حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، وزهير بن حرب كلاهما عن سفيان، قال ابو بكر : حدثنا سفيان بن عيينة ، حدثنا عمرو بن دينار ، عن ابي معبد ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يقول: " لا يخلون رجل بامراة، إلا ومعها ذو محرم، ولا تسافر المراة، إلا مع ذي محرم "، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، إن امراتي خرجت حاجة، وإني اكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال: " انطلق، فحج مع امراتك "،حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ كِلَاهُمَا عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حدثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَقُولُ: " لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ، إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ "، فَقَامَ رَجُلٌ، فقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً، وَإِنِّي اكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: " انْطَلِقْ، فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ "،
سفیان بن عیینہ نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) ہمیں عمرو بن دینا ر نے ابو معبد سے حدیث بیان کی (کہا) میں نے ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ خطبہ دیتے ہوئے فر ما رہے تھے "کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہا نہ ہو مگر یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر یہ محرم کے ساتھ ہو۔ایک آدمی اٹھااور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوے میں لکھا جا چکا ہے آپ نے فرمایا: " جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی مرد، کسی عورت کے ساتھ، اس کے محرم کے بغیر تنہائی میں نہ رہے یا اکیلا نہ ہو اور عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔“ تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر دریافت کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیوی حج پر جا رہی ہے، اور میرا نام فلاں فلاں لڑائی میں لکھ دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔“
ابن جریج نے (عمر و بن دینار سے) اسی سند کے ساتھ اسی کے معنی روایت بیان کی اور یہ (جملہ) ذکر نہیں کیا: "کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہا نہ ہو مگر یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محر م ہو۔
امام صاحب ایک اور استاد سے روایت کرتے ہیں، لیکن اس میں یہ نہیں ہے کہ ”کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر اکیلا نہ رہے۔“
سیدنا علی ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں سکھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سفر میں جانے کے لئے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے، پھر یہ دعا پڑھتے: سبْحانَ الذی سخَّرَ لَنَا ہذا وما کنَّا لہ مُقرنینَ، وَإِنَّا إِلی ربِّنَا لمُنقَلِبُونَ . اللَّہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فی سَفَرِنَا ہذا البرَّ والتَّقوی، ومِنَ العَمَلِ ما تَرْضی . اللَّہُمَّ ہَوِّنْ علَیْنا سفَرَنَا ہذا وَاطْوِ عنَّا بُعْدَہُ، اللَّہُمَّ أَنتَ الصَّاحِبُ فی السَّفَرِ، وَالخَلِیفَۃُ فی الأہْلِ. اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ وعْثَاءِ السَّفَرِ، وکآبۃِ المنظَرِ، وَسُوءِ المنْقلَبِ فی المالِ والأہلِ"پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارے تابع کر دیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں } الزخرف: 14,13 { اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری مانگتے ہیں اور ایسے کام کا سوال کرتے ہیں جسے تو پسند کرے۔ اے اللہ! ہم پر اس سفر کو آسان کر دے اور اس کی مسافت کو ہم پر تھوڑا کر دے۔ اے اللہ تو ہی سفر میں رفیق سفر اور گھر میں نگران ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور اپنے مال اور گھر والوں میں برے حال میں لوٹ کر آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (یہ تو جاتے وقت پڑھتے) اور جب لوٹ کر آتے تو بھی یہی دعا پڑھتے مگر اس میں اتنا زیادہ کرتے کہآیبون تائبون عائدون عابدون لربنا حامدون ”ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، خاص اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی تعریف کرنے والے ہیں“۔
علی ازدی رضیس اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے انہیں سکھایا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر باہر روانہ ہونے کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے، تین دفعہ اَللہُ اَکْبَر
اسماعیل بن علیہ نے ہمیں عاصم احول سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبداللہ بن سرجس سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرکرتے توسفر کی مشقت، واپسی میں اکتاہٹ، اکھٹا ہونے کے بعد بکھر جانے، مظلوم کی بدعا سے اور اہل ومال میں سے کسی برے منظر سے پناہ مانگتے۔
حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر روانہ ہوتے، تو سفر کی مشقت، رنج دہ واپسی، کمال کے بعد زوال، مظلوم کی بددعا، اور اہل و عیال اور مال و متاع میں برے نظارہ سے پناہ مانگتے۔
ابومعاویہ (محمد بن خازم) اور عبدالواحد دونوں نے عاصم سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت بیان کی، مگر عبدالواحد کی حدیث میں"مال اوراہل میں" کے الفاظ ہیں اور محمد بن خازم کی روایت میں ہے، کہا: " جب آپ واپس آتے تواہل (کی سلامتی کی دعا) سے ابتدا کرتے"اور (یہ) دونوں کی روایت میں ہے؛" اے اللہ! میں سفر کی تکان سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔"
امام صاحب یہی روایت اپنے تین اور اساتذہ سے نقل کرتے ہیں، مگر عبدالواحد کی روایت میں فِي الْمَالِ وَالْاَهْلِ
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوٹتے لشکروں سے یا چھوٹی جماعت سے لشکر کی یا حج و عمرہ سے تو جب پہنچ جاتے کسی ٹیلہ پر، یا اونچی زمین کنکریلی پر، تو تین بار اللہ اکبر کہتے تھے پھر «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ» پڑھتے یعنی ”کوئی لائق عبادت کے نہیں ہے سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی شریک نہیں اس کا، اسی کی ہے سلطنت اور اسی کے لیے ہے سب تعریف اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے ہم لوٹنے والے، رجوع ہونے والے، عبادت کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے، اپنے رب کی خاص حمد کرنے والے ہیں، سچا کیا اللہ پاک نے وعدہ اپنا اور مدد کی اپنے غلام کی اور شکست دی لشکروں کو اسی اکیلے نے۔“
ایوب، مالک اورضحاک سب نے نافع سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند حدیث بیان کی، سوائے ایوب کی حدیث کے، اس میں تکبیر دو مرتبہ ہے۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، ان میں ایک کی روایت میں تکبیر دو دفعہ کہنے کا ذکر ہے۔
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل ابن علية ، عن يحيى بن ابي إسحاق ، قال: قال انس بن مالك : اقبلنا مع النبي صلى الله عليه وسلم انا، وابو طلحة، وصفية رديفته على ناقته، حتى إذا كنا بظهر المدينة، قال: " آيبون، تائبون، عابدون لربنا حامدون "، فلم يزل يقول ذلك حتى قدمنا المدينة،وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا، وَأَبُو طَلْحَةَ، وَصَفِيَّةُ رَدِيفَتُهُ عَلَى نَاقَتِهِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِظَهْرِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: " آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ "، فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ ذَلِكَ حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ،
اسماعیل بن علیہ نے ہمیں یحییٰ بن ابی اسحاق سے حدیث بیان کی، انھوں نے کیا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اور ابو طلحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں (سفر سے) و اپس آئے اورحضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کی اونٹنی پر آپ کے پیچھے (سوار) تھیں۔جب ہم مدینہ کے بالائی حصے میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہم لوٹنے و الے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں، "آپ مسلسل یہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ ہم مدینہ آگئے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم یعنی میں اور ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس آ رہے تھے، اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھیں، حتی کہ جب ہم مدینہ کی سرزمین کی پشت پر پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہنے شروع کر دئیے: ”لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی الفاظ بار بار کہتے رہے یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔