1277 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا محمد بن المنكدر، قال: سمعت جابر بن عبد الله، يقول: قدم اعرابي المدينة، فبايع النبي صلي الله عليه وسلم علي الهجرة، ثم حم، فاتي النبي صلي الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله اقلني بيعتي، قال: «لا» ، فلما اشتدت به الحمي اتي النبي صلي الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله اقلني بيعتي، قال: «لا» ، ثم اشتدت به الحمي، فاتي النبي صلي الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله اقلني بيعتي، قال: «لا» ، ثم اشتدت به الحمي، فخرج هاربا من المدينة، فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «المدينة كالكير تنفي خبثها، وتنصع طيبها» 1277 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَدِمَ أَعْرَابِيٌّ الْمَدِينَةَ، فَبَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي الْهِجْرَةِ، ثُمَّ حُمَّ، فَأَتَي النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقِلْنِي بَيْعَتِي، قَالَ: «لَا» ، فَلَمَّا اشْتَدَّتْ بِهِ الْحُمَّي أَتَي النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقِلْنِي بَيْعَتِي، قَالَ: «لَا» ، ثُمَّ اشْتَدَّتْ بِهِ الْحُمَّي، فَأَتَي النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقِلْنِي بَيْعَتِي، قَالَ: «لَا» ، ثُمَّ اشْتَدَّتْ بِهِ الْحُمَّي، فَخَرَجَ هَارِبًا مِنَ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا، وَتُنْصِعُ طِيبَهَا»
1277- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دیہاتی مدینہ منورہ آیا، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر ہجرت کی بیعت کی اسے بخار ہو گیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ ! میری بیعت مجھے واپس کیجئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“! پھر اس کا بخار تیز ہو گیا، وہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“! پھر اس کا بخار اور تیز ہو گیا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپ میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“! پھر اس کا بخار اور شدید ہو گیا، تو وہ مدینہ منورہ سے خوفزدہ ہو کر چلا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مدینہ کی مثال بھٹی کی مانند ہے، جو زنگ دیتی ہے اور صاف چیز کو نکھار دیتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1883، 7209، 7211، 7216، 7322، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1383، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3732، 3735، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4196، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4248، 7760، 8665، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3920، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14505، 14521، 15167، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2023، 2174»
1278 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، قال: سمعت جابر بن عبد الله، يقول: بعثنا رسول الله صلي الله عليه وسلم في ثلاث مائة راكب واميرنا ابو عبيدة بن الجراح نرصد عيرا لقريش، فاصابنا جوع شديد حتي اكلنا الخبط، فسمي ذلك الجيش جيش الخبط، قال: فالقي لنا البحر ونحن بالساحل دابة تسمي العنبر، فاكلنا منها نصف شهر، وايتدمنا به وادهنا بودكه حتي ثابت اجسامنا، قال: فاخذ ابو عبيدة ضلعا من اضلاعه فنصبه، ثم نظر اطول رجل واعظم جمل في الجيش، فامره ان يركب الجمل، ثم يمر تحته، ففعل، فمر تحته، فاتينا النبي صلي الله عليه وسلم، فاخبرناه، فقال: «هل معكم منه شيء؟» ، قلنا: لا1278 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثِ مِائَةِ رَاكِبٍ وَأَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ نَرْصُدُ عِيرًا لِقُرَيْشٍ، فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّي أَكَلْنَا الْخَبَطَ، فَسُمِّيَ ذَلِكَ الْجَيْشُ جَيْشَ الْخَبَطِ، قَالَ: فَأَلْقَي لَنَا الْبَحْرُ وَنَحْنُ بِالسَّاحِلِ دَابَّةً تُسَمَّي الْعَنْبَرَ، فَأَكَلْنَا مِنْهَا نِصْفَ شَهْرٍ، وَايْتَدَمْنَا بِهِ وَادَّهَنَّا بَوَدِكِهِ حَتَّي ثَابَتْ أَجْسَامُنَا، قَالَ: فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَنَصَبَهُ، ثُمَّ نَظَرَ أَطْوَلَ رَجُلٍ وَأَعْظَمَ جَمَلٍ فِي الْجَيْشٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ الْجَمَلَ، ثَمَّ يَمُرَّ تَحْتَهُ، فَفَعَلَ، فَمَرَّ تَحْتَهُ، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْنَاهُ، فَقَالَ: «هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ؟» ، قُلْنَا: لَا
1278- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تین سو سواروں کو ایک مہم پر بھیجا، ہمارے امیر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے، ہم قریش کے ایک قافلے کی گھات میں تھے، ہمیں شدید بھوک لاحق ہو گئی، یہاں تک کہ ہم پتے کھانے پر مجبور ہو گئے ا س لیے اس لشکر کا نام ”پتوں والا لشکر“ رکھا گیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سمندر سے ہمارے سامنے ایک سمندری مخلوق آئی ہم اس وقت ساحل پر موجود تھے اسے ”عنبر“ کہا جاتا تھا ہم پندرہ دن تک اس کا گوشت کھاتے رہے، ہم نے اس کے تیل کے ساتھ روٹی کھائی اس کی چربی کو جسم پر ملا یہاں تک کہ ہم موٹے تازے ہو گئے۔ پھر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی کو کھڑا کیا پھر انہوں نے سب سے طویل ترین شخص اور لشکر کے سب سے اونچے اونٹ کا جائزہ لیا، پھر اس شخص کو حکم دیا کہ وہ ا س اونٹ پر سوار ہوا اور اس پسلی کے نیچے سے گزرے تو اس شخص نے ایسا ہی کیا وہ اس کے نیچے سے گزرگیا، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا تمہارے پاس اس کا کچھ حصہ ہے“؟ ہم نے عرض کی: جی نہیں!
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2483، 2983، 4360، 4361، 4362، 5493، 5494، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1935، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5259، 5260، 5261، 5262، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4362، 4363، 4364، 4365، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4844، 4845، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2475، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2055، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4159، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19026، 19027، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14477، 14478، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1786، 1954، 1955، 1956»
1279 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: عن ابي الزبير، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلي الله عليه وسلم، بمثله وزاد، فكان فينا رجل معه جراب فيه تمر، فكان يعطينا منه قبضة، ثم صارت إلي تمرة فلما فني وجدنا فقده.1279 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ وَزَادَ، فَكَانَ فِينَا رَجُلٌ مَعَهُ جِرَابٌ فِيهِ تَمْرٌ، فَكَانَ يُعْطِينَا مِنْهُ قَبْضَةً، ثَمَّ صَارَتْ إِلَي تَمْرَةٍ فَلَمَّا فَنِيَ وَجَدْنَا فَقْدَهُ.
1279-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ ”ہمارے درمیان ایک شخص تھا جس کے پاس بوری تھی جس میں کھجوریں موجود تھیں وہ اس میں سے ایک، ایک مٹھی کھجوریں ہمیں دیا کرتا تھا، پھر نو بت ایک کھجور تک آگئی، جب وہ بھی ختم ہوگئی، تو ہمیں اس کی غیر موجود گی کا شدت سے احساس ہوا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف،لانقطاعه،ولكن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2483، 2983، 4360، 4361، 4362، 5493، 5494، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1935، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5259، 5260، 5261، 5262، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4362، 4363، 4364 والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4844، 4845، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2475، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2055، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4159، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19026، 19027،وأحمد فى «مسنده» برقم: 14477، 14478، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1786، 1954، 1955، 1956»
1280 - قال ابو بكر الحميدي:" ولم يسمعه سفيان من ابي الزبير، قال: ثنا عمرو، عن جابر، انه سمعه يقول: وكان فينا رجل، فلما اشتد الجوع نحر ثلاث جزائر، ثم نحر ثلاث جزائر، ثم نحر ثلاث جزائر، ثم نهاه ابو عبيدة بن الجراح"1280 - قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْحُمَيْدِيُّ:" وَلَمْ يَسْمَعْهُ سُفْيَانُ مِنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، قَالَ: ثنا عَمْرٌو، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: وَكَانَ فِينَا رَجُلٌ، فَلَمَّا اشْتَدَّ الْجُوعُ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ"
1280- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہمارے درمیان ایک شخص موجود تھا، جب بھوک شدید ہوگئی توا س نے تین اونٹ ذبح کر لیے، پھر تین اونٹ ذبح کیے، پھر تین اونٹ ذبح کیے، پھر سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے اسے ایسا کرنے سے منع کردیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2483، 2983، 4360، 4361، 4362، 5493، 5494، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1935، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5259، 5260، 5261، 5262، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4362، 4363، 4364، 4365، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4844، 4845، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2475، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2055، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4159، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19026، 19027، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14477، 14478، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1786، 1954، 1955، 1956»
1281 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: اخبرنا عمرو، عن ابي صالح، عن قيس بن سعد بن عبادة، قال:" قلت لابي وكنت في الجيش جيش الخبط، فاصاب الناس جوع، قال لي ابي: انحر، قلت: نحرت، ثم اصابهم جوع شديد، فقال لي ابي: انحر، قلت: نحرت، ثم اصابهم جوع شديد، فقال لي ابي: انحر، فقلت: نحرت، ثم قال ابي: انحر، قلت: نهيت"1281 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، قَالَ:" قُلْتُ لِأَبِي وَكُنْتُ فِي الْجَيْشِ جَيْشِ الْخَبَطٍ، فَأَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ، قَالَ لِي أَبِي: انْحَرْ، قُلْتُ: نَحَرْتُ، ثُمَّ أَصَابَهُمْ جُوعٌ شَدِيدٌ، فَقَالَ لِي أَبِي: انْحَرْ، قُلْتُ: نَحَرْتُ، ثُمَّ أَصَابَهُمْ جُوعٌ شَدِيدٌ، فَقَالَ لِي أَبِي: انْحَرْ، فَقُلْتُ: نَحَرْتُ، ثُمَّ قَالَ أَبِي: انْحَرْ، قُلْتُ: نُهِيتُ"
1281-قیس بن سعد بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے والد سے کہا: میں اس لشکر میں موجود تھا، جسے پتوں والا لشکر کا نام دیا گیا، لوگوں کو بھوک لاحق ہوگئی تو میرے والد نے مجھ سے کہا: تم قربان کرو، میں نے جواب دیا: میں قربان کر لیتا ہوں، پھر لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا تو میرے والد نے مجھے فرمایا: تم قربان کرو! میں نے جواب دیا: میں قربان کردیتا ہوں، پھر لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا تو میرے والد نے مجھے کہا: تم قربان کرو، تو میں نے جواب دیا: مجھے (لشکر کے امیر کی طرف سے) اس سے منع کردیا گیا ہے۔
1282 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، قال: سمعت جابر بن عبد الله يشير إلي اذنيه، اشهد لسمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم باذني هاتين، يقول: «إن ناسا يخرجون من النار فيدخلون الجنة» 1282 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يُشِيرُ إِلَي أُذُنَيْهِ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ، يَقُولُ: «إِنَّ نَاسًا يَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ»
1282- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات بیان کرتے ہیں: میں گواہی دے کر یہ بات کہتا ہوں کہ میں نے اپنے ان دو کانوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بے شک کچھ لوگ جہنم سے نکالے جائیں گے اور جنت میں داخل کردئیے جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6558، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 191، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 183، 7483، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20834، 20835، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14533، 14715، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1831، 1973، 1992، 1993، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20862، 20863»
1283 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: حدثنا عمرو كم إن شاء الله، قال: سمعت جابر بن عبد الله، يقول: كان معاذ بن جبل يصلي مع النبي صلي الله عليه وسلم العشاء، ثم يرجع فيصليها بقومه، قال: فاخر رسول الله صلي الله عليه وسلم العشاء ذات ليلة، قال: فصلاها معاذ معه، ثم رجع فام قومه، فافتتح سورة البقرة، فتنحي رجل ممن خلفه، فصلي وحده، ثم انصرف، فقالوا: نافقت، فقال: لا، ولكني آتي رسول الله صلي الله عليه وسلم فاخبره، فاتي رسول الله صلي الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنك اخرت العشاء البارحة، وإن معاذا صلاها معك، ثم رجع فامنا، فافتتح بسورة البقرة، فلما رايت ذلك تاخرت، فصليت وحدي، وإنما نحن اهل نواضح نعمل بايدينا، فاقبل النبي صلي الله عليه وسلم علي معاذ، فقال: «افتان انت يا معاذ، افتان انت، اقرا سورة كذا، وسورة كذا» ، وعدد السور. قال سفيان: وزاد فيه ابو الزبير: ان النبي صلي الله عليه وسلم، قال: «سبح اسم ربك الاعلي، والليل إذا يغشي، والسماء ذات البروج، والشمس وضحاها، والسماء والطارق» . قال سفيان: فقلت لعمرو بن دينار: إن ابا الزبير، يقول: قال النبي صلي الله عليه وسلم: «اقرا بسبح اسم ربك الاعلي، والليل إذا يغشي، والشمس وضحاها، والسماء والطارق، والسماء ذات البروج» ، فقال عمرو: وهو هذا، او نحو هذا1283 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو كُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ يَرْجِعُ فَيْصَلِّيَهَا بِقَوْمِهِ، قَالَ: فَأَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، قَالَ: فَصَلَّاهَا مُعَاذٌ مَعَهُ، ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَّ قَوْمَهُ، فَافْتَتَحَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَتَنَحَّي رَجُلٌ مِمَّنْ خَلْفَهُ، فَصَلَّي وَحْدَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالُوا: نَافَقْتَ، فَقَالَ: لَا، وَلَكِنِّي آتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَأَتَي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ أَخَّرْتَ الْعِشَاءَ الْبَارِحَةَ، وَإِنَّ مُعَاذًا صَلَّاهَا مَعَكَ، ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَّنَا، فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَأَخَّرْتُ، فَصَلَّيْتُ وَحْدِي، وَإِنَّمَا نَحْنُ أَهْلُ نَواضِحَ نَعْمَلُ بِأَيْدِينَا، فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي مُعَاذٍ، فَقَالَ: «أَفَتَّانٌ أَنْتَ يَا مُعَاذُ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ، اقْرَأْ سُورَةَ كَذَا، وَسُورَةَ كَذَا» ، وَعَدَّدَ السُّوَرَ. قَالَ سُفْيَانُ: وَزَادَ فِيهِ أَبُو الزُّبَيْرِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَي، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَي، وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ، وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ» . قَالَ سُفْيَانُ: فَقُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: إِنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْرَأْ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَي، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَي، وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ، وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ» ، فَقَالَ عَمْرٌو: وَهُوَ هَذَا، أَوْ نَحْوُ هَذَا
1283- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں نماز ادا کرتے تھے، پھر وہ (اپنے محلے) واپس تشریف لے جاتے تھے اور اپنی قوم کو یہ نماز پڑھایا کرتے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں: ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کی، تو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں عشاء کی نماز ادا کی پھر وہ واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنی قوم کو نماز پڑھانا شروع کی، تو سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کردی ان کے پیچھے نمازادا کرنے والوں میں سے ایک صاحب پیچھے ہٹے انہوں نے تنہا نماز ادا کی اور چلے گئے۔ لوگوں نے ان سے کہا: تم منافق ہوگئے ہو، تو وہ بولا: جی نہیں! میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ا س بارے میں بتاؤں گا۔ پھر وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! گزشتہ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کی تھی سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں یہ نماز ادا کی پھر واپس آئے اور انہوں نے ہمیں نماز پڑھانا شروع کی اور سورۃ بقرہ پڑھنی شروع کردی جب میں نے یہ دیکھا تو میں پیچھے ہٹ گیا پھر میں نے اکیلے نماز ادا کرلی ہم اونٹ پالنے والے لوگ ہیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے کام کاج کرنا ہوتا ہے۔ (راوی کہتے ہیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے معاذ! کیا تم آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تم آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ تم فلاں اور فلاں سورت کی تلاوت کیا کرو!“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں کی گنتی کروائی۔ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: ابوزبیر نامی راوی نے اس میں یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سورۃ الاعلیٰ، سورۃ البروج، سورۃ الشمس اور سورۃ طارق کی تلاوت کیا کرو۔“ سفیان کہتے ہیں: میں نے عمروبن دینار سے کہا: ابوزبیر نے تو یہ بات بیان کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ ”تم سورۃ الاعلیٰ، سورۃ الیل، سورۃ الشمس، سورۃا لطارق اور سورۃ البروج کی تلاوت کیا کرو۔“ تو عمر وبن دینار نے کہا: یہ الفاظ یہی ہیں، یا اس کی مانند ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 700، 701، 705، 711، 6106، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 465، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 521، 1611، 1633، 1634، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1524، 1839، 1840، 2400، 2401، 2402، 2403، 2404، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 830، 834، 983، 996، 997، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 907، 911، وأبو داود فى «سننه» برقم: 599، 600، 790، بدون ترقيم، والترمذي فى «جامعه» برقم: 583، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1333، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 836، 986، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4108، 5180، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14410، 14422، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1827»
اخبرنا الشيخ الإمام العالم الزاهد الحافظ تقي الدين ابو محمد عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي، اخبرنا ابو طاهر عبد الغفار بن محمد بن جعفر بن زيد المؤدب قراءة عليه من اصله قال: ثنا ابو علي بشر بن موسي الاسدي قال:أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ الْإِمَامُ الْعَالِمُ الزَّاهِدُ الْحَافِظُ تَقِيُّ الدِّينِ أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الْغَنِيِّ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ سُرُورٍ الْمَقْدِسِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ زَيْدٍ الْمُؤَدِّبُ قِرَاءَةً عَلَيْهِ مِنْ أَصْلِهِ قَالَ: ثنا أَبُو عَلِيٍّ بِشْرُ بْنُ مُوسَي الْأَسَدِيُّ قَالَ:
1284 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو، قال: سمعت جابر بن عبد الله، يقول: جاء رسول الله صلي الله عليه وسلم إلي عبد الله بن ابي ابن سلول بعد ما ادخل حفرته، قال: «فامر به، فاخرج، فوضعه علي ركبتيه، فالبسه قميصه، ونفث عليه من ريقه» ، والله اعلم،1284 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرٌو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ حُفْرَتَهُ، قَالَ: «فَأَمَرَ بِهِ، فَأُخْرِجَ، فَوَضَعَهُ عَلَي رُكْبَتَيْهِ، فَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ، وَنَفَثَ عَلَيْهِ مِنْ رِيقِهِ» ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ،
1284- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن اُبی بن سلول (کی میت) کے پاس تشریف لائے، اس وقت جب اسے قبر میں رکھا جا چکا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت اسے باہر نکالا گیا اور اس کی میت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھا گیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اسے پہنوائی ا ور اس پراپنا لعاب دہن ڈالا۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1270، 1350، 5795، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2773، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3174، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1900، 2018، 2019، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2039، 2157، 2158، 9586، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6787، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15217، 15307، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1828، 1958»
1285 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ابو هارون موسي بن ابي عيسي، قال: فقال له عبد الله بن عبد الله بن ابي، وكان علي النبي صلي الله عليه وسلم قميصان: البسه يا رسول الله القميص الذي يلي جلدك1285 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَبُو هَارُونَ مُوسَي بْنُ أَبِي عِيسَي، قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبَيٍّ، وَكَانَ عَلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَانِ: أَلْبِسْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ الْقَمِيصَ الَّذِي يَلِي جِلْدَكَ
1285- ابوہارون کہتے ہیں: عبداللہ بن اُبی کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ گزارش کی: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس و قت دو قمیصیں پہنی ہوئی تھیں، اس نے عرض کی تھی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ وقمیص اسے پہنادیجئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے ساتھ مس ہورہی ہے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات، انفرد به المصنف من هذا الطريق»