حضرت ابو واقد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات سے فرمایا یہ حج تم میرے ساتھ کر رہی ہو، اس کے بعد تمہیں گھروں میں بیٹھنا ہوگا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد
عبید اللہ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید میں کہاں سے تلاوت فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا سورت ق اور سورت قمر سے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 891، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل فليح
نافع بن سرجس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت واقد رضی اللہ عنہ کے مرض الوفات میں ان کی بیمار پرسی کے لئے حاضر ہوئے تو میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت سب سے ہلکی نماز پڑھاتے تھے اور خود نماز پڑھتے وقت سب سے لمبی نماز پڑھتے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم
حدثنا حماد بن خالد , حدثنا مالك , عن يزيد بن خصيفة , عن السائب بن يزيد , عن سفيان بن ابي زهير , عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " من اقتنى كلبا , لا يغني من زرع او ضرع , نقص من عمله كل يوم قيراط" , قال السائب: فقلت لسفيان: انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم , ورب هذا المسجد.حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ , عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ , عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا , لَا يُغْنِي مِنْ زَرْعٍ أَوْ ضَرْعٍ , نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ" , قَالَ السَّائِبُ: فَقُلْتُ لِسُفْيَانَ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ , وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ.
حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو لوگ بھی اپنے یہاں کتے کو رکھتے ہیں جو کھیت، شکار یا ریوڑ کی حفاظت کے لئے نہ ہو، ان کے اجروثواب سے روزانہ ایک قیراط کی کمی ہوتی رہتی ہے، سائب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفیان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے براہ راست یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اس مسجد کے رب کی قسم۔
حدثنا سليمان بن داود الهاشمي , اخبرنا إسماعيل يعني ابن جعفر , اخبرني يزيد بن خصيفة , ان بسر بن سعيد اخبره , انه سمع في مجلس الليثيين يذكرون , ان سفيان اخبرهم , ان فرسه اعيت بالعقيق وهو في بعث بعثهم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فرجع إليه يستحمله , فزعم سفيان كما ذكروا ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج معه يبتغي له بعيرا , فلم يجده إلا عند ابي جهم بن حذيفة العدوي , فسامه له , فقال له ابو جهم: لا ابيعكه يا رسول الله , ولكن خذه فاحمل عليه من شئت , فزعم انه اخذه منه , ثم خرج حتى إذا بلغ بئر الإهاب , زعم ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " يوشك البنيان ان ياتي هذا المكان , ويوشك الشام ان يفتتح , فياتيه رجال من اهل هذا البلد , فيعجبهم ريفه ورخاؤه , والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون , ثم يفتح العراق , فياتي قوم يبسون , فيتحملون باهليهم ومن اطاعهم , والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون , إن إبراهيم دعا لاهل مكة , وإني اسال الله تبارك وتعالى ان يبارك لنا في صاعنا , وان يبارك لنا في مدنا , مثل ما بارك لاهل مكة" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ , أَخبرنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ , أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ , أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ سَمِعَ فِي مَجْلِسِ اللَّيْثِيِّينَ يَذْكُرُونَ , أَنَّ سُفْيَانَ أَخْبَرَهُمْ , أَنَّ فَرَسَهُ أَعْيَتْ بِالْعَقِيقِ وَهُوَ فِي بَعْثٍ بَعَثَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَجَعَ إِلَيْهِ يَسْتَحْمِلُهُ , فَزَعَمَ سُفْيَانُ كَمَا ذَكَرُوا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مَعَهُ يَبْتَغِي لَهُ بَعِيرًا , فَلَمْ يَجِدْه إِلَّا عِنْدَ أَبِي جَهْمِ بْنِ حُذَيْفَةَ الْعَدَوِيِّ , فَسَامَهُ لَهُ , فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْمٍ: لَا أَبِيعُكَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَلَكِنْ خُذْهُ فَاحْمِلْ عَلَيْهِ مَنْ شِئْتَ , فَزَعَمَ أَنَّهُ أَخَذَهُ مِنْهُ , ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى إِذَا بَلَغَ بِئْرَ الْإِهَابِ , زَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُوشِكُ الْبُنْيَانُ أَنْ يَأْتِيَ هَذَا الْمَكَانَ , وَيُوشِكُ الشَّامُ أَنْ يُفْتَتَحَ , فَيَأْتِيَهُ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ هَذَا الْبَلَدِ , فَيُعْجِبَهُمْ رِيفُهُ وَرَخَاؤُهُ , وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ , ثُمَّ يُفْتَحُ الْعِرَاقُ , فَيَأْتِي قَوْمٌ يَبُسُّونَ , فَيَتَحَمَّلُونَ بِأَهْلِيهِمْ وَمَنْ أَطَاعَهُمْ , وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ , إِنَّ إِبْرَاهِيمَ دَعَا لِأَهْلِ مَكَّةَ , وَإِنِّي أَسْأَلُ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْ يُبَارِكَ لَنَا فِي صَاعِنَا , وَأَنْ يُبَارِكَ لَنَا فِي مُدِّنَا , مِثْلَ مَا بَارَكَ لِأَهْلِ مَكَّةَ" .
حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وادی عقیق میں پہنچ کر ایک مرتبہ ان کا گھوڑا چلنے پھرنے سے عاجز ہوگیا وہ اس لشکر میں شامل تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کی درخواست لے کر واپس آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ اونٹ کی تلاش میں نکلے لیکن کہیں سے اونٹ نہ مل سکا، البتہ ابو جہم بن حذیفہ عدوی کے پاس ایک اونٹ نظر آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھاؤ تاؤ کیا لیکن ابوجہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اسے آپ کے ہاتھ فروخت تو نہیں کرتا البتہ آپ اسے لے جائیے اور جسے چاہیں اس پر سوار ہونے کی اجازت دے دیں ان کے بقول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ ابوجہم سے لے لیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے، جب بئر اہاب پر پہنچے تو ان کے بقول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب بلند وبالا عمارتیں اس جگہ تک بھی پہنچ جائیں گی اور شام فتح ہوجائے گا اس شہر کے کچھ لوگ وہاں جائیں گے تو انہیں وہاں کی شادابی اور آب وہوا خوب پسند آئے گی، حالانکہ اگر انہیں پتہ ہوتا تو مدینہ ہی ان کے لئے بہتر تھا، پھر عراق بھی فتح ہوجائے گا اور ایک قوم پھیل جائے گی وہ اپنے اہل خانہ اور اپنی بات ماننے والوں کو لے کر سوار ہوجائیں گے حالانکہ اگر انہیں پتہ ہوتا تو مدینہ ہی ان کے لئے بہتر تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں رہنے والوں کے لئے دعاء مانگی تھی اور میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کرتا ہوں کہ وہ ہمارے صاع اور مد میں اسی طرح برکت عطاء فرمائے جیسے اہل مکہ کو عطاء فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الإبهام الليثين، وقوله: يوشك الشام أن يفتح..... الي آخر الحديث صحيح
حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب یمن فتح ہوجائے گا اس شہر کے کچھ لوگ وہاں جائیں گے تو انہیں وہاں کی شادابی اور آب وہوا خوب پسند آئے گی، حالانکہ اگر انہیں پتہ ہوتا تو مدینہ ہی ان کے لئے بہتر تھا، پھر شام بھی فتح ہوجائے گا اور ایک قوم پھیل جائے گی، وہ اپنے اہل خانہ اور اپنی بات ماننے والوں کو لے کر سوار ہوجائیں گے حالانکہ اگر انہیں پتہ ہوتا تو مدینہ ہی ان کے لئے بہتر تھا۔
حدثنا روح , حدثنا مالك بن انس , عن يزيد بن خصيفة , عن السائب بن يزيد انه اخبره , انه سمع سفيان بن ابي زهير وهو رجل من شنوءة , من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يحدث ناسا معه عند باب المسجد , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من اقتنى كلبا , لا يغني عنه زرعا , ولا ضرعا , نقص من عمله كل يوم قيراط" , قال: انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: إي ورب هذا المسجد.حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ , عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ شَنُوءَةَ , مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ نَاسًا مَعَهُ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا , لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا , وَلَا ضَرْعًا , نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ" , قَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ.
حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو لوگ بھی اپنے یہاں کتے کو رکھتے ہیں جو کھیت، شکار یار یوڑ کی حفاظت کے لئے نہ ہو، ان کے اجروثواب سے روزانہ ایک قیراط کی کمی ہوتی رہتی ہے، سائب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفیان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے براہ راست یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اس مسجد کے رب کی قسم۔
حدثنا بهز , حدثنا حماد بن سلمة , حدثنا سعيد بن جمهان . ح وعبد الصمد , حدثني حماد حدثني سعيد بن جمهان , عن سفينة , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الخلافة ثلاثون عاما , ثم يكون بعد ذلك الملك" , قال سفينة: امسك خلافة ابي بكر رضي الله عنه سنتين , وخلافة عمر رضي الله عنه عشر سنين , وخلافة عثمان رضي الله عنه اثني عشر سنة , وخلافة علي ست سنين رضي الله عنهم.حَدَّثَنَا بَهْزٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ . ح وعَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنِي حَمَّادٌ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ , عَنْ سَفِينَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ عَامًا , ثُمَّ يَكُونُ بَعْدَ ذَلِكَ الْمُلْكُ" , قَالَ سَفِينَةُ: أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَنَتَيْنِ , وَخِلَافَةَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَشْرَ سِنِينَ , وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اثْنَيْ عَشْرَ سَنَةً , وَخِلَافَةَ عَلِيٍّ سِتَّ سِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خلافت تیس سال تک رہے گی اس کے بعد بادشاہت آجائے گی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ اسے یوں شمار کراتے ہیں کہ دو سال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ہوئے دس سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ سال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اور چھ سال حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے (کل تیس سال ہوگئے)