یحییٰ بن یحیٰ۔ابو بکر بن ابی شیبہ، عمر، اسحاق بن ابراہیم، سفیان، حضرت زہری، سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے سفیان نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کس کا قول ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری قول کو لیا جاتا تھا؟
امام صاحب اپنے کئی اساتذہ سے زہری ہی کی سند سے یہ روایت بیان کرتے ہیں، یحییٰ کہتے ہیں سفیان نے کہا: مجھے معلوم نہیں ہے یہ کس کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل کو اختیار کیا جاتا تھا۔
حدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري بهذا الإسناد، قال الزهري وكان الفطر آخر الامرين وإنما يؤخذ من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالآخر فالآخر، قال الزهري: " فصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة لثلاث عشرة ليلة خلت من رمضان "،حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ وَكَانَ الْفِطْرُ آخر الأمرين وإنما يؤخذ من أمر رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْآخِرِ فَالْآخِرِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: " فَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ لِثَلَاثَ عَشْرَةَ لَيْلَةً خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ "،
۔ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، حضرت زہری رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے اور زہری نے کہا کہ روزہ افطار کرنا آخری عمل تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل کو ہی اپنایاجاتا ہے زہری نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی تیرہ تاریخ کو مکہ مکرمہ پہنچے۔
امام صاحب اپنے استاد محمد بن رافع سے نقل کرتے ہیں کہ زہری نے کہا: روزہ کھولنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوعملوں میں سے آخری عمل تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں سے آخری عمل کو ہی لیا جاتا ہے۔ زہری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ (13) رمضان المبارک کی صبح مکہ پہنچے تھے۔
حرملہ بن یحییٰ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب لیث اس سند کے ساتھ ابن شہاب سےلیث کی حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے ابن شہاب نے فرمایا کہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل کی پیروی کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل کو ناسخ قرار دیتے تھے۔
امام صاحب اپنے استاد حرملہ بن یحییٰ سے نقل کرتے ہیں کہ ابن شہاب نے کہا، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نئے سے نئے عمل کی پیروی کرتے تھے اوراس کو نسخ کرنے والا محکم عمل سمجھتے تھے۔
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، عن منصور ، عن مجاهد ، عن طاوس ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: " سافر رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان، فصام حتى بلغ عسفان، ثم دعا بإناء فيه شراب فشربه نهارا ليراه الناس، ثم افطر حتى دخل مكة، قال ابن عباس رضي الله عنهما: فصام رسول الله صلى الله عليه وسلم وافطر، فمن شاء صام، ومن شاء افطر ".وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ، ثُمَّ دَعَا بِإِنَاءٍ فِيهِ شَرَابٌ فَشَرِبَهُ نَهَارًا لِيَرَاهُ النَّاسُ، ثُمَّ أَفْطَرَ حَتَّى دَخَلَ مَكَّةَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: فَصَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَفْطَرَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ ".
۔ اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، مجاہد، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں ایک سفر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عسفان کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا جس میں کوئی پینے کی چیز تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دن کے وقت میں پیا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوگئےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے دوران روزہ رکھابھی اور نہیں بھی رکھا تو جوچاہے سفر میں روزہ رکھ لے اور جو چاہے روزہ نہ رکھے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں سفر پر نکلے روزہ رکھتے رہے جب عسفان نامی مقام پر پہنچے تو پانی کا برتن منگوایا اور اسے دن کے وقت ہی پی لیا تاکہ لوگ اس عمل کو دیکھ لیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا حتی کہ مکہ پہنچ گئے، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزے رکھے بھی ہیں اور روزے چھوڑے بھی ہیں لہٰذا جس کا جی چاہے روزے رکھے اور جس کا جی چاہے روزے نہ رکھے۔
ابو کریب، وکیع، سفیان، عبدالکریم، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم برا بھلا نہیں کہتے تھے کہ جو روزہ رکھے اور نہ ہی برا بھلا کہتے ہیں جو آدمی سفر میں روزہ نہ رکھے تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی اور روزہ افطار بھی کیاہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ روزے رکھنے والے کو برا نہ کہو اور نہ روزہ نہ رکھنے والے کو برا کہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے اور نہیں بھی رکھا۔
حدثني محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الوهاب يعني ابن عبد المجيد ، حدثنا جعفر ، عن ابيه ، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج عام الفتح إلى مكة في رمضان، فصام حتى بلغ كراع الغميم فصام الناس، ثم دعا بقدح من ماء فرفعه حتى نظر الناس إليه، ثم شرب فقيل له بعد ذلك: إن بعض الناس قد صام، فقال: " اولئك العصاة اولئك العصاة "،حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ الْفَتْحِ إِلَى مَكَّةَ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ فَصَامَ النَّاسُ، ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ فَرَفَعَهُ حَتَّى نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، ثُمَّ شَرِبَ فَقِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ: إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ قَدْ صَامَ، فَقَالَ: " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ أُولَئِكَ الْعُصَاةُ "،
محمد بن مثنی، عبدالوہاب، ابن عبدالمجید، جعفر، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے سال رمضان میں مکہ کی طرف نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھاجب آپ کراع الغمیم پہنچے تو لوگوں نے بھی روزہ رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایاپھر اسے بلند کیا یہاں تک کہ لوگوں نے اسے دیکھ لیا پھر آپ نے وہ پی لیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ کچھ لوگوں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ نافرمان ہیں یہ لوگ نافرمان ہیں۔ فائدہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے دوران میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن اس موقع پر روزے لوگوں کے لئے تکلیف اور مشقت کا باعث بن رہے تھے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی شدید مشقت کی بنا پر اس انداز میں افطار کیا کہ سب دیکھ لیں اورافطار کرلیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کے باوجود نہ افطار کرنے والے سخت زجر وتوبیخ کے مستحق تھے۔
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے سال رمضان میں مکہ کے سفر پر نکلے اور روزہ رکھتے رہے حتی کہ کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے اور لوگوں نے بھی روزے رکھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوا لیا اور اسے بلند کیا تاکہ لوگ بھی اس کو دیکھ لیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا بعد میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ بعض لوگ روزے دار ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لوگ نافرمان ہیں یہ لوگ نافرمان ہیں۔“
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، حضرت جعفر سے اس سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی گئی ہے اور اس میں یہ زائد ہے کہ آپ سے عرض کیاگیا کہ لوگوں پر روزہ دشوار ہورہا ہے اور وہ اس بارے میں انتظار کررہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےعصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں جس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا لوگوں کے لیے روزہ مشقت کا باعث بن رہا ہے اور وہ آپ کے فعل کے منتظر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا۔
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنیٰ، ابن بشار، محمد بن جعفر، غندر، شعبہ، محمد بن عبدالرحمان، ابن سعد، محمد بن عمرو بن حسن، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ لوگ اس کے ارد گرد جمع ہیں اور اس پر سایہ کیا گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس آدمی کو کیا ہواہے؟لوگوں نے عرض کیا یہ ایک آدمی ہے جس نے روزہ رکھا ہوا ہے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نیکی نہیں کہ تم سفر میں روزہ ر کھو۔
حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی دیکھا جس کے گرد لوگ جمع ہو چکے ہیں اور اس پر سایہ کیا گیا ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اسے کیا ہوا؟“ لوگوں نے بتایا: روزے دار آدمی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفرمیں تمھارا روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔“
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، محمد بن عبدالرحمان، محمد بن عمرو بن حسن، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو د یکھا باقی حدیث اسی طرح ہے۔
امام صاحب اپنے دوسرے استاد عبید اللہ بن معاذ سے اس طرح روایت بیان کرتے ہیں کہ جابربن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی دیکھا۔
وحدثناه احمد بن عثمان النوفلي ، حدثنا ابو داود ، حدثنا شعبة بهذا الإسناد نحوه، وزاد قال شعبة: وكان يبلغني عن يحيى بن ابي كثير، انه كان يزيد في هذا الحديث، وفي هذا الإسناد انه قال: " عليكم برخصة الله الذي رخص لكم "، قال: فلما سالته لم يحفظه.وحَدَّثَنَاه أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَزَادَ قَالَ شُعْبَةُ: وَكَانَ يَبْلُغُنِي عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، أَنَّهُ كَانَ يَزِيدُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَفِي هَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّهُ قَالَ: " عَلَيْكُمْ بِرُخْصَةِ اللَّهِ الَّذِي رَخَّصَ لَكُمْ "، قَالَ: فَلَمَّا سَأَلْتُهُ لَمْ يَحْفَظْهُ.
احمد بن عثمان نوفلی، ابو داود، شعبہ، یحییٰ ابن ابی کثیر اس طرح ایک اور سند کےساتھ بھی یہ روایت نقل کی گئی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں جو رخصت عطاء فرمائی ہے اس پرعمل کرنا تمہارے لئے ضروری ہے راوی نے کہا کہ جب میں نے ان سے سوال کیا تو ان کو یاد نہیں تھا۔
امام صاحب اپنے استاد احمد بن عثمان نوفلی سے شعبہ کی مذکورہ سند سے اس کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ شعبہ نے کہا، یحییٰ بن ابی کثیر سے مجھے اس روایت میں اضافہ کی اطلاع پہنچتی تھی۔ اس سند میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جو رخصت تمھیں دی ہے اس کو قبول کرو۔“ شعبہ کہتے ہیں جب میں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے پوچھا تو انہیں یہ اضافہ یاد نہیں تھا۔