حدثنا مكي , حدثنا عبد الله بن سعيد , عن حرب بن قيس , عن ابي الدرداء , قال: جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما على المنبر , فخطب الناس وتلا آية , وإلى جنبي ابي بن كعب , فقلت له: يا ابي , متى انزلت هذه الآية؟ قال: فابى ان يكلمني , ثم سالته , فابى ان يكلمني , حتى نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال لي ابي: ما لك من جمعتك إلا ما لغيت , فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم جئته فاخبرته , فقلت: اي رسول الله , إنك تلوت آية وإلى جنبي ابي بن كعب , فسالته متى انزلت هذه الآية؟ فابى ان يكلمني حتى إذا نزلت زعم ابي , انه ليس لي من جمعتي إلا ما لغيت؟ فقال: " صدق ابي , فإذا سمعت إمامك يتكلم فانصت حتى يفرغ" .حَدَّثَنَا مَكِّيٌّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ حَرْبِ بْنِ قَيْسٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا عَلَى الْمِنْبَرِ , فَخَطَبَ النَّاسَ وَتَلَا آيَةً , وَإِلَى جَنْبِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ , فَقُلْتُ لَهُ: يَا أُبَيُّ , مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ؟ قَالَ: فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي , ثُمَّ سَأَلْتُهُ , فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي , حَتَّى نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَال لِي أُبَيٌّ: مَا لَكَ مِنْ جُمُعَتِكَ إِلَّا مَا لَغَيْتَ , فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِئْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ , فَقُلْتُ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّكَ تَلَوْتَ آيَةً وَإِلَى جَنْبِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ , فَسَأَلْتُهُ مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ؟ فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي حَتَّى إِذَا نَزَلْتَ زَعَمَ أُبَيٌّ , أَنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ جُمُعَتِي إِلَّا مَا لَغَيْتُ؟ فَقَالَ: " صَدَقَ أُبَيٌّ , فَإِذَا سَمِعْتَ إِمَامَكَ يَتَكَلَّمُ فَأَنْصِتْ حَتَّى يَفْرُغَ" .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برسر منبر سورت برأت کی تلاوت فرمائی اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اللہ کے احسانات کا تذکرہ فرما رہے تھے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ان کے ہمراہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ اور ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ کو چٹکی بھری اور کہا کہ ابی! یہ سورت کب نازل ہوئی ہے؟ یہ تو میں ابھی سن رہا ہوں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں اشارے سے خاموش رہنے کا حکم دیا۔
نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے کہا کہ میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی تو آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا آج تو تمہاری نماز صرف اتنی ہی ہوئی ہے جتنا تم نے اس میں یہ لغو کام کیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی یہ بات ذکر کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابی نے سچ کہا۔ جب تم امام کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھو تو خاموش ہوجایا کرو یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، حرب بن قيس لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنے کمزوروں کو تلاش کر کے میرے پاس لایا کرو کیونکہ تمہیں رزق اور فتح ونصرت تمہارے کمزوروں کی برکت سے ملتی ہے۔
حضرت ام درداء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی حدیث سناتے تو مسکرایا کرتے تھے میں نے ان سے ایک مرتبہ کہا کہ کہیں لوگ آپ کو " احمق " نہ کہنے لگیں، انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو نبی کریم کو کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے جب بھی دیکھا یا سنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہوتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بقية بن الوليد ضعيف و مدلس، وقد عنعن، وحبيب بن عمر وأبو عبدالصمد مجهولان
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں میں نے کتاب کے ستونوں کو دیکھا کہ انہیں میرے سر کے نیچے سے اٹھایا گیا، میں سمجھ گیا کہ اسے لیجایا جارہا ہے چنانچہ میری نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں پھر اسے شام پہنچا دیا گیا یاد رکھو! جس زمانے میں فتنے رونما ہوں گے اس وقت ایمان شام میں ہوگا۔
حضرت ام درداء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی حدیث سناتے تو مسکرایا کرتے تھے میں نے ان سے ایک مرتبہ کہا کہ کہیں لوگ آپ کو " احمق " نہ کہنے لگیں، انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو نبی کریم کو کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے جب بھی دیکھا یا سنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہوتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بقية بن الوليد ضعيف و مدلس، وقد عنعن، وحبيب بن عمر وأبو عبدالصمد مجهولان
حدثنا حسن , حدثنا ابن لهيعة , حدثنا زبان , عن سهل بن معاذ , عن ابيه , عن ابي الدرداء , انه اتاه عائدا , فقال ابو الدرداء لابي بعد ان سلم عليه: بالصحة لا بالوجع , ثلاث مرات يقول ذلك ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما يزال المرء المسلم به المليلة والصداع , وإن عليه من الخطايا لاعظم من احد , حتى يتركه , وما عليه من الخطايا مثقال حبة من خردل" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , حَدَّثَنَا زَبَّانُ , عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّهُ أَتَاهُ عَائِدًا , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لِأَبِي بَعْدَ أَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ: بِالصِّحَّةِ لَا بِالْوَجَعِ , ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَقُولُ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا يَزَالُ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بِهِ الْمَلِيلَةُ وَالصُّدَاعُ , وَإِنَّ عَلَيْهِ مِنَ الْخَطَايَا لَأَعْظَمَ مِنْ أُحُدٍ , حَتَّى يَتْرُكَهُ , وَمَا عَلَيْهِ مِنَ الْخَطَايَا مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ" .
حضرت انس جہنی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے تو انہیں دعاء دی کہ اللہ آپ کو ہر مرض سے بچا کر صحت کے ساتھ رکھے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان آدمی سر درد اور دیگر بیماریوں میں مسلسل مبتلا ہوتا رہتا ہے اور اس کے گناہ احد پہاڑ کے برابر ہوتے ہیں لیکن یہ بیماریاں اسے اس وقت چھوڑتی ہیں جب اس پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی گناہ نہیں رہتے۔
حكم دارالسلام: إسناده مسلسل بالضعفاء، ابن لهيعة وزبان وسهل كلهم ضعفاء
حدثنا حسن , حدثنا ابن لهيعة , حدثنا يزيد بن ابي حبيب , عن عبد الرحمن بن جبير , عن ابي الدرداء , قال: قال رسول صلى الله عليه وسلم: " انا اول من يؤذن له بالسجود يوم القيامة , وانا اول من يؤذن له ان يرفع راسه , فانظر إلى بين يدي , فاعرف امتي من بين الامم , ومن خلفي مثل ذلك , وعن يميني مثل ذلك , وعن شمالي مثل ذلك" , فقال له رجل: يا رسول الله , كيف تعرف امتك من بين الامم فيما بين نوح إلى امتك؟ قال:" هم غر محجلون من اثر الوضوء , ليس احد كذلك غيرهم , واعرفهم انهم يؤتون كتبهم بايمانهم , واعرفهم يسعى بين ايديهم ذريتهم" ..حَدَّثَنَا حَسَنٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا أَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لَهُ بِالسُّجُودِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لَهُ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ , فَأَنْظُرَ إِلَى بَيْنِ يَدَيَّ , فَأَعْرِفَ أُمَّتِي مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ , وَمِنْ خَلْفِي مِثْلُ ذَلِكَ , وَعَنْ يَمِينِي مِثْلُ ذَلِكَ , وَعَنْ شِمَالِي مِثْلُ ذَلِكَ" , فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَيْفَ تَعْرِفُ أُمَّتَكَ مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ فِيمَا بَيْنَ نُوحٍ إِلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ:" هُمْ غُرٌّ مُحَجَّلُونَ مِنْ أَثَرِ الْوُضُوءِ , لَيْسَ أَحَدٌ كَذَلِكَ غَيْرَهُمْ , وَأَعْرِفُهُمْ أَنَّهُمْ يُؤْتَوْنَ كُتُبَهُمْ بِأَيْمَانِهِمْ , وَأَعْرِفُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ذُرِّيَّتُهُمْ" ..
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کو سجدہ ریز ہونے کی اجازت ملے گی وہ میں ہوں گا اور مجھے ہی سب سے پہلے سر اٹھانے کی اجازت ملے گی، چنانچہ میں اپنے سامنے دیکھوں گا تو دوسری امتوں میں سے اپنی امت کو پہچان لوں گا اسی طرح پیچھے سے اور دائیں بائیں سے بھی اپنی امت کو پہچان لوں گا ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر آپ تک جتنی امتیں آئی ہیں ان میں سے آپ اپنی امت کو کیسے پہچانیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے لوگوں کی پیشانیاں آثار وضو سے چمک دار اور روشن ہوں گی، یہ کیفیت کسی اور کی نہیں ہوگی اور میں اس طرح بھی انہیں شناخت کرسکوں گا کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اور یہ کہ ان کے نابالغ اولاد ان کے آگے دوڑ رہی ہوگی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره دون قوله: وأعرفهم أنهم يؤتون كتبهم.... ابن لهيعة سيئ الحفظ، لكن رواية ابن المبارك وقتيبة عنه صالحة، ثم هو منقطع، عبدالرحمن لم يسمع ابا الدرادء.