وحدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن عمارة بن عمير ، عن إبراهيم بن ابي موسى ، عن ابي موسى ، انه كان يفتي بالمتعة، فقال له رجل: رويدك ببعض فتياك، فإنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في النسك بعد، حتى لقيه بعد فساله، فقال عمر : " قد علمت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد فعله واصحابه، ولكن كرهت ان يظلوا معرسين بهن في الاراك، ثم يروحون في الحج تقطر رءوسهم ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدُ، حَتَّى لَقِيَهُ بَعْدُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ عُمَرُ : " قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ وَأَصْحَابُهُ، وَلَكِنْ كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا مُعْرِسِينَ بِهِنَّ فِي الْأَرَاكِ، ثُمَّ يَرُوحُونَ فِي الْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ ".
ابراہیم بن ابی موسیٰ نے حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ حج تمتع (کرنے) کافتویٰ دیاکرتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا: اپنےبعض فتووں میں زرا رک جاؤ، تم نہیں جانتے کہ اب امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے مناسک (حج) کے متعلق کیا نیا فرمان جاری کیا ہے۔بعد میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (حکم صادر) کیا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (اس پرعمل) کیا، لیکن مجھے یہ بات ناگوارمعلوم ہوئی کہ لوگ عرفات کے پاس وادی عرفہ کے قریب اراک مقام میں (یا پیلو کے درختوں کی اوٹ میں) اپنی عورتوں کےساتھ لطف اندوز ہوتے رہیں۔پھر جب وہ (آٹھ ذوالحجہ یوم الترویہ کی) صبح حج کے لئے چلیں تو (غسل جنابت کریں اور) ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حج تمتع کا فتویٰ دیا کرتا تھا، تو مجھے ایک آدمی نے کہا، اپنے اس فتویٰ سے باز رہو، کیونکہ تمہیں پتہ نہیں ہے، تیرے بعد امیر المؤمنین نے حج کے بارے میں کیا نیا حکم جاری کیا ہے، حتی کہ بعد میں ان کی ملاقات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی، تو ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا، مجھے خوب معلوم ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے حج تمتع کیا ہے، لیکن میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے اپنی عورتوں سے تعلق قائم کریں، پھر حج کرنے کے لیے چلیں، اور ان کے سروں سے پانی کے قطرات گر رہے ہوں (غسل جنابت کے سبب)۔
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی، کہا: عبداللہ بن شقیق نے بیان کیا: عثمان رضی اللہ عنہ حج تمتع سے منع فرمایا کرتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کا حکم دیتے تھے۔ (ایک مرتبہ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں کوئی بات کہی۔اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا تھا۔ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے) کہا: جی بالکل (کیا تھا) لیکن اس وقت ہم خوفزدہ تھے۔
عبداللہ بن شقیق رحمۃاللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع سے روکتے تھے، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا حکم دیتے تھے، تو حضرت عثمان رضی اللہ عتالیٰ عنہ نے اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کی، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، تمہیں خوب معلوم ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا تھا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، ہاں، لیکن ہم اس وقت خوف زدہ تھے۔
عمرو بن مرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی، کہا: (ایک مرتبہ) مقام عسفان پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ اکھٹے ہوئے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حج تمتع سے یا (حج کے مہینوں میں) عمرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: آپ اس معاملے میں کیا کرنا چاہتے ہیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور آپ رضی اللہ عنہ اس سے منع فرماتے ہیں؟حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: آپ اپنی ر ائے کی بجائے ہمیں ہماری رائے پر چھوڑ دیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: (آپ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کےخلاف حکم دے رہے ہیں) میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا۔جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ (اصرار) دیکھا توحج وعمرہ دونوں کا تلبیہ پکارنا شروع کردیا (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تمتع بھی رائج رہے۔)
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما عُسفان نامی مقام پر اکٹھے ہوئے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع سے یا (حج کے ایام میں) عمرہ کرنے سے منع کرتے تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، کس مقصد سے آپ اس کام سے روکتے ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے؟ تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، آپ ہمیں اس بحث سے معذور ہی سمجھیں، تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں اس مسئلہ میں تمہیں (آزاد) کیسے چھوڑ سکتا ہوں، تو جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حالات دیکھے تو دونوں (حج و عمرہ) کا تلبیہ کہنا شروع کر دیا۔
اعمش نے ابراہیم تیمی سے، انھوں نے اپنے والد (یزید بن شریک) سے، انھوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے فرمایا: حج میں تمتع (حج کا احرام باندھنا پھرعمرہ کرکے احرام کھول دینا) صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے لئے خاص تھا۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں حج تمتع، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے ساتھ خاص تھا۔
عیاش عامری نے ابراہیم تیمی سے، انھوں نے اپنے والد (یزید بن شریک) سے، انھوں نے ابو زر رضی اللہ عنہ سےروایت کی، انھوں نے کہا: یہ رخصت صرف ہمارے ہی لئے تھی، یعنی حج میں تمتع کی۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، کہ حج تمتع کی رخصت صرف ہمارے لیے تھی۔
زبید نے ابراہیم تیمی سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دو متعے ہمارے علاوہ کسی کے لئے صحیح نہیں (ہوئے) یعنی عورتوں سے (نکاح) متعہ کرنا اور حج میں تمتع (حج کا احرام باندھ کرآنا، پھر اس سے عمرہ کرکے حج سے پہلےاحرام کھول دینا، درمیان کے دنوں میں بیویوں اور خوشبو وغیرہ سے متمتع ہونا اورآخر میں روانگی کے وقت حج کا احرام باندھنا۔)
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، دو متعے ہمارے لیے ہی جائز تھے، یعنی، حج تمتع اور عورتوں سے متعہ۔
ہمیں قتیبہ نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں جریر نے بیان سے، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی شعشاء سے روایت کی، کہا: میں ابراہیم نخعی اورابراہیم تیمی کے پاس آیا اور ان سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ اس سال حج اور عمرے د ونوں کواکھٹا ادا کروں۔ابراہیم نخعی نے (میری بات سن کر) کہا: تمھارے والد (ابو شعثاء) تو کبھی ایسا ارادہ بھی نہ کرتے۔ قتیبہ نے کہا: ہمیں جریر نے بیان سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے ابراہیم تیمی سے انھوں نے اپنے والد (یزید بن شریک) سے روایت کی کہ ایک مرتبہ ان کا گزر ربذہ کے مقام پر حضرت ابو زر رضی اللہ عنہ کے پاس سےہوا، انھوں نے اس سے، (حج میں تمتع) کا ذکر کیا۔حضرت ابوزر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: یہ تم لوگوں کو چھوڑ کر خاص ہمارے لئے تھا۔
عبدالرحمٰن بن ابی الشعثاء بیان کرتے ہیں کہ میں ابراہیم نخعی اور ابراہیم تیمی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا، میرا اس سال حج اور عمرہ دونوں اکٹھے کرنے کا ارادہ ہے، تو ابراہیم نخعی نے کہا، لیکن تیرا باپ تو یہ ارادہ نہیں کر سکتا تھا، اور ابراہیم تیمی نے اپنے باپ سے بیان کیا، کہ اس کا ربذہ مقام پر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزر ہوا، تو میں نے ان سے اس کا (حج تمتع کا) تذکرہ کیا، تو انہوں نے جواب دیا، یہ ہمارے لیے خاص تھا، تمہیں اجازت نہیں ہے۔
مروان بن معاویہ نے کہا: ہمیں سلیمان تیمی نے غنیم بن قیس سے خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے بارے استفسارکیا۔انھوں نے کہا ہم نے حج تمتع کیا تھا۔اور یہ (معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ) ان دنوں سائبانوں (والے گھروں) میں خود کوڈھانپے ہوئے (مقیم) تھے، یعنی مکہ کے گھروں میں۔ (معاویہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح حج افرادپر اصرار کرتے تھے۔)
غنیم بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حج تمتع کے بارے میں سوال کیا؟ انہوں نے جواب دیا، ہم نے یہ اس وقت کیا ہے، جبکہ یہ (حضرت معاویہ) عُرُش یعنی مکہ کے مکانوں میں کفر کی حالت میں تھے۔
یحییٰ بن سعید نے سلیمان تیمی سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور اپنی روایت میں کہا: ان کی مرادحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے تھی۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک دوسرے استاد سے سلیمان تیمی ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں، جس میں یہ صراحت ہے کہ ”هذا“ سے ان کی مراد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔