[و] ان الاستطابة بدون ثلاثة احجار لا يكفي دون الاستنجاء بالماء؛ لان المستطيب بدون ثلاثة احجار عاص في فعله وإن استنجى بعده بالماء. والنهي عن الاستنجاء بالعظام والرجيع[وَ] أَنَّ الِاسْتِطَابَةَ بِدُونِ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ لَا يَكْفِي دُونَ الِاسْتِنْجَاءِ بِالْمَاءِ؛ لِأَنَّ الْمُسْتَطِيبَ بِدُونِ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ عَاصٍ فِي فِعْلِهِ وَإِنِ اسْتَنْجَى بَعْدَهُ بِالْمَاءِ. وَالنَّهْيِ عَنِ الِاسْتِنْجَاءِ بِالْعِظَامِ وَالرَّجِيعِ
اور پانی سے استنجا کیے بغیر تین سے کم ڈھیلوں سے استنجا کرنا کافی نہیں ہے۔ کیونکہ تین سے کم ڈھیلوں سے استنجا کرنے والا اپنے فعل کی وجہ سے گناہ گار ہے، اگرچہ اس بعد پانی سے بھی استنجا کرلے، نیز ہڈیوں اور گوبر سے استنجا کرنا منع ہے۔
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکوں نے کہا کہ تمہیں تمہارے ساتھی نے (ہر ادب) سکھایا ہے حتیٰ کہ ممکن ہے کہ تمہیں قضائے حاجت کے (آداب) بھی سکھائے۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (قضائے حاجت کرتے وقت) قبلہ کی طرف مُنہ کرنے سے یا اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے، یا ہڈی یا گوبر سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے۔“ اور فرمایا ہے کہ ”تم میں سے کوئی شخص تین سے کم ڈھیلوں کو کافی نہ سمجھے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب الاستطابة، رقم الحديث: 262، سنن الترمذى: 16، سنن نسائي: 41، سنن ابي داوٗد: 6، سنن ابن ماجه: 316، مسند احمد: 22590»
حضرت عامر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علقمہ رحمہ اللہ سے پوچھا، کیا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ جِنّوں (سے ملاقات) والی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے؟ تو حضرت علقمہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو میں نے عرض کی کہ کیا تم میں سے کوئی شخص جِنّوں (سے ملاقات) والی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھا؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں، لیکن ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (پہاڑوں کی) وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا (لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے) تو ہم نے (آپس میں) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جِنّوں نے اغوا کر لیا ہے یا دھوکے سے قتل کر دیئے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے بد ترین رات گزاری جیسے کوئی قوم گزارتی ہے پھر جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حراء کی طرف سے تشریف لاتے ہوئے دکھائی دیے،ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کےرسول، ہم نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (ہر جگہ) تلاش کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نہ ملے، تو ہم نے ایسی بُری رات گزاری جو کوئی قوم گزارتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جِنّوں کا پیغامبر آیا تھا تو میں اُس کے ساتھ گیا اور اُنہیں قرآن مجید کی تلاوت سنائی۔“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں (اُن کے پڑاؤ کی جگہ) لے گئے اور ہمیں اُن کی (بجھی ہوئی) آگ دکھائی۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اپنی) خوراک کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری خوراک ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، تمہارے ہاتھوں میں آتے ہی وہ گوشت سے بھرپور ہوجائے گی۔ اور ہر لید تمہارے چوپایوں کا چارہ ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان دونوں ہڈی اور لید سے استنجا مت کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائیوں کا کھانا ہے۔“ یہ عبدالاعلیٰ کی روایت ہے۔ ابن ابی زائدہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ہڈی اور لید سے استنجا مت کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائی جِنّوں کی خوراک ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الصلاة: باب الجهر بالقراءة والقراءة على الحن: رقم: 450، سنن ترمذي: 3258، مسند احمد: 436/1، وابن حبان: 1432، واطيالسي فى الصبح فى مسنده: 37/1، والبيهقي فى الكبرىٰ: 29، 30»