مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 21780
Save to word اعراب
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن عمارة , عن ابي الشعثاء , قال:" خرجت حاجا فدخلت البيت , فلما كنت عند الساريتين , مضيت حتى لزقت بالحائط , قال: وجاء ابن عمر , حتى قام إلى جنبي فصلى اربعا , قال: فلما صلى , قلت له: اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من البيت؟ قال: فقال: هاهنا , اخبرني اسامة بن زيد , انه صلى , قال: قلت: فكم صلى؟ قال: على هذا اجدني الوم نفسي اني مكثت معه عمرا , ثم لم اساله كم صلى , فلما كان العام المقبل قال: خرجت حاجا , قال: فجئت حتى قمت في مقامه , قال: فجاء ابن الزبير , حتى قام إلى جنبي , فلم يزل يزاحمني حتى اخرجني منه , ثم صلى فيه اربعا" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ عُمَارَةَ , عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ , قَالَ:" خَرَجْتُ حَاجًّا فَدَخَلْتُ الْبَيْتَ , فَلَمَّا كُنْتُ عِنْدَ السَّارِيَتَيْنِ , مَضَيْتُ حَتَّى لَزِقْتُ بِالْحَائِطِ , قَالَ: وَجَاءَ ابْنُ عُمَرَ , حَتَّى قَامَ إِلَى جَنْبِي فَصَلَّى أَرْبَعًا , قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى , قُلْتُ لَهُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَيْتِ؟ قَالَ: فَقَالَ: هَاهُنَا , أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , أَنَّهُ صَلَّى , قَالَ: قُلْتُ: فَكَمْ صَلَّى؟ قَالَ: عَلَى هَذَا أَجِدُنِي أَلُومُ نَفْسِي أَنِّي مَكَثْتُ مَعَهُ عُمُرًا , ثُمَّ لَمْ أَسْأَلْهُ كَمْ صَلَّى , فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالَ: خَرَجْتُ حَاجًّا , قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِهِ , قَالَ: فَجَاءَ ابْنُ الزُّبَيْرِ , حَتَّى قَامَ إِلَى جَنْبِي , فَلَمْ يَزَلْ يُزَاحِمُنِي حَتَّى أَخْرَجَنِي مِنْهُ , ثُمَّ صَلَّى فِيهِ أَرْبَعًا" .
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حج کے ارادے سے نکلا، بیت اللہ شریف میں داخل ہوا جب دو ستونوں کے درمیان پہنچا تو جا کر ایک دیوار سے چمٹ گیا اتنی دیر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہو کر چار رکعتیں پڑھیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں کہاں نماز پڑھی تھی انہوں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہاں مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اسی پر تو آج تک میں اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں کہ میں نے ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گذارا لیکن یہ نہ پوچھ سکا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔ اگلے سال میں پھر حج کے ارادے سے نکلا اور اسی جگہ پر جا کر کھڑا ہوگیا جہاں پچھلے سال کھڑا ہوا تھا اتنی دیر میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہوگئے پھر وہ مجھ سے مزاحمت کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے وہاں سے باہر کردیا اور پھر اس میں چار رکعتیں پڑھیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21781
Save to word اعراب
حدثنا إسماعيل , حدثنا هشام يعني الدستوائي , حدثنا يحيى بن ابي كثير , عن عمر بن الحكم بن ثوبان , ان مولى قدامة بن مظعون حدثه , ان مولى اسامة بن زيد حدثه , ان اسامة بن زيد كان يخرج في مال له بوادي القرى , فيصوم الاثنين والخميس , فقلت له: لم تصوم في السفر وقد كبرت ورققت؟ فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم الاثنين والخميس , فقلت: يا رسول الله لم تصوم الاثنين والخميس؟ قال: " إن الاعمال تعرض يوم الاثنين , ويوم الخميس" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي الدَّسْتُوَائِيَّ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ , أَنَّ مَوْلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ حَدَّثَه , أَنَّ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حَدَّثَهُ , أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ كَانَ يَخْرُجُ فِي مَالٍ لَهُ بِوَادِي الْقُرَى , فَيَصُومُ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ , فَقُلْتُ لَهُ: لِمَ تَصُومُ فِي السَّفَرِ وَقَدْ كَبِرْتَ وَرَقَقْتَ؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ تَصُومُ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ؟ قَالَ: " إِنَّ الْأَعْمَالَ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ , وَيَوْمَ الْخَمِيسِ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ایک آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک دن وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے مال کی تلاش میں وادی قری گیا ہوا تھا حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ان کے غلام نے ان سے پوچھا کہ آپ اس قدر بوڑھے اور کمزور ہونے کے باوجود بھی پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے میں اتنی پابندی کیوں رکھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے کسی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مولي قدامة، وجهالة مولي أسامة، والمرفوع منه صحيح بطرقه وشواهده
حدیث نمبر: 21782
Save to word اعراب
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم , عن سليمان التيمي , عن ابي عثمان النهدي , عن اسامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قمت على باب الجنة , فإذا عامة من دخلها المساكين , وإذا اصحاب الجد وقال يحيى بن سعيد , وغيره: إلا اصحاب الجد محبوسون , إلا اصحاب النار , فقد امر بهم إلى النار , وقمت على باب النار , فإذا عامة من يدخلها النساء" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , عَنْ أُسَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُمْتُ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ , فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ دَخَلَهَا الْمَسَاكِينُ , وَإِذَا أَصْحَابُ الْجَدِّ وَقَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَغَيْرُهُ: إِلَّا أَصْحَابَ الْجَدِّ مَحْبُوسُونَ , إِلَّا أَصْحَابَ النَّارِ , فَقَدْ أُمِرَ بِهِمْ إِلَى النَّارِ , وَقُمْتُ عَلَى بَابِ النَّارِ , فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ يَدْخُلُهَا النِّسَاءُ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت مساکین کی ہے جبکہ مالداروں کو (حساب کتاب کے لئے فرشتوں نے) روکا ہوا ہے البتہ جو جہنمی ہیں انہیں جہنم میں داخل کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے اور جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5196، م: 2736
حدیث نمبر: 21783
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد , حدثنا هشام , حدثني ابي , قال: سئل اسامة , عن سير رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وانا شاهد , قال: " كان سيره العنق , فإذا وجد فجوة نص , والنص فوق العنق , وانا رديفه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ , عَنْ سَيْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَأَنَا شَاهِدٌ , قَالَ: " كَانَ سَيْرُهُ الْعَنَقَ , فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ , وَالنَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ , وَأَنَا رَدِيفُهُ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار درمیانی تھی جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2999، م: 1286
حدیث نمبر: 21784
Save to word اعراب
حدثنا يعلى بن عبيد , حدثنا الاعمش , عن ابي وائل , قال: قيل لاسامة : الا تكلم عثمان؟ فقال: إنكم ترون ان لا اكلمه إلا سمعكم , إني لا اكلمه فيما بيني وبينه , ما دون ان افتتح امرا لا احب ان اكون اول من افتتحه , والله لا اقول لرجل: إنك خير الناس , وإن كان علي اميرا , بعد إذ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قالوا: وما سمعته يقول؟ قال: سمعته يقول: " يجاء بالرجل يوم القيامة , فيلقى في النار , فتندلق به اقتابه , فيدور بها في النار كما يدور الحمار برحاه , فيطيف به اهل النار , فيقولون: يا فلان ما لك ما اصابك؟ الم تكن تامرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر؟ فقال: كنت آمركم بالمعروف ولا آتيه , وانهاكم عن المنكر وآتيه" .حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , قَال: قِيلَ لِأُسَامَةَ : أَلَا تُكَلِّمُ عُثْمَان؟ فَقَالَ: إِنَّكُمْ تَرَوْنَ أَنْ لَا أُكَلِّمَهُ إِلَّا سَمْعَكُمْ , إِنِّي لَا أُكَلِّمُهُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ , مَا دُونَ أَنْ أَفْتَتِحَ أَمْرًا لَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ افْتَتَحَهُ , وَاللَّهِ لَا أَقُولُ لِرَجُلٍ: إِنَّكَ خَيْرُ النَّاسِ , وَإِنْ كَانَ عَلَيَّ أَمِيرًا , بَعْدَ إِذْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالُوا: وَمَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , فَيُلْقَى فِي النَّارِ , فَتَنْدَلِقُ بِهِ أَقْتَابُهُ , فَيَدُورُ بِهَا فِي النَّارِ كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ , فَيُطِيفُ بِهِ أَهْلُ النَّارِ , فَيَقُولُون: يَا فُلَانُ مَا لَكَ مَا أَصَابَكَ؟ أَلَمْ تَكُنْ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْكَرِ؟ فَقَالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ , وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ" .
ابو وائل کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بات کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں ان سے جو بھی بات کروں گا وہ تمہیں بھی بتاؤں گا میں ان سے جو بات بھی کرتا ہوں وہ میرے اور ان کے درمیان ہوتی ہے میں اس بات کو کھولنے میں خود پہل کرنے کو پسند نہیں کرتا اور بخدا! کسی آدمی کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم سب سے بہترین آدمی ہو خواہ وہ مجھ پر حکمران ہی ہو، جبکہ میں نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھ پر کیا مصیبت آئی؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3267، م: 2989
حدیث نمبر: 21785
Save to word اعراب
حدثنا وكيع , حدثني صالح بن ابي الاخضر , عن الزهري , عن عروة بن الزبير , عن اسامة بن زيد , قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قرية يقال لها: ابنى , فقال: " ائتها صباحا ثم حرق" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَرْيَةٍ يُقَالُ لَهَا: أُبْنَى , فَقَالَ: " ائْتِهَا صَبَاحًا ثُمَّ حَرِّقْ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے " ابنی " نامی ایک بستی کی طرف بھیجا اور فرمایا صبح کے وقت وہاں پہنچ کر اسے آگ لگا دو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف صالح بن أبى الأخضر، لكنه لم ينفرد به
حدیث نمبر: 21786
Save to word اعراب
حدثنا ابو عامر , حدثنا زهير يعني ابن محمد , عن عبد الله يعني ابن محمد بن عقيل , عن ابن اسامة بن زيد , ان اباه اسامة , قال: كساني رسول الله صلى الله عليه وسلم قبطية كثيفة كانت مما اهداها دحية الكلبي , فكسوتها امراتي , فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما لك لم تلبس القبطية" , قلت: يا رسول الله كسوتها امراتي , فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مرها فلتجعل تحتها غلالة , إني اخاف ان تصف حجم عظامها" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ , حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ , عَنِ ابْنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنَّ أَبَاهُ أُسَامَةَ , قَالَ: كَسَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبْطِيَّةً كَثِيفَةً كَانَتْ مِمَّا أَهْدَاهَا دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ , فَكَسَوْتُهَا امْرَأَتِي , فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَكَ لَمْ تَلْبَسْ الْقُبْطِيَّةَ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَسَوْتُهَا امْرَأَتِي , فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مُرْهَا فَلْتَجْعَلْ تَحْتَهَا غِلَالَةً , إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَصِفَ حَجْمَ عِظَامِهَا" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک موٹی قبطی چادر عطا فرمائی جو اس ہدیئے میں سے تھی جو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا، میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے؟ تم نے وہ چادر نہیں پہنی؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کہنا کہ اس کے نیچے شمیض لگائے کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے اس کے اعضاء جسم نمایاں ہوں گے۔

حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، عبدالله بن محمد يعتبر به فى المتابعات والشواهد
حدیث نمبر: 21787
Save to word اعراب
حدثنا عارم بن الفضل , حدثنا معتمر , عن ابيه , قال سمعت ابا تميمة يحدث , عن ابي عثمان النهدي , يحدثه ابو عثمان , عن اسامة بن زيد , قال: كان نبي الله صلى الله عليه وسلم ياخذني , فيقعدني على فخذه , ويقعد الحسن بن علي على فخذه الاخرى , ثم يضمنا , ثم يقول: " اللهم ارحمهما فإني ارحمهما" , قال علي بن المديني: هو السلي من عنزة إلى ربيعة يعني ابا تميمة السلي.حَدَّثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ , حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ سَمِعْتُ أَبَا تَمِيمَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , يُحَدِّثُهُ أَبُو عُثْمَانَ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُنِي , فَيُقْعِدُنِي عَلَى فَخِذِهِ , وَيُقْعِدُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَى فَخِذِهِ الْأُخْرَى , ثُمَّ يَضُمُّنَا , ثُمَّ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ ارْحَمْهُمَا فَإِنِّي أَرْحَمُهُمَا" , قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: هُوَ السَّلِّيُّ مِنْ عَنَزَةَ إِلَى رَبِيعَةَ يَعْنِي أَبَا تَمِيمَةَ السَّلِّيَّ.
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات مجھے پکڑ کر اپنی ایک ران پر بٹھا لیتے اور دوسری پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بھر ہمیں بھینچ کر فرماتے اے اللہ! میں چونکہ ان دونوں پر رحم کھاتا ہوں لہٰذا تو بھی ان پر رحم فرما۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3735
حدیث نمبر: 21788
Save to word اعراب
حدثنا زكريا بن عدي , قال: حدثنا عبيد الله بن عمرو , عن عبد الله بن محمد بن عقيل , عن محمد بن اسامة بن زيد , عن ابيه , قال: كساني رسول الله صلى الله عليه وسلم قبطية كثيفة مما اهداها له دحية الكلبي , فكسوتها امراتي , فقال:" ما لك لم تلبس القبطية؟" , قلت: كسوتها امراتي , فقال: " مرها فلتجعل تحتها غلالة , فإني اخاف ان تصف حجم عظامها" .حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ , قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: كَسَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبْطِيَّةً كَثِيفَةً مِمَّا أَهْدَاهَا لَهُ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ , فَكَسَوْتُهَا امْرَأَتِي , فَقَالَ:" مَا لَكَ لَمْ تَلْبَسْ الْقُبْطِيَّةَ؟" , قُلْتُ: كَسَوْتُهَا امْرَأَتِي , فَقَالَ: " مُرْهَا فَلْتَجْعَلْ تَحْتَهَا غِلَالَةً , فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ تَصِفَ حَجْمَ عِظَامِهَا" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک موٹی قبطی چادر عطا فرمائی جو اس ہدیئے میں سے تھی جو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا، میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے؟ تم نے وہ چادر نہیں پہنی؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کہنا کہ اس کے نیچے شمیض لگائے کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے اس کے اعضاء جسم نمایاں ہوں گے۔

حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، عبدالله بن محمد يعتبر به فى المتابعات والشواهد
حدیث نمبر: 21789
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا سفيان , عن عاصم , عن ابي عثمان النهدي , عن اسامة بن زيد , قال: ارسلت ابنة النبي صلى الله عليه وسلم: ان ابني يقبض فاتنا , فارسل يقرا السلام , ويقول: " لله ما اخذ , ولله ما اعطى , وكل شيء عنده باجل مسمى" , قال: فارسلت إليه تقسم عليه لياتين , قال: فقام وقمنا معه معاذ بن جبل , وابي بن كعب , وسعد بن عبادة , قال: فاخذ الصبي ونفسه تقعقع , قال: فدمعت عيناه , فقال سعد: يا رسول الله ما هذا؟ قال:" هذه رحمة جعلها الله في قلوب عباده , وإنما يرحم الله من عباده الرحماء" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أَرْسَلَتْ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ ابْنِي يُقْبَضُ فَأْتِنَا , فَأَرْسَلَ يِقْرَأِ السَّلَامِ , وَيَقُولُ: " لِلَّهِ مَا أَخَذَ , وَلِلَّهِ مَا أَعْطَى , وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى" , قَالَ: فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّ , قَالَ: فَقَامَ وَقُمْنَا مَعَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ , وَسَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ , قَالَ: فَأَخَذَ الصَّبِيَّ وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ , قَالَ: فَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ , فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا؟ قَالَ:" هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ , وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صاحبزادی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ ان کے بچہ پر نزع کا عالم طاری ہے آپ ہمارے یہاں تشریف لائیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ بھی اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے لہٰذا تمہیں صبر کرنا چاہئے اور اس پر ثواب کی امید رکھنی چاہئے، انہوں نے دوبارہ قاصد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قسم دے کر بھیجا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم بھی ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔ اس بچے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں لا کر رکھا گیا، اس کی جان نکل رہی تھی لوگوں میں اس وقت حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور غالباً حضرت ابی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1284، م: 923

Previous    67    68    69    70    71    72    73    74    75    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.