905 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عاصم ابن بهدلة، اخبرنا زر بن حبيش، قال: اتيت صفوان بن عسال المرادي، فقال لي: ما جاء بك؟ قلت: ابتغاء العلم، قال: ان الملائكة تضع اجنحتها لطالب العلم رضا بما يطلب، قلت: حاك في نفسي مسح علي الخفين بعد الغائط والبول، وكنت امرءا من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم، فاتيتك اسالك هل سمعت من رسول الله صلي الله عليه وسلم في ذلك شيئا؟ فقال: نعم، «كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يامرنا إذا كنا سفرا او مسافرين ان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن، إلا من جنابة، لكن من غائط وبول ونوم» ، قلت: اسمعته يذكر الهوي بشيء؟ قال: نعم، بينما نحن معه في مسير له إذ ناداه اعرابي بصوت له جهوري، يا محمد، فاجابه النبي صلي الله عليه وسلم بنحو من صوته: «هاؤم» ، فقلنا له: اغضض من صوتك، فإنك نهيت عن هذا، فقال: لا والله لا اغضض من صوتي، فقال: يا رسول الله المرء يحب القوم، ولما يلحق بهم، قال: «المرء مع من احب» ، قال: قال: ثم لم يزل يحدثنا رسول الله صلي الله عليه وسلم حتي قال: «إن من قبل المغرب بابا مسيرة عرضه اربعون او سبعون عاما، فتحه الله للتوبة يوم خلق السماوات والارض، ولا يغلقه حتي تطلع الشمس منه» 905 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَاصِمُ ابْنُ بَهْدَلَةَ، أَخْبَرَنَا زِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ، قَالَ: أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ، فَقَالَ لِي: مَا جَاءَ بِكَ؟ قُلْتُ: ابْتِغَاءُ الْعِلْمِ، قَالَ: أَنَّ الْمَلَائِكَةَ تَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ، قُلْتُ: حَاكَ فِي نَفْسِي مَسْحٌ عَلَي الْخُفَّيْنِ بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، وَكُنْتَ امْرَءًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُكَ أَسْأَلُكَ هَلْ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ شَيْئًا؟ فَقَالَ: نَعَمْ، «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَوْ مُسَافِرَيْنَ أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، لَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ» ، قُلْتُ: أَسَمِعْتَهُ يَذْكُرُ الْهَوَي بِشَيْءٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَهُ فِي مَسِيرٍ لَهُ إِذْ نَادَاهُ أَعْرَابِيٌّ بِصَوْتٍ لَهُ جَهُورِيٍّ، يَا مُحَمَّدُ، فَأَجَابَهُ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوٍ مِنْ صَوْتِهِ: «هَاؤُمُ» ، فَقُلْنَا لَهُ: اغْضُضْ مِنَ صَوْتِكَ، فَإِنَّكَ نُهِيتَ عَنْ هَذَا، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ لَا أَغْضُضُ مِنْ صَوْتِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الْمَرْءُ يُحِبُّ الْقَوْمَ، وَلَمَّا يَلْحَقُ بِهِمْ، قَالَ: «الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ» ، قَالَ: قَالَ: ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يُحَدِّثُنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّي قَالَ: «إِنَّ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ بَابًا مَسِيرَةُ عَرْضِهِ أَرْبَعُونَ أَوْ سَبْعُونَ عَامًا، فَتَحَهُ اللَّهُ لِلتَّوْبَةِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَلَا يُغْلِقُهُ حَتَّي تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْهُ»
905- زر بن حبیش بیان کرتے ہیں: میں سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے مجھ سے دریافت کیا: تم کس لیے آئے ہو؟ میں نے عرض کی: علم کے حصول کے لیے۔ ا نہوں نے فرمایا: طالب علم کی طلب سے راضی ہو کر فرشتے اپنے پر اس کے لیے بچھا دیتے ہیں۔ میں نے عرض کی: پاخانے اور پیشاب کے بعد موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں میرے ذہن میں کچھ الجھن ہے۔ آپ ایک ایسے فرد ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے تعلق رکھتے ہیں، تو میں آپ سے اس بارے میں دریافت کرنے کے لیے آیا ہوں کہ آپ نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ ہدایت کرتے تھے کہ جب ہم سفر کررہے ہوں (راوی کو شک ہے شاہد یہ الفاظ ہیں)”جب ہم مسافر ہوں، تو ہم تین دن اور تین راتوں تک موزے نہ اتاریں، البتہ جنابت کا حکم مختلف ہے۔ تاہم پاخانہ، پیشاب یا سونے کے نیچے میں (وضوٹوٹنے پر موزے اتارنے کی ضرورت نہیں ہے)“ میں نے دریا فت کیا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواہش نفس کے بارے میں کوئی چیز ذکر کرتے ہوئے سنا ہے انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ ایک مرتبہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کررہے تھے ایک دیہاتی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز میں مخاطب کیا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جتنی آواز میں اسے جواب دیا: ”میں یہاں ہوں۔“ ہم نے اس یہاتی سے کہا: تم اپنی آواز نیچی رکھو کیونکہ تمہیں اس بات سے منع کیاگیا ہے، تو وہ بولا: نہیں، اللہ کی قسم! میں اپنی آواز نیچی نہیں کروں گا پھر اس نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ایک شخص کسی قوم سے محبت رکھتا ہے، لیکن ان کے ساتھ جا کر نہیں ملتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آدمی ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے وہ محبت رکھتا ہے۔“ راوی بیان کرتے ہیں: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مغرب کی سمت میں ایک دروازہ ہے، جس کی چوڑائی چالیس (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) ستر برس کی مسافت جتنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا اس دن اس کو کھول دیا تھا اور یہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا، جب تک سورج مغرب کی طرف سے طلوع نہیں ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 85، 562، 1100، 1319، 1320، 1321، 1325، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 339، 340، 341، 342، 7520، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 126، 127، والترمذي فى «جامعه» برقم: 96، 2387، 3535، 3536، والدارمي فى «مسنده» برقم: 369، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 226، 478، 4070، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 940، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 563»