863 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا الزهري، وهشام بن عروة، قالا: اخبرنا عروة، انه سمع ابا حميد الساعدي، يقول: استعمل رسول الله صلي الله عليه وسلم رجلا من الازد يقال له ابن اللتبية علي الصدقة، فلما جاء، فقال: هذا مالكم وهذا اهدي لي، قال: فقام النبي صلي الله عليه وسلم علي المنبر، فحمد الله، واثني عليه، ثم قال:" ما بال العامل نبعثه علي العمل من اعمالنا، فيقول: هذا مالكم وهذا ما اهدي لي، فهلا جلس في بيت ابيه، او في بيت امه، فنظر هل ياتيه هدية، ام لا؟"، ثم قال:" والذي نفسي بيده لا ياخذ احد منكم منها شيئا إلا جاء به يوم القيامة يحمله علي رقبته، إن كان بعيرا له رغاء، او بقرة لها خوار، او شاة تيعر، ثم رفع رسول الله صلي الله عليه وسلم يديه حتي راينا عفرة إبطيه، ثم قال: اللهم هل بلغت؟ اللهم هل بلغت؟" قال سفيان: وزاد فيه هشام: قال ابو حميد: فبصرت عيني وسمعت اذني من رسول الله صلي الله عليه وسلم، وسلوا زيد بن ثابت، فإنه كان حاضرا معي863 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عُرْوَةُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ، يَقُولُ: اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْأَزْدِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ عَلَي الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا جَاءَ، فَقَالَ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَي عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبِعَثُهُ عَلَي الْعَمَلِ مِنَ أَعْمَالِنَا، فَيَقُولُ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا مَا أُهْدِيَ لِي، فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ، أَوْ فِي بَيْتِ أُمِّهِ، فَنَظَرَ هَلْ يَأْتِيهِ هَدَيَّةٌ، أَمْ لَا؟"، ثُمَّ قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَي رَقَبَتِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةٌ لَهَا خُوارٌ، أَوْ شَاةٌ تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ حَتَّي رَأَيْنَا عَفْرَةَ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟" قَالَ سُفْيَانُ: وَزَادَ فِيهِ هِشَامٌ: قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: فَبَصُرَتْ عَيْنِي وَسَمِعَتْ أُذُنِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَلُوا زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، فَإِنَّهُ كَانَ حَاضِرًا مَعِي
863- سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ازد“ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو اپنا اہلکار مقرر کیا اس کا نام ابن لتبیہ تھا۔ اسے صدقہ لینے کے لیے مقرر کیا گیا۔ جب وہ شخص آیا، تو اس نے کہا: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال ہے اور یہ تحفے کے طور پر مجھے دیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا وجہ ہے؟ ہم کسی کو اہلکارمقرر کرکے اپنے کسی کام کے لیے بھیجتے ہیں، پھر وہ یہ آکر کہتا ہے، یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے تحفے کے طور پر دیا گیا ہے۔ وہ اپنے باپ کے گھر میں، یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھا رہتا پھر وہ اس بات کا جائزہ لے کہ اسے تحفہ ملتا ہے یا نہیں ملتا؟“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے جو شخص ا س طرح کوئی وصولی کرے گا، تو وہ شخص جب قیامت کے دن آئے گا، تو اس نے اس چیز کو اپنی گردن پر اٹھایا ہوا ہوگا۔ اگر وہ اونٹ ہوگا، تو وہ اپنی مخصوص آواز نکال رہا ہوگا۔ اگر گائے ہوگئی، تو وہ اپنی مخصوص آواز نکال رہی ہوگی۔ اگر بکری ہوگی، تو وہ منمنارہی ہوگی۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے یہاں تک کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: ”اے اللہ! کیا میں نے تبلیغ کردی ہے۔ اے اللہ! کیا میں نے تبلیغ کردی ہے۔“ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: ہشام نامی راوی نے اس روایت میں یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں۔ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میری آنکھوں نے اس منظر کو دیکھا اور میرے کانوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان الفاظ کو سنا۔ تم لوگ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی اس بارے میں دریافت کرو۔ وہ بھی اس وقت میرے ساتھ وہاں موجود تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1500، 2597، 6636، 6979، 7174، 7197، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1832، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2339، 2340، 2382، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4515، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2946، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1711، 2535، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7758، 7759، 13296، 20536، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 24085، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1309»