وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى ، عن الجريري ، عن حيان بن عمير ، عن عبد الرحمن بن سمرة ، وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: كنت ارتمي باسهم لي بالمدينة في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ كسفت الشمس فنبذتها، فقلت: والله لانظرن إلى ما حدث لرسول الله صلى الله عليه وسلم في كسوف الشمس، قال: فاتيته وهو قائم في الصلاة رافع يديه، فجعل يسبح ويحمد ويهلل ويكبر ويدعو حتى حسر عنها، قال: فلما حسر، عنها قرا سورتين وصلى ركعتين.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُنْتُ أَرْتَمِي بِأَسْهُمٍ لِي بِالْمَدِينَةِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ كَسَفَتِ الشَّمْسُ فَنَبَذْتُهَا، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى مَا حَدَثَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ قَائِمٌ فِي الصَّلَاةِ رَافِعٌ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يُسَبِّحُ وَيَحْمَدُ وَيُهَلِّلُ وَيُكَبِّرُ وَيَدْعُو حَتَّى حُسِرَ عَنْهَا، قَالَ: فَلَمَّا حُسِرَ، عَنْهَا قَرَأَ سُورَتَيْنِ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ.
عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ نے جریری سے، انھوں نے حیان بن نمیر سے اور انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے تھے، انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک د ن مدینہ میں ا پنے تیروں سے نشانے لگا رہا تھا کہ اچانک سورج کو گرہن لگ گیا، اس پر میں نے انھیں (تیروں کو) پھینکا اور (دل میں) کہا: اللہ کی قسم! میں ضرور د یکھوں گا کہ سورج کے گرہن کے اس و قت میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوئی ہے۔کہا: میں آپ کے پاس آیا، آپ نماز میں کھڑے تھے، دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے، پھر آپ نے تسبیح، حمد و ثنا «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» اور اللہ کی بڑائی کا ورد اور د عا مانگنی شروع کر دی یہاں تک کہ سورج کا گرہن چھٹ گیا، کہا: اور جب سورج کا گرہن چھٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا کی۔
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ايک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں میں اپنے تیروں سے تیر اندازی رہا تھا کہ اچانک آفتاب گہن میں آ گیا تو میں اپنے تیر پھنک دیئے اور جی میں کہا: اللہ کی قسم! چل کر دیکھوں گا کہ اس وقت ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوتی ہے یا آپصلی اللہ علیہ وسلم کیا نیا کام کرتے ہیں میں آپ کے پاس آیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے آپصلی اللہ علیہ وسلم تسبیح، تحمید، تہلیل، تکبیر اور دعا کرنے لگے، (اور یہ دعا و نماز کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا حتی کہ سورج کا گہن چھٹ گیا، اور وہ روشن ہو گیا)۔ اور جب سورج روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا کی۔
سالم بن نوح نے کہا: ہمیں جریری نے حیان بن عمیر سے خبر دی اور انھوں نے عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باہر نکل کر اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا، پھر (سالم بن نوح نے) ان دونوں (بشر اور عبدالاعلیٰ) کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باہر نکل کر اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا،پھر(سالم بن نوح نے) ان دونوں(بشر اور عبدالاعلیٰ) کی حدیث کی طرح بیان کیا۔حدیث حاشیہ: 'Abdul Rahman bin ahadeeth reported: I was shooting some of my arrows during the lifetime of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) that the sun eclipsed. The rest of the hadith is the same.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر سنایا کرتے تھے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یقیناً سورج اور چاند کو کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں،جب تم انھیں(اس طرح) دیکھو تو نماز پڑھو۔"حدیث حاشیہ: عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ نے جریری سے،انھوں نے حیان بن نمیر سے اور انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے تھے،انھوں نے کہا:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک د ن مدینہ میں ا پنے تیروں سے نشانے لگا رہا تھا کہ اچانک سورج کو گرہن لگ گیا،اس پر میں نے انھیں(تیروں کو) پھینکا اور(دل میں) کہا:اللہ کی قسم!میں ضرور د یکھوں گا کہ سورج کے گرہن کے اس و قت میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوئی ہے۔کہا:میں آپ کے پاس آیا،آپ نماز میں کھرے تھے،دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے،پھر آپ نے تسبیح،حمد و ثنا لاالٰہ الا اللہ اور اللہ کی بڑائی کا ورد اور د عا مانگنی شروع کردی یہاں تک کہ سورج کا گرہن چھٹ گیا،کہا:اور جب سورج کا گرہن چھٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا کی۔حدیث حاشیہ: سالم بن نوح نے کہا:ہمیں جریری نے حیان بن عمیر سے خبر دی اور انھوں نے عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باہر نکل کر اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا،پھر(سالم بن نوح نے) ان دونوں(بشر اور عبدالاعلیٰ) کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ حدیث حاشیہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر سنایا کرتے تھے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یقیناً سورج اور چاند کو کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں،جب تم انھیں(اس طرح) دیکھو تو نماز پڑھو۔" حدیث حاشیہ: سالم بن نوح نے کہا:ہمیں جریری نے حیان بن عمیر سے خبر دی اور انھوں نے عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باہر نکل کر اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا،پھر(سالم بن نوح نے) ان دونوں(بشر اور عبدالاعلیٰ) کی حدیث کی طرح بیان کیا۔حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2157٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)913.02٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)1520.01٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)913.02٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)2103٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)913.02٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام2120 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × سورج یا چاند کوگرہن لگنا انسانوں کے لئے غیر معمولی اور بہت بڑا واقعہ ہے سورج اور چاند دن اور رات میں روشنی کا منبع ہیں۔زمین پر رہنے والےتمام جانداروں،خصوصاًانسانوں کاجسمانی نظام اس طرح بنا ہواہے کہ ان کے پروگرام کا بنیادی اوراہم حصہ سورج نکلنے اور غروب ہونے یا دن اوررات کے ساتھ وابستہ ہے۔دیکھنا،رنگوں کی پہچان،سونا جاگنا،نشاط کار اورارتکاز توجہ وغیرہ کا تعلق دن اور رات کی تقسیم کے ساتھ جڑا ہواہے جب گرہن لگتاہے تو تمام جانداروں کے جسمانی نظام اس کے مطابق تبدیل ہوتے ہیں۔جدید سائنسی تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب مکمل سورج گرہن ہوتا ہے تو رات کو سو جانےوالے جانوروں پر نیند طاری ہوجاتی ہے،پرندے بھی بے حس وحرکت ہوجاتے ہیں۔وہ جاندار جن کا جسمانی پروگرام دن کو سونے اور رات کو جاگنے کے لئے ہے وہ نیند سے بیدا ہوجاتے ہیں اور کچھ دیر بعد سورج گرہن زائل ہونے پرپریشان اور"Confuse"ہوجاتے ہیں۔انسانوں کے جسمانی پروگرام پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں،سائنس یہ کہتی ہے کہ سورج گرہن کے موقع پر بسا اوقات"سائے کی پٹیاں"(Shadow bands)سامنےآجاتی ہیں۔ابتداء میں یہ زمین پربچھی ہوئی نظر آتی ہیں،پھر یہ رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں،ایسا لگتا ہے کہ وہ تمہاری طرف بڑھی چلی آرہی ہیں،انسانوں کے لئے ان کو دیکھنا ایک خوف پیدا کرنے والا تجربہ ہوتاہے ان کے بارے میں(Draco Report) کی چند سطور کا ترجمہ یہ ہے۔"چاہے آپ کو معلوم ہو کہ اس کی حقیقت کیا ہے،یہ ایک خوفزدہ کردینے والا تجربہ ہوسکتا ہے۔آپ کا جسم اس کےبارے میں اپنی رائے رکھتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے(اور کیا غلط) زمین پر آپ کی طرف رینگتی ہوئی پٹیاں اس کے لئے قابل قبول نہیں۔۔۔چاہے آپ کا دماغ کہہ رہا ہو کہ سب کچھ ٹھیک ہے،پھر بھی آپ کا جسم یہی چاہے گا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے اور کہیں چھپ جائے۔" سورج گرہن،سورج اور زمین کے درمیان چاند کے حائل ہونے سے اور چاند گرہن،سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔یہ ان سیاروں کی غیر معمولی پوزیشن ہے۔بعض مواقع پر چاند عام معمول کی نسبت زمین سے زیادہ قریب ہوتاہے۔اور بعض مواقع پر عام معمول سے زیادہ سورج کے قریب ہوجاتا ہے،قرآن مجید نے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی بتائی ہے۔کہ چاند کو گرہن لگے گا،اس کے بعد ایسی پوزیشن پر آئے گا کہ سورج اور چاند ایک ہوجائیں گے۔کہکشاؤں میں ایسا ہوتا رہتاہے۔بڑے سیارے بے نور ہونے کے بعد ارد گرد کے نسبتاً چھوٹے سیاروں کو نگلنا شروع کردیتے ہیں۔قرآن کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے۔کہ گرہن کے موقع پر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں جلدی سے نماز شروع کردیتے،یہ موقع قیامت کے قیام کے موقع سے بے حد مشابہت رکھتاہے۔یہ صرف اس حوالے سے خوف کا موقع نہیں کہ سائے کی پٹیاں رینگتی ہوئی لگتی ہیں بلکہ اس وجہ سے خوف کا سبب ہے کہ یہی کیفیت قیامت برپا ہونے کے وقت ہوگی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گرہن شروع ہوتے ہی نماز کسوف شروع کرتے۔اس کی ادائیگی کا طریقہ بھی دوسری تمام نمازوں سے مختلف ہے۔امام مسلم ؒ نے اس کتاب میں جو احادیث بیان کیں ان میں نماز کسوف کا خاص طریقہ بھی ہے کہ اس میں سجود سے پہلے بار بار قیام اور رکوع ہوتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نمازوں کے ساتھ دعاؤں اور ذکر ونصیحت کو بھی شامل کیا،نماز کسوف کے دوران میں آپ کو ان امور غیبیہ کا مشاہدہ کرایاگیا جو ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔آپ نے اپنے اس مشاہدے سے بھی اُمت کو آگاہ کیا،گرہن کا مشہور ترین موقع اس دن تھا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ بات اچھی طرح سے واضح فرمائی کہ سورج اور چاند کو کسی کی موت کی بناء پر گرہن نہیں لگتا۔یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔قرآن مجید نے بھی وضاحت سے یہی بتایا ہے کہ رات دن اور سورج چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔"اور اسی (اللہ) کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند بھی ہیں۔"(حٰم السجدۃ۔41:37)إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ "بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے اختلاف میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔"(آل عمران۔190۔3)وَخَسَفَ الْقَمَرُ ﴿٨﴾ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ "اور چاند بے نور ہوجائے گا۔اور جمع کردیئے جائیں گے سورج اور چاند۔"(القیامۃ۔75: 9،8) انسانی زندگی کےساتھ ان کے تعلق پر غور کرنے والا اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہتا کہ خالق کائنات علیم حکیم بھی ہے۔اور قادر مطلق بھی۔اللہ تعالیٰ اپنی نشانیوں کے زریعے سے اپنے بندوں کے دلوں میں خوف پیدا فرماتا ہے۔جو انسان کے سیدھے راستے پر رہنے،اللہ کی اطاعت اور اس کی نافرمانی سے بچنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔ غیر معمولی واقعہ ہونے کی وجہ سے قدیم زمانے میں انسان،گرہن کے معاملے میں بہت سے توہمات کا شکار رہا ہے۔یہ توہم بہت اہم رہا کہ کسی عظیم ہستی کی موت پر سورج یا چاند کو گرہن لگ جاتاہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر سنایا کرتے تھے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یقیناً سورج اور چاند کو کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں، جب تم انھیں (اس طرح) دیکھو تو نماز پڑھو۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند کسی شحص کی موت و حیات کے سبب بے نور نہیں ہوتے۔ لیکن وہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں پس جب تم ان کر بے نور دیکھو تو نماز پڑھو۔“
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا، اسی دن جب ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان کو نہ کسی کی موت سے گرہن لگتاہے اور نہ کسی کی زندگی سے اس لئے جب تم ان کو (گرہن لگا) دیکھو تو اللہ کو پکارو اور نماز پڑھو یہاں تک کہ گرہن زائل ہوجائے۔"
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے سورج کو گہن لگ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شمس و قمر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، (جن کے گہن سے اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور اس کی سطوت و شوکت کا اظہار ہوتا ہے) ان کو نہ کسی کی موت سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی حیات کے سبب، پس جب تم ان کو (گہن لگا) دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اور نماز پڑھو، حتی کہ وہ روشن ہو جائیں“