امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص مر جائے اور وہ لوگوں کا قرضدار ہو جس کا ایک گواہ ہو، اور اس کا بھی قرض ایک پر آتا ہو اس کا بھی ایک گواہ ہو، اور اس کے وارث قسم کھانے سے انکار کریں تو قرض خواہ قسم کھا کر اپنا قرضہ وصول کریں، اگر کچھ بچ رہے گا تو وہ وارثوں کو نہ ملے گا، کیونکہ انہوں نے قسم نہ کھا کر اپناحق آپ چھوڑ دیا، مگر جب وارث یہ کہیں کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ قرض میں سے کچھ بچ رہے گا اسی واسطے ہم نے قسم نہیں کھائی، اور حاکم کو معلوم ہو جائے کہ وارثوں نے اسی واسطے قسم نہ کھائی تھی تو اس صورت میں وارث قسم کھا کر جو کچھ مال بچ رہا ہے اس کو لے سکتے ہیں۔
قال يحيى: قال مالك: عن جميل بن عبد الرحمن المؤذن ، انه كان يحضر عمر بن عبد العزيز وهو يقضي بين الناس، " فإذا جاءه الرجل يدعي على الرجل حقا نظر، فإن كانت بينهما مخالطة او ملابسة، احلف الذي ادعي عليه، وإن لم يكن شيء من ذلك، لم يحلفه". قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: عَنْ جَمِيلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُؤَذِّنِ ، أَنَّهُ كَانَ يَحْضُرُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ يَقْضِي بَيْنَ النَّاسِ، " فَإِذَا جَاءَهُ الرَّجُلُ يَدَّعِي عَلَى الرَّجُلِ حَقًّا نَظَرَ، فَإِنْ كَانَتْ بَيْنَهُمَا مُخَالَطَةٌ أَوْ مُلَابَسَةٌ، أَحْلَفَ الَّذِي ادُّعِيَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ، لَمْ يُحَلِّفْهُ".
حضرت جمیل بن عبدالرحمٰن حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس آیا کرتے تھے جب وہ فیصلہ کرتے تھے لوگوں کا، جو شخص کسی پر دعویٰ کرے، گو مدعی اور مدعا علیہ میں یک جائی اور تعلق اور ارتباط معلوم ہوتا تو مدعا علیہ سے حلف لیتے ورنہ حلف نہ لیتے۔
قال مالك: وعلى ذلك الامر عندنا، انه من ادعى على رجل بدعوى نظر، فإن كانت بينهما مخالطة او ملابسة، احلف المدعى عليه، فإن حلف بطل ذلك الحق عنه، وإن ابى ان يحلف ورد اليمين على المدعي فحلف طالب الحق، اخذ حقهقَالَ مَالِك: وَعَلَى ذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا، أَنَّهُ مَنِ ادَّعَى عَلَى رَجُلٍ بِدَعْوَى نُظِرَ، فَإِنْ كَانَتْ بَيْنَهُمَا مُخَالَطَةٌ أَوْ مُلَابَسَةٌ، أُحْلِفَ الْمُدَّعَى عَلَيْهِ، فَإِنْ حَلَفَ بَطَلَ ذَلِكَ الْحَقُّ عَنْهُ، وَإِنْ أَبَى أَنْ يَحْلِفَ وَرَدَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعِي فَحَلَفَ طَالِبُ الْحَقِّ، أَخَذَ حَقَّهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہی حکم ہے، جو شخص دعویٰ کرے دوسرے پر تو دیکھا جائے گا اگر مدعی کو مدعی علیہ سے ملاپ اور تعلق معلوم ہوگا تو مدعی علیہ سے حلف لیں، اگر حلف کر لے گا مدعی کا دعویٰ باطل ہوگا، اگر انکار کرے تو پھر مدعی سے حلف لیں گے، اگر وہ حلف کر لے تو اپنا حق لے لے گا۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، ان شهادة الصبيان تجوز فيما بينهم من الجراح، ولا تجوز على غيرهم، وإنما تجوز شهادتهم فيما بينهم من الجراح وحدها لا تجوز في غير ذلك إذا كان ذلك قبل ان يتفرقوا او يخببوا او يعلموا، فإن افترقوا فلا شهادة لهم إلا ان يكونوا قد اشهدوا العدول على شهادتهم قبل ان يفترقواقَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنَّ شَهَادَةَ الصِّبْيَانِ تَجُوزُ فِيمَا بَيْنَهُمْ مِنَ الْجِرَاحِ، وَلَا تَجُوزُ عَلَى غَيْرِهِمْ، وَإِنَّمَا تَجُوزُ شَهَادَتُهُمْ فِيمَا بَيْنَهُمْ مِنَ الْجِرَاحِ وَحْدَهَا لَا تَجُوزُ فِي غَيْرِ ذَلِكَ إِذَا كَانَ ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَتَفَرَّقُوا أَوْ يُخَبَّبُوا أَوْ يُعَلَّمُوا، فَإِنِ افْتَرَقُوا فَلَا شَهَادَةَ لَهُمْ إِلَّا أَنْ يَكُونُوا قَدْ أَشْهَدُوا الْعُدُولَ عَلَى شَهَادَتِهِمْ قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقُوا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ لڑکے لڑ کر ایک دوسرے کو زخمی کریں تو ان کی گواہی درست ہے، لیکن لڑکوں کی گواہی اور مقدمات میں درست نہیں ہے، یہ بھی جب درست ہے کہ لڑ لڑا کر جدا نہ ہو گئے ہوں مگر نہ کیا ہو، اگر جدا جدا چلے گئے ہوں تو پھر ان کی گواہی درست نہیں ہے، مگر جب عادل لوگوں کو اپنی شہادت پر شاہد کر گئے ہوں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میرے منبر پر جھوٹی قسم کھائے اس نے اپنا ٹھکانہ بنالیا جہنم میں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 3246، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4368، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7905، 7906، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6018، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2325، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15406، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 10»
وحدثني مالك، عن العلاء بن عبد الرحمن ، عن معبد بن كعب السلمي ، عن اخيه عبد الله بن كعب بن مالك الانصاري ، عن ابي امامة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من اقتطع حق امرئ مسلم بيمينه، حرم الله عليه الجنة واوجب له النار". قالوا: وإن كان شيئا يسيرا يا رسول الله؟ قال:" وإن كان قضيبا من اراك، وإن كان قضيبا من اراك، وإن كان قضيبا من اراك" . قالها ثلاث مراتوَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبٍ السَّلَمِيِّ ، عَنْ أَخِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَأَوْجَبَ لَهُ النَّارَ". قَالُوا: وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَإِنْ كَانَ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ، وَإِنْ كَانَ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ، وَإِنْ كَانَ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ" . قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بھائی مسلمان کا حق اڑالے جھوٹی قسم کھا کر، تو اللہ جنت کو اس پر حرام کرے گا، اور جہنم اس کے لئے ضروری کرے گا۔“ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرچہ وہ حق تھوڑا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ ایک شاخ ہو پیلو کی، اگرچہ ایک شاخ ہو پیلو کی، اگرچہ ایک شاخ ہو پیلو کی۔“ تین بار فرمایا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 137، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5087، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5421، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5939، 5940، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2645، 2646، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2324، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20768، 20769، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22594، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 11»
قال قال يحيى: قال مالك: عن داود بن الحصين ، انه سمع ابا غطفان بن طريف المري ، يقول:" اختصم زيد بن ثابت الانصاري ، وابن مطيع في دار كانت بينهما، إلى مروان بن الحكم وهو امير على المدينة، فقضى مروان على زيد بن ثابت باليمين على المنبر، فقال زيد بن ثابت: احلف له مكاني. قال: فقال مروان:" لا والله إلا عند مقاطع الحقوق". قال: فجعل زيد بن ثابت يحلف ان حقه لحق، ويابى ان يحلف على المنبر. قال: فجعل مروان بن الحكم يعجب من ذلك" . قَالَ قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ ، يَقُولُ:" اخْتَصَمَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ ، وَابْنُ مُطِيعٍ فِي دَارٍ كَانَتْ بَيْنَهُمَا، إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَقَضَى مَرْوَانُ عَلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ بِالْيَمِينِ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: أَحْلِفُ لَهُ مَكَانِي. قَالَ: فَقَالَ مَرْوَانُ:" لَا وَاللَّهِ إِلَّا عِنْدَ مَقَاطِعِ الْحُقُوقِ". قَالَ: فَجَعَلَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَحْلِفُ أَنَّ حَقَّهُ لَحَقٌّ، وَيَأْبَى أَنْ يَحْلِفَ عَلَى الْمِنْبَرِ. قَالَ: فَجَعَلَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ يَعْجَبُ مِنْ ذَلِكَ" .
حضرت ابوغطفان (سعد) بن طریف سے روایت ہے کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ نے جھگڑا کیا ایک گھر میں جو دونوں میں مشترک تھا، تو لے گئے مقدمہ مروان بن حکم کے پاس، وہ ان دنوں میں حاکم تھا مدینہ کا۔ مروان نے فیصلہ کیا اس بات پر کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قسم کھائیں منبر شریف پر، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنی جگہ پر قسم کھاؤں گا، مروان نے کہا: نہیں وہیں قسم کھاؤ جہاں لوگوں کے قبضے چکتے ہیں (منبر شریف پر)، تو سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قسم کھاتے تھے: میں سچا ہوں۔ لیکن منبر پر قسم کھانے سے انکار کرتے تھے، اور مروان کو تعجب ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري قبل الحديث: 2673، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20756، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5930، والشافعي فى «الاُم» برقم:36/7، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 12»
قال مالك: لا ارى ان يحلف احد على المنبر على اقل من ربع دينار وذلك ثلاثة دراهمقَالَ مَالِك: لَا أَرَى أَنْ يُحَلَّفَ أَحَدٌ عَلَى الْمِنْبَرِ عَلَى أَقَلَّ مِنْ رُبُعِ دِينَارٍ وَذَلِكَ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ چوتھائی دینار یعنی تین درہم سے کم میں منبر پر حلف نہ لیا جائے گا۔