حدثنا بشر بن المفضل , عن محمد بن زيد , حدثني عمير مولى آبي اللحم , قال: شهدت خيبر مع سادتي , فكلموا في رسول الله صلى الله عليه وسلم " فامرني فقلدت سيفا , فإذا انا اجره , فاخبر اني مملوك فامر لي بشيء من خرثي المتاع" .حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ , حَدَّثَنِي عُمَيْرٌ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ , قَالَ: شَهِدْتُ خَيْبَرَ مَعَ سَادَتِي , فَكَلَّمُوا فِيَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَأَمَرَنِي فَقُلِّدْتُ سَيْفًا , فَإِذَا أَنَا أَجُرُّهُ , فَأُخْبِرَ أَنِّي مَمْلُوكٌ فَأَمَرَ لِي بِشَيْءٍ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ" .
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں غزوہ خیبر میں اپنے آقاؤں کے ساتھ شریک تھا انہوں نے میرے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بارے حکم دیا اور میرے گلے میں تلوار لٹکا دی گئی (وہ اتنی بڑی تھی کہ) میں اسے زمین گھسیٹتا ہوا چلتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ میں غلام ہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ماندہ سامان میں سے کچھ مجھے بھی دینے کا حکم دے دیا۔
حدثنا ربعي بن إبراهيم اخو إسماعيل ابن علية , واثنى عليه خيرا , قال: وكان يفضل على إسماعيل , حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق , عن محمد بن زيد بن المهاجر , عن عمير مولى آبي اللحم , قال: شهدت مع سادتي خيبر , فامر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلدت سيفا , فإذا انا اجره , قال: فقيل له: إنه عبد مملوك , قال: فامر لي بشيء من خرثي المتاع , قال: وعرضت عليه رقية كنت ارقي بها المجانين في الجاهلية , قال: " اطرح منها كذا وكذا , وارق بما بقي" , قال محمد بن زيد: وادركته وهو يرقي بها المجانين.حَدَّثَنَا رِبْعِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخُو إِسْمَاعِيلَ ابْنِ عُلَيَّةَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا , قَالَ: وَكَانَ يَفْضُلُ عَلَى إِسْمَاعِيلَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْمُهَاجِرِ , عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ , قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ سَادَتِي خَيْبَرَ , فَأَمَرَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلِّدْتُ سَيْفًا , فَإِذَا أَنَا أَجُرُّهُ , قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ عَبْدٌ مَمْلُوكٌ , قَالَ: فَأَمَرَ لِي بِشَيْءٍ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ , قَالَ: وَعَرَضْتُ عَلَيْهِ رُقْيَةً كُنْتُ أَرْقِي بِهَا الْمَجَانِينَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , قَالَ: " اطْرَحْ مِنْهَا كَذَا وَكَذَا , وَارْقِ بِمَا بَقِيَ" , قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ زَيْدٍ: وَأَدْرَكْتُهُ وَهُوَ يَرْقِي بِهَا الْمَجَانِينَ.
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں غزوہ خیبر میں اپنے آقاؤں کے ساتھ شریک تھا انہوں نے میرے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بارے حکم دیا اور میرے گلے میں تلوار لٹکا دی گئی (وہ اتنی بڑی تھی کہ) میں اسے زمین گھسیٹتا ہوا چلتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ میں غلام ہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ماندہ سامان میں سے کچھ مجھے بھی دینے کا حکم دے دیا۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک منتر پیش کیا جس سے میں زمانہ جاہلیت میں مجنونوں کو جھاڑا کرتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں سے یہ یہ کلمات حذف کردو اور باقی سے جھاڑ لیا کرو۔
حدثنا ربعي بن إبراهيم , حدثنا عبد الرحمن يعني ابن إسحاق , حدثني ابي , عن عمه , وعن ابى بكر بن زيد بن المهاجر , انهما سمعا عميرا مولى آبي اللحم , قال: اقبلت مع سادتي نريد الهجرة حتى ان دنونا من المدينة , قال: وخلفوني في ظهورهم , فدخلوا المدينة , قال: قال: فاصابني مجاعة شديدة , قال: فمر بي بعض من يخرج من المدينة , فقالوا لي: لو دخلت المدينة , فاصبت من ثمر حوائطها , فدخلت حائطا فقطعت منه قنوين , فاتاني صاحب الحائط , فاتى بي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , واخبره خبري , وعلي ثوبان , فقال لي: " ايهما افضل؟" , فاشرت له إلى احدهما , فقال" خذه" , واعطي صاحب الحائط الآخر , وخلى سبيلي .حَدَّثَنَا رِبْعِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ عَمِّهِ , وَعَنْ أبى بكر بْنِ زَيْدِ بْنِ الْمُهَاجِرِ , أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَيْرًا مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ , قَالَ: أَقْبَلْتُ مَعَ سَادَتِي نُرِيدُ الْهِجْرَةَ حَتَّى أَنْ دَنَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ , قَالَ: وَخَلَّفُونِي فِي ظَهوْرِهِمْ , فَدَخَلُوا الْمَدِينَةَ , قَالَ: قَالَ: فَأَصَابَنِي مَجَاعَةٌ شَدِيدَةٌ , قَالَ: فَمَرَّ بِي بَعْضُ مَنْ يَخْرُجُ مِنَ الْمَدِينَةِ , فَقَالُوا لِي: لَوْ دَخَلْتَ الْمَدِينَةَ , فَأَصَبْتَ مِنْ ثَمَرِ حَوَائِطِهَا , فَدَخَلْتُ حَائِطًا فَقَطَعْتُ مِنْهُ قِنْوَيْنِ , فَأَتَانِي صَاحِبُ الْحَائِطِ , فَأَتَى بِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَخْبَرَهُ خَبَرِي , وَعَلَيَّ ثَوْبَانِ , فَقَالَ لِي: " أَيُّهُمَا أَفْضَلُ؟" , فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا , فَقَالَ" خُذْهُ" , وَأَعْطِي صَاحِبَ الْحَائِطِ الْآخَرَ , وَخَلَّى سَبِيلِي .
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ سے مرویھی کہ میں اپنے آقا کے ساتھ ہجرت کے ارادے سے آرہا تھا جب ہم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو میرے آقا مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے اور مجھے سواری کے پاس چھوڑ گئے کچھ دیر بعد مجھے سخت قسم کی بھوک نے ستایا، اسی اثناء میں مدینہ منورہ سے باہر آنے والا ایک آدمی میرے پاس سے گذرا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تم مدینہ کے اندر چلے جاؤ اور اس کے کسی باغ میں سے پھل توڑ کر کھالو، چنانچہ میں ایک باغ میں داخل ہوا اور وہاں سے دو خوشے اتارے اتنی دیر میں باغ کا مالک بھی آگیا، وہ مجھے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرا واقعہ بتایا، اس وقت میرے جسم پر دو کپڑے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ ان دونوں میں سب سے بہتر کون سا ہے؟ میں نے ایک کپڑے کی طرف اشارہ کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم رکھو اور دوسرا کپڑا باغ مالک کو دے کر مجھے چھوڑ دیا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، عم إسحاق والد عبدالرحمن لم يوجد له ترجمة، وله متابع مجهول
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو " احجارالزیت " نامی جگہ پر (جومقام زوراء کے قریب ہے کھڑے ہو کر) دعاء استسقاء کرتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیلیوں کے اندرونی حصے کو اپنے چہرے کی طرف کیا ہوا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سعيد بن أبى هلال مختلط ، وقد أسقط محمد بن إبراهيم بين يزيد بن عبدالله وبين عمير
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو " احجارالزیت " نامی جگہ پر (جو مقام زوراء کے قریب ہے کھڑے ہو کر) دعاء استسقاء کرتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیلیوں کے اندرونی حصے کو اپنے چہرے کی طرف کیا ہوا تھا۔
حدثنا يزيد بن هارون ويعلى قالا: حدثنا عبد الملك عن ابي الزبير عن صفوان قال يزيد بن عبد الله فذكرهحَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَيَعْلَى قَالَا: حدثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ صَفْوَانَ قَالَ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَذَكَرَهُ
حدثنا بهز بن اسد , حدثنا حماد بن سلمة , عن عبد الملك بن عمير , عن رفاعة بن شداد , قال: كنت اقوم على راس المختار , فلما تبينت كذابته هممت , وايم الله ان اسل سيفي فاضرب عنقه , حتى ذكرت حديثا حدثنيه عمرو بن الحمق , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من امن رجلا على نفسه فقتله , اعطي لواء الغدر يوم القيامة" .حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ , عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ شَدَّادٍ , قَالَ: كُنْتُ أَقُومُ عَلَى رَأْسِ الْمُخْتَارِ , فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ كِذَابَتَهُ هَمَمْتُ , وَايْمُ اللَّهِ أَنْ أَسُلَّ سَيْفِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ , حَتَّى ذَكَرْتُ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ أَمَّنَ رَجُلًا عَلَى نَفْسِهِ فَقَتَلَهُ , أُعْطِيَ لِوَاءَ الْغَدْرِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
رفاعہ بن شداد کہتے ہیں کہ میں ایک دن مختار کے سرہانے کھڑا تھا جب اس کا جھوٹا ہونا مجھ پر روشن ہوگیا تو واللہ میں نے اس بات کا ارادہ کرلیا کہ اپنی تلوار کھینچ کر اس کی گردن اڑا دوں، لیکن پھر مجھے ایک حدیث یاد آگئی جو مجھ سے حضرت عمرو بن الحمق رضی اللہ عنہ نے بیان کی تھی کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کسی مسلمان کو پہلے اس کی جان کی امان دے دے پھر بعد میں اسے قتل کر دے تو قیامت کے دن اسے دھوکے کا جھنڈا دیا جائے گا۔
حدثنا ابن نمير , حدثنا عيسى القارئ ابو عمر بن عمر , حدثنا السدي , عن رفاعة القتباني , قال: دخلت على المختار فالقى لي وسادة , وقال: لولا ان اخي جبريل قام عن هذه لالقيتها لك , قال: فاردت ان اضرب عنقه , فذكرت حديثا حدثنيه اخي عمرو بن الحمق , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما مؤمن امن مؤمنا على دمه فقتله , فانا من القاتل بريء" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا عِيسَى الْقَارِئُ أَبُو عُمَرَ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا السُّدِّيُّ , عَنْ رِفَاعَةَ الْقِتْبَانِيِّ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى الْمُخْتَارِ فَأَلْقَى لِي وِسَادَةً , وَقَالَ: لَوْلَا أَنَّ أَخِي جِبْرِيلَ قَامَ عَنْ هَذِهِ لَأَلْقَيْتُهَا لَكَ , قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ , فَذَكَرْتُ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ أَخِي عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَمَّنَ مُؤْمِنًا عَلَى دَمِهِ فَقَتَلَهُ , فَأَنَا مِنَ الْقَاتِلِ بَرِيءٌ" .
رفاعہ بن شداد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مختار کے پاس گیا، اس نے میرے لئے تکیہ رکھا اور کہنے لگا کہ اگر میرے بھائی جبرائیل علیہ السلام اس سے نہ اٹھے ہوتے تو میں یہ تکیہ تمہارے لئے رکھتا میں اس وقت مختار کے سرہانے کھڑا تھا جب اس کا جھوٹا ہونا مجھ پر روشن ہوگیا تو واللہ میں نے اس بات کا ارادہ کرلیا کہ اپنی تلوار کھینچ کر اس کی گردن اڑا دوں لیکن پھر مجھے ایک حدیث یاد آگئی جو مجھ سے حضرت عمرو بن الحمق رضی اللہ عنہ نے بیان کی تھی کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کسی مسلمان کو پہلے اس کی جان کی امان دے دے پھر بعد میں اسے قتل کر دے تو میں قاتل سے بری ہوں۔
رفاعہ بن شداد کہتے ہیں کہ میں ایک دن مختار کے سرہانے کھڑا تھا جب اس کا جھوٹا ہونا مجھ پر روشن ہوگیا تو واللہ میں نے اس بات کا ارادہ کرلیا کہ اپنی تلوار کھینچ کر اس کی گردن اڑا دوں، لیکن پھر مجھے ایک حدیث یاد آگئی جو مجھ سے حضرت عمرو بن الحمق رضی اللہ عنہ نے بیان کی تھی کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کسی مسلمان کو پہلے اس کی جان کی امان دے دے پھر بعد میں اسے قتل کر دے تو قیامت کے دن اسے دھوکے کا جھنڈا دیا جائے گا۔
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جب اللہ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے استعمال کرلیتا ہے کسی نے پوچھا استعمال کرنے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا اس کی موت سے پہلے اس کے لئے اعمال صالحہ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کے آس پاس کے لوگ اس سے راضی ہوجاتے ہیں۔