25. باب: آیت «وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ» کے منسوخ ہونے کا بیان۔
Chapter: The Saying of Allah Most High: "... And as for those who can fast with difficulty, they have) a choice either to fast or) to feed a Miskin (poor person) (for every day)" is Abrogated by His saying: "... So whoever of you sights (the crescent on the first night of) the month (of Ramadan i.e. is present at his home), he must observe Sawm (fasts) that month"...
۔ قتیبہ بن سعید، بکر یعنی ابن مضر، عمرو بن حارث، بکیر، یزید مولی سلمہ، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ) اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں وہ روزہ کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھاناکھلادیں جس آدمی کا روزہ چھوڑنے کا اردہ ہوتا تو وہ فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی جس نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری ”جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں (لیکن وہ روزہ نہ رکھیں) تو وہ ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔“(البقرۃ، آیت184) تو جو انسان روزہ نہ رکھ کر فدیہ دینا چاہتا وہ ایسا کر لیتا، حتیٰ کہ بعد والی آیت: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ اتری تو اس نے اس رخصت کو منسوخ کر دیا۔
عمرو بن سواد عامری، عبداللہ بن وہب، عمروبن حارث بکیر بن اشجع، یزید مولی سلمۃ بن اکوع، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رمضان کےمہینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہم سے جو چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا روزہ چھوڑ دیتا اور ایک مسکین کو کھانا کھلا کر ایک روزے کو فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَفَلْیَصُمْہُ) تو جو تم میں سے اس مہینہ میں موجود ہوتو اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمبارک میں ہم میں سے جو چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا روزہ نہ رکھتا، اور ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیتا حتی کہ یہ آیت اتری ”جوشخص تم میں سے اس ماہ (رمضان) کو پا لے (اس میں مقیم ہو) وہ روزے رکھے۔“(بقرہ آیت 185)
26. باب: قضاء رمضان کی تاخیر کا جواز جب تک کہ دوسرا رمضان نہ آ جائے، یہ اس کے لیے ہے جس نے کسی عذر کی بناء پر روزہ چھوڑا ہو، جیسے: بیماری، سفر، حیض وغیرہ۔
Chapter: It is Permissible to delay making up missed Ramadan Fasts until before the next Ramadan comes, and this is for those who broke the fast for a reason such as sickness, travel, menstruation and the like
حدثنا احمد بن عبد الله بن يونس ، حدثنا زهير ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابي سلمة ، قال: سمعت عائشة رضي الله عنها، تقول: " كان يكون علي الصوم من رمضان، فما استطيع ان اقضيه إلا في شعبان الشغل من رسول الله صلى الله عليه وسلم، او برسول الله صلى الله عليه وسلم "،حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ: " كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَهُ إِلَّا فِي شَعْبَانَ الشُّغْلُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "،
احمد بن عبداللہ بن یونس، زہیر، یحییٰ بن سعید، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں۔ کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ رمضان کے روزے مجھ سے قضا ء ہوجاتے تھے تو میں ان روزوں کے سوائے شعبان کی قضا نہیں کرسکتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغولیت کی وجہ سے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں میرے ذمہ رمضان کے روزے ہوتے تو میں ان کی شعبان کے سوا کسی ماہ میں قضائی نہ دے سکتی تھی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی مصروفیت ہوتی تھی۔
اسحاق بن ابراہیم، بشر بن عمر زہرانی، سلیمان بن بلال، یحییٰ حضرت یحییٰ بن سعید اس سند کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں سوائے اس کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے مشغول رہتی تھی۔
مصنف ایک اور استاد سے یحییٰ بن سعید ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں اس میں ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کی بنا پر ہوتا تھا۔
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، یحییٰ بن سعید، نے اس سند کے ساتھ اس طرح بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ یہ تاخیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغولی کی وجہ سے ہوتی تھی۔یہ بات یحیٰ کہتے ہیں
مصنف ایک اور استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں اس میں یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ ان کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی بنا پر ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر وہ روزہ نہیں رکھ سکتی تھیں۔
محمد بن مثنیٰ، عبدالوہاب، عمروناقد، سفیان، حضرت یحییٰ سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور اس حدیث میں یہ ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے قضا میں تاخیر ہوتی تھی۔
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے یہی روایت یحییٰ ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں۔ لیکن اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغولیت کا ذکر نہیں ہے۔
محمد بن ابی عمر مکی، عبدالعزیز بن محمد دراوردی، یزید بن عبداللہ بن ہاد، محمد بن ابراہیم، ابی سلمہ بن عبدالرحمان، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی روزہ چھوڑتی تھی تو وہ قدرت نہ رکھتی کہ ان کی قضا کرلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے یہاں تک کہ شعبان آجاتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں روزہ (حیض وغیرہ) کی بنا پر افطار کرتی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں شعبان کی آمد تک قضائی نہیں دے سکتی تھی۔
ہارون بن سعید، احمد بن عیسیٰ، ابن وہب، عمر وبن حارث، عبیداللہ بن ابی جعفر، محمد بن جعفر بن زبیر، عروۃ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی انتقال کرجائے اور اس پر کچھ روزے لازم ہوں تو اس کاوارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان اس حالت میں فوت ہو جائے کہ اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔“
اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، مسلم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور اس پر ایک مہینےکے روزے لازم ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟اس نے عرض کیا ہاں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے قرض کا زیادہ حق ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتائیے اگر اس کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کرتی؟“ اس نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔“
۔ احمد بن عمر وکیعی، حسین بن علی، زائدہ، سلیمان، مسلم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور اس پر ایک مہینے کے روزوں کی قضا لازم ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تیری ما ں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تو وہ قرض اس کی طرف سے ادا کرتی؟عرض کیا کہ ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا قرض زیادہ اس کا حقدار ہے کہ اسے اداکیا جائے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اوراس نےکہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں تومیں ان کو اس کی طرف سے رکھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیری ماں کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا تو اس کی طرف سےاسے ادا کرتا؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ کا قرض زیادہ حق دار ہے کہ اس کو چکایا جائے۔“