حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن عباد المكي ، حدثنا ابو ضمرة ، عن يونس ، عن الزهري ، عن انس ، قال: كان ابي يحدث، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " فرج سقف بيتي وانا بمكة، فنزل جبريل، ففرج صدري، ثم غسله من ماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب مملوء حكمة وإيمانا، فافرغها في صدري، ثم اطبقه" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كَانَ أُبَيٌّ يُحَدِّثُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ، فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ" .
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس زمانے میں میں مکہ مکرمہ میں تھا ایک دن میرے گھر کی چھت کھل گئی اور وہاں سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نیچے اتر کر آئے انہوں نے میرا سینہ چاک کیا اسے آب زمزم سے دھویا پھر ایک طشتری لے کر آئے جو حکمت و ایمان سے لبریز تھی اور اسے میرے سینے میں انڈیل دیا اور پھر اسے سی دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد قوي، لكن قد اختلف فى صحابيه
حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا میرے پروردگار نے میرا نام لیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے سو تمہیں اس پر خوش ہونا چاہئے حضرت ابی رضی اللہ عنہ قرآن کریم کی اس آیت " فبذلک فلتفرحوا " کو " فلتفرحوا " پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أجلح بن عبدالله، لكنه توبع
حدثنا مؤمل ، حدثنا سفيان ، حدثنا اسلم المنقري ، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابزي ، عن ابيه ، عن ابي بن كعب ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ابي، امرت ان اقرا عليك سورة كذا وكذا"، قال: قلت: يا رسول الله، وقد ذكرت هناك؟! قال:" نعم"، فقلت له: يا ابا المنذر، ففرحت بذلك؟ قال: وما يمنعني والله، يقول: 0 قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فلتفرحوا هو خير مما تجمعون 0، قال مؤمل، قلت لسفيان: هذه القراءة في الحديث؟ قال: نعم .حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَسْلَمُ الْمِنْقَرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أُبَيُّ، أُمِرْتُ أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ سُورَةَ كَذَا وَكَذَا"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَدْ ذُكِرْتُ هُنَاكَ؟! قَالَ:" نَعَمْ"، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، فَفَرِحْتَ بِذَلِكَ؟ قَالَ: وَمَا يَمْنَعُنِي وَاللَّهُ، يَقُولُ: 0 قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْتَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا تَجْمَعُونَ 0، قَالَ مُؤَمَّلٌ، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: هَذِهِ الْقِرَاءَةُ فِي الْحَدِيثِ؟ قَالَ: نَعَمْ .
حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا میرے پروردگار نے میرا نام لیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے سو تمہیں اس پر خوش ہونا چاہئے حضرت ابی رضی اللہ عنہ قرآن کریم کی اس آیت " فبذلک فلتفرحوا " کو " فلتفرحوا " پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف مؤمل ابن إسماعيل، لكنه توبع
حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہوا کو برا بھلا مت کہا کرو اور جب تمہیں اس میں کوئی ایسی چیز دکھائی دے جو تمہاری طبیعت کو ناگوار محسوس ہو تو یوں کہہ لیا کرو اے اللہ ہم تجھ سے اس ہوا اور اس میں موجود چیزوں کی اور جو پیغام دے کر اسے بھیجا گیا ہے اس کی خیر کا سوال کرتے ہیں اور اس ہوا اور اس میں موجود چیزوں اور جو پیغام دے کر اسے بھیجا گیا ہے، اس کے شر سے پناہ مانگتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، حبيب بن أبى ثابت لم يسمعه من سعيد بن عبدالرحمن، وقد اختلف فى رفع هذا الحديث ووقفه، ولعل الصواب وقفه
حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہوا کو برا بھلا مت کہا کرو البتہ اللہ سے اس ہوا اور اس میں موجود چیزوں کی اور جو پیغام دے کر اسے بھیجا گیا ہے اس کی خیر کا سوال کیا کرو اور اس ہوا اور اس میں موجود چیزوں اور جو پیغام دے کر اسے بھیجا گیا ہے، اس کے شر سے پناہ مانگا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل محمد بن يزيد، لكنه توبع
حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی تو دوران تلاوت ایک آیت چھوڑ دی، حضرت ابی اس وقت آئے تھے جب نماز کا کچھ حصہ گذر چکا تھا، نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے، یا آپ بھول گئے تھے،؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ میں بھول گیا تھا۔
حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سبح اسم ربک الاعلی اور قل یا ایہا الکافرون اور قل ہو اللہ احد کی تلاوت فرماتے تھے۔
حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سبح اسم ربک الاعلی اور قل یا ایہا الکافرون اور قل ہو اللہ احد کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیر کر تین مرتبہ سبحان الملک القدوس کہتے تھے۔