیٰ بن منیہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں جنگ تبوک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا، اور یعلیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کہا کرتے تھے، یہ غزوہ میرے نزدیک سب عملوں میں زیادہ وثوق و اعتماد کے لائق ہے، عطاء کہتے ہیں، صفوان نے کہا، یعلیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، میرا ایک اجیر (نوکر) تھا، اس نے دوسرے انسان سے لڑائی کی، تو ان میں سے ایک نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ لیا، (عطاء کہتے ہیں، صفوان نے مجھے بتایا تھا، ان میں سے کس نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ لیا تھا) جس کا ہاتھ چبایا جا رہا تھا، اس نے کاٹنے والے کے منہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اور اس کے سامنے کے دانتوں میں سے ایک دانت نکل گیا، تو وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ثنیہ کا کوئی تاوان نہ ڈالا۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عفان بن مسلم ، حدثنا حماد ، اخبرنا ثابت ، عن انس " ان اخت الربيع ام حارثة جرحت إنسانا، فاختصموا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: القصاص القصاص، فقالت ام الربيع: يا رسول الله، ايقتص من فلانة والله لا يقتص منها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: سبحان الله يا ام الربيع القصاص كتاب الله، قالت: لا والله لا يقتص منها ابدا، قال: فما زالت حتى قبلوا الدية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من عباد الله من لو اقسم على الله لابره ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنَّ أُخْتَ الرُّبَيِّعِ أُمَّ حَارِثَةَ جَرَحَتْ إِنْسَانًا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْقِصَاصَ الْقِصَاصَ، فَقَالَتْ أُمُّ الرَّبِيعِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُقْتَصُّ مِنْ فُلَانَةَ وَاللَّهِ لَا يُقْتَصُّ مِنْهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا أُمَّ الرَّبِيعِ الْقِصَاصُ كِتَابُ اللَّهِ، قَالَتْ: لَا وَاللَّهِ لَا يُقْتَصُّ مِنْهَا أَبَدًا، قَالَ: فَمَا زَالَتْ حَتَّى قَبِلُوا الدِّيَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رُبیع رضی اللہ عنہا (بنت نضر بن ضمضم) کی بہن، ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کیا (انہوں نے ایک لڑکی کو تھپڑ مار کر اس کا دانت توڑ دیا، صحیح بخاری) تو وہ مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قصاص! قصاص!" تو ام رُبیع رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا؟ اللہ کی قسم! اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سبحان اللہ! اے ام ربیع! قصاص اللہ کی کتاب (کا حصہ) ہے۔" انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! اس سے کبھی قصاص نہیں لیا جائے گا (اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسا نہیں ہونے دے گا۔) کہا: وہ مسلسل اسی بات پر (ڈٹی) رہیں حتی کہ وہ لوگ دیت پر راضی ہو گئے۔ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو وہ ضرور اسے سچا کر دیتا ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ربیع کی بہن، حارثہ کی ماں نے ایک انسان کو زخمی کر ڈالا، تو فریقین مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصاص، قصاص، یعنی بدلہ دینا ہو گا۔“ تو ربیع کی ماں کہنے لگی، اے اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا؟ اللہ کی قسم! اس سے کبھی بھی قصاص نہیں لیا جائے گا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (استعجاب و حیرت سے) فرمایا: ”سبحان اللہ! ربیع کی ماں! اللہ کا قانون قصاص ہے۔“ اس نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم، اس سے کبھی قصاص نہیں لیا جائے گا، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، اس پر تکرار جاری رہا، حتی کہ دوسرے فریق نے دیت کو قبول کر لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں، اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم اٹھائیں، تو اللہ اس کو پوری کر دیتا ہے۔“
حفص بن غیاث، ابومعاویہ اور وکیع نے اعمش سے، انہوں نے عبداللہ بن مرہ سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی مسلمان کا، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، خون حلال نہیں، مگر تین میں سے کسی ایک صورت میں (حلال ہے): شادی شدہ زنا کرنے والا، جان کے بدلے میں جان (قصاص کی صورت میں) اور اپنے دین کو چھوڑ کر جماعت سے الگ ہو جانے والا۔
حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کا خون بہانا جو لا اله الا اللہ
سفیان نے اعمش سے، انہوں نے عبداللہ بن مرہ سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان (خطاب کے لیے) کھڑے ہوئے اور فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! کسی مسلمان آدمی کا خون، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، حلال نہیں سوائے تین انسانوں کے: اسلام کو چھوڑنے والا جو جماعت سے الگ ہونے والا یا جماعت کو چھوڑنے والا ہو، شادی شدہ زانی اور جان کے بدلے جان (قصاص میں قتل ہونے والا
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی لائق بندگی نہیں، جو مسلمان لا الہ الا اللہ کی شہادت و گواہی دیتا ہے، مجھے اللہ کا رسول مانتا ہے، اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، مگر تین قسم کے افراد کو، اسلام کو چھوڑنے والا، جماعت سے یعنی مسلمانوں سے الگ ہونے والا، شادی شدہ ہو کر زنا کرنے والا، اور دوسرے کا قاتل (جان کے بدلے جان)۔“
شیبان نے اعمش سے (سابقہ) دونوں سندوں کے ساتھ سفیان کی حدیث کی طرح بیان کی اور انہوں نے حدیث میں آپ کا فرمان: "اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں!" بیان نہیں کیا، اعمش نے کہا: میں نے یہ حدیث ابراہیم کو بیان کی تو انہوں نے مجھے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے مانند حدیث بیان کی
امام صاحب یہی روایت اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں والذى لا اله غيره
حدثنا ابو بكر بن ابى شيبة ومحمد بن عبد الله بن نمير - واللفظ لابن ابى شيبة - قالا حدثنا ابو معاوية عن الاعمش عن عبد الله بن مرة عن مسروق عن عبد الله قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- «لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الاول كفل من دمها لانه كان اول من سن القتل» .حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ - وَاللَّفْظُ لاِبْنِ أَبِى شَيْبَةَ - قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- «لاَ تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلاَّ كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا لأَنَّهُ كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ» .
ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے عبداللہ بن مرہ سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی ذی روح (انسان) کو ظلم سے قتل نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے خون (گناہ) کا ایک حصہ آدم کے پہلے بیٹے پر پڑتا ہے کیونکہ وہی سب سے پہلا شخص تھا جس نے قتل کا طریقہ نکالا
حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی جان ظلم و زیادتی سے قتل نہیں کی جاتی، مگر آدم کے پہلے بیٹے پر اس کا خون بہانے کا ایک حصہ پڑتا ہے، کیونکہ سب سے پہلے قتل کا طریقہ اسی نے جاری کیا تھا۔“
جریر، عیسیٰ بن یونس اور سفیان سب نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور جریر اور عیسیٰ بن یونس کی حدیث میں ہے: "کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ نکالا تھا۔" ان دونوں نے "اول" کا لفظ بیان نہیں کیا
امام صاحب اپنے تین اور اساتذہ کی سندوں سے اعمش کی مذکورہ بالا سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، جریر اور عیسیٰ بن یونس کی حدیث میں یہ لفظ ہے ”کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ جاری کیا۔“ اوّل
8. باب: قیامت کے دن سب سے پہلے خون کا فیصلہ ہو گا۔
Chapter: The punishment for bloodshed in the hereafter, and bloodshed will be the first thing concerning which judgement is passed among the people on the Day of Resurrection
عبدہ بن سلیمان اور وکیع نے اعمش سے، انہوں نے ابووائل سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن لوگوں کے مابین سب سے پہلے جو فیصلے کیے جائیں گے وہ خون کے بارے میں ہوں گے
حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے درمیان قیامت کے دن سب سے پہلے فیصلہ خونوں کے بارے میں ہو گا۔“