حدثنا عبد الصمد ، قال: ثنا حفص السراج ، قال: سمعت شهرا ، يقول: حدثتني اسماء بنت يزيد ، انها كانت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم والرجال والنساء قعود عنده، فقال:" لعل رجلا يقول ما يفعل باهله، ولعل امراة تخبر بما فعلت مع زوجها"، فارم القوم، فقلت: إي والله يا رسول الله، إنهن ليقلن , وإنهم ليفعلون، قال:" فلا تفعلوا، فإنما ذلك مثل الشيطان، لقي شيطانة في طريق، فغشيها والناس ينظرون" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: ثَنَا حَفْصٌ السَّرَّاجُ ، قَالَ: سَمِعْتُ شَهْرًا ، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ قُعُودٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ:" لَعَلَّ رَجُلًا يَقُولُ مَا يَفْعَلُ بِأَهْلِهِ، وَلَعَلَّ امْرَأَةً تُخْبِرُ بِمَا فَعَلَتْ مَعَ زَوْجِهَا"، فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقُلْتُ: إِي وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُنَّ لَيَقُلْنَ , وَإِنَّهُمْ لَيَفْعَلُونَ، قَالَ:" فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِثْلُ الشَّيْطَانِ، لَقِيَ شَيْطَانَةً فِي طَرِيقٍ، فَغَشِيَهَا وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ" .
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت بہت سے مرد اور عورت جمع تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ ایک زمانے میں مرد یہ بتانے لگے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کیا کرتا ہے اور عورت یہ بتانے لگے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کیا کرتی ہے؟“ لوگ اس پر خاموش رہے، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! یہ باتیں تو عورتیں کہتی ہیں اور مرد بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن تم ایسا نہ کرو، کیونکہ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شیطان کسی شیطانیہ سے راستے میں ملے اور لوگوں کے سامنے ہی اس سے بدکاری کرنے لگے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب، ولجهالة حفص السراج
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو عورت سونے کا ہار پہنتی ہے، قیامت کے دن اس کے گلے میں ویسا ہی آگ کا ہار پہنایا جائے گا اور جو عورت اپنے کانوں میں سونے کی بالیاں پہنتی ہے، اس کے کانوں میں قیامت کے دن ویسی ہی آگ کی بالیاں ڈالی جائیں گی۔“
حدثنا حماد بن خالد ، قال: ثنا معاوية يعنى ابن صالح ، عن المهاجر مولى اسماء بنت يزيد الانصارية، قال: سمعت اسماء بنت يزيد ، تقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم , يقول: " لا تقتلوا اولادكم سرا، فوالذي نفسي بيده , إنه ليدرك الفارس فيدعثره"، قال: قلت: ما يعني؟ قال: الغيلة، ياتي الرجل امراته وهي ترضع .حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ: ثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِى ابْنَ صَالِحٍ ، عَنِ الْمُهَاجِرِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ ، تَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ سِرًّا، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , إِنَّهُ لَيُدْرِكُ الْفَارِسَ فَيُدَعْثِرُهُ"، قَال: قُلْتُ: مَا يَعْنِي؟ قَالَ: الْغِيلَةُ، يَأْتِي الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ تُرْضِعُ .
حضرت اسماءبنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنی اولاد کو خفیہ قتل نہ کیا کرو، کیونکہ حالت رضاعت میں بیوی سے قربت کے نتیجے میں دودھ پینے والا بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو گھوڑا اسے اپنی پشت سے گرا دیتا ہے (وہ جم کر گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتا)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مهاجر، وقد انفرد به، ومثله لا يحتمل تفرده ، ثم إنه معارض بحديث صحيح
حدثنا حدثنا هاشم ، قال: حدثني عبد الحميد ، قال: حدثني شهر بن حوشب ، قال: حدثتني اسماء بنت يزيد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " توفي يوم توفي، ودرعه مرهونة عند رجل من اليهود بوسق من شعير" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُوُفِّيَ يَوْمَ تُوُفِّيَ، وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ بِوَسْقٍ مِنْ شَعِيرٍ" .
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جس وقت وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر ایک یہودی کے پاس ایک وسق جَو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: "بوسق من شعير"ر، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدثنا هاشم ، قال: ثنا عبد الحميد ، قال: ثنا شهر ، قال: حدثتني اسماء بنت يزيد ، ان ابا ذر الغفاري كان يخدم النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا فرغ من خدمته , آوى إلى المسجد، فكان هو بيته، يضطجع فيه، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد ليلة، فوجد ابا ذر نائما منجدلا في المسجد، فنكته رسول الله صلى الله عليه وسلم برجله حتى استوى جالسا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا اراك نائما؟"، قال ابو ذر: يا رسول الله، فاين انام، هل لي من بيت غيره؟، فجلس إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال له:" كيف انت إذا اخرجوك منه؟"، قال: إذن الحق بالشام، فإن الشام ارض الهجرة، وارض المحشر، وارض الانبياء، فاكون رجلا من اهلها، قال له:" كيف انت إذا اخرجوك من الشام؟"، قال: إذن ارجع إليه، فيكون هو بيتي ومنزلي، قال له:" كيف انت إذا اخرجوك منه الثانية؟"، قال: إذن آخذ سيفي , فاقاتل عني حتى اموت، قال: فكشر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاثبته بيده، قال:" ادلك على خير من ذلك؟"، قال: بلى، بابي انت وامي يا نبي الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تنقاد لهم حيث قادوك، وتنساق لهم حيث ساقوك، حتى تلقاني، وانت على ذلك" .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ ، قَالَ: ثَنَا شَهْرٌ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ الْغِفَارِيَّ كَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ خِدْمَتِهِ , آوَى إِلَى الْمَسْجِدِ، فَكَانَ هُوَ بَيْتُهُ، يَضْطَجِعُ فِيهِ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ لَيْلَةً، فَوَجَدَ أَبَا ذَرٍّ نَائِمًا مُنْجَدِلًا فِي الْمَسْجِدِ، فَنَكَتَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِجْلِهِ حَتَّى اسْتَوَى جَالِسًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أَرَاكَ نَائِمًا؟"، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ أَنَامُ، هَلْ لِي مِنْ بَيْتٍ غَيْرُهُ؟، فَجَلَسَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لَهُ:" كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَخْرَجُوكَ مِنْهُ؟"، قَالَ: إِذَنْ أَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّ الشَّامَ أَرْضُ الْهِجْرَةِ، وَأَرْضُ الْمَحْشَرِ، وَأَرْضُ الْأَنْبِيَاءِ، فَأَكُونُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِهَا، قَالَ لَهُ:" كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَخْرَجُوكَ مِنَ الشَّامِ؟"، قَالَ: إِذَنْ أَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَيَكُونَ هُوَ بَيْتِي وَمَنْزِلِي، قَالَ لَهُ:" كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَخْرَجُوكَ مِنْهُ الثَّانِيَةَ؟"، قَالَ: إِذَنْ آخُذَ سَيْفِي , فَأُقَاتِلَ عَنِّي حَتَّى أَمُوتَ، قَالَ: فَكَشَّرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَثْبَتَهُ بِيَدِهِ، قَالَ:" أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟"، قَالَ: بَلَى، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَنْقَادُ لَهُمْ حَيْثُ قَادُوكَ، وَتَنْسَاقُ لَهُمْ حَيْثُ سَاقُوكَ، حَتَّى تَلْقَانِي، وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ" .
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے بحوالہ ابوذر رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا، جب اپنے کام سے فارغ ہوتا تو مسجد میں آ کر لیٹ جاتا، ایک دن میں لیٹا ہوا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور مجھے اپنے مبارک پاؤں سے ہلایا، میں سیدھا ہو کر اٹھ بیٹھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تم مدینہ سے نکال دیئے جاؤ گے؟“ عرض کیا: میں مسجد نبوی اور اپنے گھر لوٹ جاؤں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور جب تمہیں یہاں سے بھی نکال دیا جائے گا تو کیا کرو گے؟“ میں نے عرض کیا کہ میں شام چلا جاؤں گا جو ارض ہجرت اور ارض محشر اور ارض انبیاء ہے، میں اس کی رہائش اختیار کر لوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ”اگر تمہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا تو کیا کرو گے؟“ عرض کیا: میں دوبارہ وہاں چلا جاؤں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اگر دوبارہ وہاں سے نکال دیا گیا؟“ میں نے عرض کیا کہ اس وقت میں اپنی تلوار پکڑوں گا اور جو مجھے نکالنے کی کوشش کرے گا اسے اپنی تلوار سے ماروں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اپنا دست مبارک میرے کندھے پر رکھا اور تین مرتبہ فرمایا: ”ابوذر! درگزر سے کام لو، وہ تمہیں جہاں لے جائیں وہاں چلے جانا اگرچہ تمہارا حکمران کوئی حبشی غلام ہی ہو، یہاں تک کہ تم اس حال میں مجھ سے آ ملو۔“
حكم دارالسلام: اسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقصة السمع والطاعة صحيحة ثابتة من احاديث اخري، انظر: 21428
حدثنا هاشم ، قال: حدثنا عبد الحميد ، قال: حدثني شهر ، قال: سمعت اسماء بنت يزيد الانصارية ، تحدث، زعمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر في المسجد يوما، وعصبة من النساء قعود، فالوى بيده إليهن بالسلام، قال:" إياكن وكفران المنعمين، إياكن وكفران المنعمين"، قالت إحداهن: يا رسول الله، اعوذ بالله يا نبي الله من كفران الله، قال: " بلى، إن إحداكن تطول ايمتها، ويطول تعنيسها، ثم يزوجها الله البعل، ويفيدها الولد، وقرة العين، ثم تغضب الغضبة، فتقسم بالله ما رات منه ساعة خير قط، فذلك من كفران نعم الله عز وجل، وذلك من كفران المنعمين" .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، قَالَ: حدثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَهْرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّةَ ، تُحَدِّثُ، زَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا، وَعُصْبَةٌ مِنَ النِّسَاءِ قُعُودٌ، فَأَلْوَى بِيَدِهِ إِلَيْهِنَّ بِالسَّلَامِ، قَالَ:" إِيَّاكُنَّ وَكُفْرَانَ الْمُنَعَّمِينَ، إِيَّاكُنَّ وَكُفْرَانَ الْمُنَعَّمِينَ"، قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مِنْ كُفْرَانِ اللَّهِ، قَالَ: " بَلَى، إِنَّ إِحْدَاكُنَّ تَطُولُ أَيْمَتُهَا، وَيَطُولُ تَعْنِيسُهَا، ثُمَّ يُزَوِّجُهَا اللَّهُ الْبَعْلَ، وَيُفِيدُهَا الْوَلَدَ، وَقُرَّةَ الْعَيْنِ، ثُمَّ تَغْضَبُ الْغَضْبَةَ، فَتُقْسِمُ بِاللَّهِ مَا رَأَتْ مِنْهُ سَاعَةَ خَيْرٍ قَطُّ، فَذَلِكَ مِنْ كُفْرَانِ نِعَمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَذَلِكَ مِنْ كُفْرَانِ الْمُنَعَّمِينَ" .
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا ”جن کا تعلق بنی عبدالاشہل سے ہے“ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے، ہم کچھ عورتوں کے ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا: ”احسان کرنے والوں کی ناشکری سے اپنے آپ کو بچاؤ“، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی عورت اپنے ماں باپ کے یہاں طویل عرصے تک رشتے کے انتظار میں بیٹھی رہے، پھر اللہ اسے شوہر عطاء فرما دے اور اس سے اسے مال و دولت بھی عطاء فرما دے اور وہ پھر کسی دن غصے میں آکر یوں کہہ دے کہ میں نے تو تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقد توبع
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنی اولاد کو خفیہ قتل نہ کیا کرو، کیونکہ حالت رضاعت میں بیوی سے قربت کے نتیجے میں دودھ پینے والا بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو گھوڑا اسے اپنی پشت سے گرا دیتا ہے (وہ جم کر گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتا)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مهاجر، وقد انفرد به، ومثله لا يحتمل تفرده، ثم إنه معارض بحديث صحيح
حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، قال: حدثني عبد الله بن ابي حسين ، قال: حدثني شهر بن حوشب ، ان اسماء بنت يزيد بن السكن ، إحدى نساء بني عبد الاشهل، دخل عليها يوما، فقربت إليه طعاما، فقال: لا اشتهيه، فقالت: إني قينت عائشة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم جئته، فدعوته لجلوتها، فجاء فجلس إلى جنبها، فاتي بعس لبن، فشرب، ثم ناولها النبي صلى الله عليه وسلم، فخفضت راسها واستحيا، قالت اسماء: فانتهرتها، وقلت لها: خذي من يد النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: فاخذت، فشربت شيئا، ثم قال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" اعطي تربك"، قالت اسماء: فقلت: يا رسول الله، بل خذه، فاشرب منه، ثم ناولنيه من يدك، فاخذه، فشرب منه، ثم ناولنيه، قالت: فجلست، ثم وضعته على ركبتي، ثم طفقت اديره، واتبعه بشفتي لاصيب منه مشرب النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال لنسوة عندي:" ناوليهن"، فقلن: لا نشتهيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تجمعن جوعا وكذبا"، فهل انت منتهية ان تقولي لا اشتهيه؟، فقلت: اي امه، لا اعود ابدا .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ ، إِحْدَى نِسَاءِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا، فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ طَعَامًا، فَقَالَ: لَا أَشْتَهِيهِ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَيَّنْتُ عَائِشَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جِئْتُهُ، فَدَعَوْتُهُ لِجِلْوَتِهَا، فَجَاءَ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِهَا، فَأُتِيَ بِعُسِّ لَبَنٍ، فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَفَضَتْ رَأْسَهَا وَاسْتَحْيَا، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَانْتَهَرْتُهَا، وَقُلْتُ لَهَا: خُذِي مِنْ يَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَأَخَذَتْ، فَشَرِبَتْ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْطِي تِرْبَكِ"، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلْ خُذْهُ، فَاشْرَبْ مِنْهُ، ثُمَّ نَاوِلْنِيهِ مِنْ يَدِكَ، فَأَخَذَهُ، فَشَرِبَ مِنْهُ، ثُمَّ نَاوَلَنِيهِ، قَالَتْ: فَجَلَسْتُ، ثُمَّ وَضَعْتُهُ عَلَى رُكْبَتِي، ثُمَّ طَفِقْتُ أُدِيرُهُ، وَأَتْبَعُهُ بِشَفَتَيَّ لِأُصِيبَ مِنْهُ مَشْرَبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لِنِسْوَةٍ عِنْدِي:" نَاوِلِيهِنَّ"، فَقُلْنَ: لَا نَشْتَهِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا وَكَذِبًا"، فَهَلْ أَنْتِ مُنْتَهِيَةٌ أَنْ تَقُولِي لَا أَشْتَهِيهِ؟، فَقُلْتُ: أَيْ أُمَّهْ، لَا أَعُودُ أَبَدًا .
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیار کرنے والی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہیں پیش کرنے والی میں ہی تھی، میرے ساتھ کچھ اور عورتیں بھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے خود نوش فرمایا پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہ پیالہ پکڑا دیا، وہ شرما گئیں، ہم نے ان سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ واپس نہ لوٹاؤ، بلکہ یہ برتن لے لو، چنانچہ انہوں نے شرماتے ہوئے وہ پیالہ پکڑ لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی لیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مجھے دے دو“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ نوش کر کے مجھے پکڑا دیا، میں بیٹھ گئی اور پیالے کو اپنے گھٹنے پر رکھ لیا اور اسے گھمانے لگی تاکہ وہ جگہ مل جائے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہونٹ لگائے تھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اپنی سہیلیوں کو دے دو“، ہم نے عرض کیا کہ ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھوک اور جھوٹ کو اکٹھا نہ کرو، اب بھی تم باز آؤ گی یا نہیں؟“ میں نے کہا: اماں جان! آئندہ کبھی نہیں کروں گی۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ مائدہ مکمل نازل ہوئی تو ان کی اونٹنی ”عضباء“ کی لگام میں نے پکڑی ہوئی تھی اور وحی کے بوجھ سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اونٹنی کا بازو ٹوٹ جائے گا۔
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث، وشهر بن حوشب