حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مسافر آدمی موزوں پر تین راتوں تک مسح کرسکتا ہے اور مقیم آدمی ایک دن اور ایک رات۔
حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مسافر آدمی موزوں پر تین راتوں تک مسح کرسکتا ہے اور مقیم آدمی ایک دن اور ایک رات۔ اللہ کی قسم! اگر سائل مزید دن بڑھانے کی درخواست کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں مزید اضافہ فرما دیتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فيه على إبراهيم
حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دے رہے ہیں (پیشانی مبارک پر) انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خواب بتایا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روح کی ملاقات روح سے نہیں ہوتی) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر ان کے آگے جھکا دیا چنانچہ انہوں نے اسے بوسہ دیا لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف للاختلاف الذى وقع فيه على يونس بن يزيد وعلى الزهري، وابن خزيمة مبهم
حدثنا ابو اليمان , حدثنا شعيب , عن الزهري , حدثني عمارة بن خزيمة الانصاري , ان عمه حدثه , وهو من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , ان النبي صلى الله عليه وسلم ابتاع فرسا من اعرابي , فاستتبعه النبي صلى الله عليه وسلم ليقضيه ثمن فرسه , فاسرع النبي صلى الله عليه وسلم المشي , وابطا الاعرابي , فطفق رجال يعترضون الاعرابي فيساومون بالفرس , لا يشعرون ان النبي صلى الله عليه وسلم ابتاعه , حتى زاد بعضهم الاعرابي في السوم على ثمن الفرس الذي ابتاعه به النبي صلى الله عليه وسلم , فنادى الاعرابي النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: إن كنت مبتاعا هذا الفرس فابتعه , وإلا بعته , فقام النبي صلى الله عليه وسلم حين سمع نداء الاعرابي , فقال: " اوليس قد ابتعته منك؟" , قال الاعرابي: لا والله ما بعتك , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" بلى قد ابتعته منك" , فطفق الناس يلوذون بالنبي صلى الله عليه وسلم والاعرابي وهما يتراجعان , فطفق الاعرابي يقول: هلم شهيدا يشهد اني بايعتك , فمن جاء من المسلمين , قال للاعرابي: ويلك ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن ليقول إلا حقا , حتى جاء خزيمة , لمراجعة النبي صلى الله عليه وسلم ومراجعة الاعرابي , فطفق الاعرابي يقول: هلم شهيدا يشهد اني بايعتك , قال خزيمة: انا اشهد انك قد بايعته , فاقبل النبي صلى الله عليه وسلم على خزيمة , فقال:" بم تشهد؟" , فقال: بتصديقك يا رسول الله , فجعل النبي صلى الله عليه وسلم شهادة خزيمة شهادة رجلين .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيُّ , أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ , وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِيٍّ , فَاسْتَتْبَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَقْضِيَهُ ثَمَنَ فَرَسِهِ , فَأَسْرَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَشْيَ , وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِيُّ , فَطَفِقَ رِجَالٌ يَعْتَرِضُونَ الْأَعْرَابِيَّ فَيُسَاوِمُونَ بِالْفَرَسِ , لَا يَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَهُ , حَتَّى زَادَ بَعْضُهُمْ الْأَعْرَابِيَّ فِي السَّوْمِ عَلَى ثَمَنِ الْفَرَسِ الَّذِي ابْتَاعَهُ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَنَادَى الْأَعْرَابِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعَا هَذَا الْفَرَسَ فَابْتَعْهُ , وَإِلَّا بِعْتُهُ , فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ نِدَاءَ الْأَعْرَابِيِّ , فَقَالَ: " أَوَلَيْسَ قَدْ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ؟" , قَالَ الْأَعْرَابِيُّ: لَا وَاللَّهِ مَا بِعْتُكَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلَى قَدْ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ" , فَطَفِقَ النَّاسُ يَلُوذُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَعْرَابِيِّ وَهُمَا يَتَرَاجَعَانِ , فَطَفِقَ الْأَعْرَابِيُّ يَقُولُ: هَلُمَّ شَهِيدًا يَشْهَدُ أَنِّي بَايَعْتُكَ , فَمَنْ جَاءَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ , قَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ: وَيْلَكَ أن النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ لِيَقُولَ إِلَّا حَقًّا , حَتَّى جَاءَ خُزَيْمَةُ , لِمُرَاجَعَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُرَاجَعَةِ الْأَعْرَابِيِّ , فَطَفِقَ الْأَعْرَابِيُّ يَقُولُ: هَلُمَّ شَهِيدًا يَشْهَدُ أَنِّي بَايَعْتُكَ , قَالَ خُزَيْمَةُ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَايَعْتَهُ , فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خُزَيْمَةَ , فَقَالَ:" بِمَ تَشْهَدُ؟" , فَقَالَ: بِتَصْدِيقِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ .
عمارہ بن خزیمہ اپنے چچا سے " جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ تھے " نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دیہاتی سے ایک گھوڑا خریدا اور قیمت ادا کرنے کے لئے اسے اپنے ساتھ لے کر چلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار تیز تھی اور وہ دیہاتی سست روی سے چل رہا تھا راستے میں اس دیہاتی کو کچھ لوگ ملے جو اس سے گھوڑے کا بھاؤ تاؤ کرنے لگے کیونکہ انہیں تو یہ معلوم نہیں تھا کہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرید چکے ہیں حتیٰ کہ ایک آدمی نے اسے گھوڑے کی قیمت لگائی وہ اس قیمت سے زیادہ تھی جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خریدا تھا چنانچہ اس دیہاتی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے کر کہا کہ اگر آپ نے یہ گھوڑا لینا ہے تو لے لیں ورنہ میں اسے بیچنے لگا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دیہاتی کی یہ آواز سن کر رک گئے اور فرمایا کیا میں نے تم سے یہ گھوڑا خرید نہیں لیا؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! میں نے تو آپ کو یہ گھوڑا نہیں بیچا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں بیچا میں نے تو خود تم سے اسے خریدا ہے۔
دونوں میں اس بات پر تکرار ہونے لگی اور لوگ بھی جمع ہونے لگے وہ دیہاتی کہنے لگا کہ کوئی گواہ پیش کیجئے جو اس بات کی گواہی دے کہ اسے میں نے آپ کو فروخت کردیا ہے؟ جو مسلمان بھی آتا وہ اس سے یہی کہتا کم بخت! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو کہتے ہی وہ بات ہیں جو برحق ہو، اسی دوران حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ بھی آگئے، انہوں نے بھی دونوں کی تکرار سنی، اس مرتبہ جب دیہاتی نے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا تو حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے یہ گھوڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم کیسے گواہی دے رہے ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے سچا ہونے کی بناء پر چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا۔
حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دے رہے ہیں (پیشانی مبارک پر) انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خواب بتایا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روح کی ملاقات روح سے نہیں ہوتی) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر ان کے آگے جھکا دیا چنانچہ انہوں نے اسے بوسہ دے لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، صالح بن أبى الأخضر ضعيف، وقد وقع فى سكن بن نافع اختلاف كثير
حدثنا عامر بن صالح الزبيري , حدثني يونس بن يزيد , عن ابن شهاب , عن عمارة بن خزيمة بن ثابت الانصاري , وخزيمة الذي جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم شهادته شهادة رجلين , قال ابن شهاب: فاخبرني عمارة بن خزيمة , عن عمه , وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم , ان خزيمة بن ثابت " راى في النوم انه يسجد على جبهة رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك , فاضطجع له رسول الله صلى الله عليه وسلم فسجد على جبهته" .حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ الزُّبَيْرِيُّ , حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ , وَخُزَيْمَةُ الَّذِي جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَتَهُ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ , قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي عُمَارَةُ بْنُ خُزَيْمَةَ , عَنْ عَمِّهِ , وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ خُزَيْمَةَ بْنَ ثَابِتٍ " رَأَى فِي النَّوْمِ أَنَّهُ يَسْجُدُ عَلَى جَبْهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ , فَاضْطَجَعَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَجَدَ عَلَى جَبْهَتِهِ" .
حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دے رہے ہیں (پیشانی مبارک پر) انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خواب بتایا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روح کی ملاقات روح سے نہیں ہوتی) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سران کے آگے جھکا دیا چنانچہ انہوں نے اسے بوسہ دے لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عامر بن صالح متروك، وفيه اختلاف
حضرت ابو بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخار کے متعلق فرمایا کہ اسے پانی سے ٹھنڈا کیا کرو کیونکہ یہ جہنم کی تپش کا اثر ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن أبى بشير وابنته مجهولان
حضرت ابو بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاصد کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا کوئی قلادہ یا کسی بھی قسم کا قلادہ نہ لٹکایا جائے بلکہ اسے کاٹ دیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ اور ابو بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نماز پڑھانے لگے تو ایک عورت وادی بطحاء میں سے گذری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے اسے پیچھے رہنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ پیچھے چلی گئی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے تب وہاں سے گذری۔
حدثنا هارون بن معروف , قال عبد الله: وسمعته انا من هارون , قال: حدثنا عبد الله , اخبرني مخرمة , عن ابيه , عن سعيد بن نافع , قال: رآني ابو بشير الانصاري , صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا اصلي صلاة الضحى حين طلعت الشمس , فعاب ذلك علي ونهاني , ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا تصلوا حتى ترتفع الشمس , فإنها تطلع بين قرني الشيطان" .حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ هَارُونَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ نَافِعٍ , قَالَ: رَآنِي أَبُو بَشِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ , صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي صَلَاةَ الضُّحَى حِينَ طَلَعَتْ الشَّمْسُ , فَعَابَ ذَلِكَ عَلَيَّ وَنَهَانِي , ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تُصَلُّوا حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ , فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ الشَّيْطَانِ" .
سعید بن نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں طلوع آفتاب کے وقت چاشت کی نماز پڑھ رہا تھا تو مجھے حضرت ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا انہوں نے اس وقت نماز پڑھنے کو معیوب قرار دیتے ہوئے مجھے اس سے منع کیا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اس وقت تک نماز نہ پڑھا کرو جب تک سورج بلند نہ ہوجائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين من أجل سعيد بن نافع