حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت " ان سألتک عن شیء بعدہا فلاتصاحبنی قدبلغت۔۔۔۔۔۔۔ میں لفظ " بلغت " کو مشدد یعنی " بلّغت " بھی پڑھا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت " ان سألتک عن شیء بعدہا فلاتصاحبنی قدبلغت۔۔۔۔۔۔۔ میں لفظ " بلغت " کو مشدد یعنی " بلّغت " بھی پڑھا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، فيه أبو الجارية ، وهو مجهول، لكنه توبع
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی مار کر زمزم کا کنواں جاری کیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کنکریاں اکٹھی کر کے منڈیر بنانے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت حاجرہ (علیہا السلام) جو کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ تھیں " پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اگر وہ اسے یونہی چھوڑ دیتیں تو وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا حمزة بن حبيب الزيات ، عن ابي إسحاق ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن ابي بن كعب ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دعا لاحد بدا بنفسه، فذكر ذات يوم موسى، فقال: " رحمة الله علينا وعلى موسى، لو كان صبر لقص الله تعالى علينا من خبره، ولكن قال: إن سالتك عن شيء بعدها فلا تصاحبني، قد بلغت من لدني عذرا" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ حَبِيبٍ الزَّيَّاتُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَعَا لِأَحَدٍ بَدَأَ بِنَفْسِهِ، فَذَكَرَ ذَاتَ يَوْمٍ مُوسَى، فَقَالَ: " رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى مُوسَى، لَوْ كَانَ صَبَرَ لَقَصَّ اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِ، وَلَكِنْ قَالَ: إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي، قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا" ..
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لئے دعاء فرماتے تو اس کا آغاز اپنی ذات سے کرتے تھے چنانچہ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہم پر اور موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اگر وہ صبر کرلیتے تو اللہ تعالیٰ ان کے واقعے کی دیگر تفصیلات بھی بیان فرما دیتا لیکن انہوں نے تو یہ کہہ دیا کہ اگر میں نے اس کے بعد آپ سے کوئی سوال پوچھا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے ہیں۔ "
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد باری تعالیٰ " وذکرہم بایام اللہ " کی تفسیر میں فرمایا کہ " ایام اللہ " سے مراد اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يحيى بن عبدالله ومحمد بن أبان، لكنهما توبعا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی نبی کا ذکر فرماتے تو اس کا آغاز اپنی ذات سے کرتے تھے چنانچہ ایک دن فرمایا ہم پر اور ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل قيس، لكنه توبع
حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن عباد المكي ، حدثنا عبد الله بن ميمون القداح ، حدثنا جعفر بن محمد الصادق ، عن ابن شهاب ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن ابن عباس ، قال: ماراني رجل من بني فزارة في الرجل الذي اتبعه موسى، فقلت: هو الخضر، وقال الفزاري هو رجل آخر، فمر بنا ابي بن كعب ، قال ابن عباس فدعوته، فسالته سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر الذي تبعه موسى؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " بينما موسى جالس في ملإ من بني إسرائيل، فقال له رجل: هل احد اعلم بالله منك؟ قال: ما ارى، فاوحى الله إليه بلى، عبدي الخضر، فسال السبيل إليه، فجعل الله له الحوت آية إن افتقده، وكان من شانه ما قص الله" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَيْمُونٍ الْقَدَّاحُ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّادِقُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: مَارَانِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ فِي الرَّجُلِ الَّذِي اتَّبَعَهُ مُوسَى، فَقُلْتُ: هُوَ الْخَضِرُ، وَقَالَ الْفَزَارِيُّ هُوَ رَجُلٌ آخَرُ، فَمَرَّ بِنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَدَعَوْتُهُ، فَسَأَلْتُهُ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الَّذِي تَبِعَهُ مُوسَى؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " بَيْنَمَا مُوسَى جَالِسٌ فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: هَلْ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِاللَّهِ مِنْكَ؟ قَالَ: مَا أَرَى، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ بَلَى، عَبْدِي الْخَضِرُ، فَسَأَلَ السَّبِيلَ إِلَيْهِ، فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً إِنْ افْتَقَدَهُ، وَكَانَ مِنْ شَأْنِهِ مَا قَصَّ اللَّهُ" .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کا اور حر بن قیس فزاری کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس رفیق کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا جس طرف سفر کر کے جانے کی بارگاہ الہٰی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی تھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے اسی دوران وہاں سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما انہیں پکار کر کہا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا اس بات میں اختلاف ہوگیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ ساتھی کون تھا جس کی طرف سفر کر کے ملنے کی درخواست انہوں نے کی تھی؟ کیا آپ نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے کسی اجتماع سے خطاب فرما رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر ان سے پوچھا کہ آپ کے عمل میں اپنے سے بڑا کوئی عالم بھی ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی آئی کہ ہمارا ایک بندہ خضر تم سے بڑا عالم ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کا طریقہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان کے لئے نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو واپس آجانا کیونکہ وہیں پر تمہاری ان سے ملاقات ہوجائے گی حضرت موسیٰ علیہ السلام سفر پر روانہ ہوئے تو ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور اپنے خادم سے کہنے لگے ہمارا ناشتہ لاؤ اس سفر میں تو ہمیں بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی کو غائب پایا تو دونوں اپنے نشانات قدم پر چلتے ہوئے واپس لوٹے اور پھر وہ قصہ پیش آیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبدالله بن ميمون متروك، لكن الحديث صحيح
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن حميد ، عن انس ، عن ابي بن كعب ، قال: ما حك في صدري شيء منذ اسلمت، إلا اني قرات آية، وقراها رجل غير قراءتي، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قلت: اقراتني آية كذا وكذا؟ قال:" نعم"، قال: فقال الآخر: الم تقرئني آية كذا وكذا؟ قال:" نعم، اتاني جبريل وميكائيل، فقعد جبريل عن يميني، وميكائيل عن يساري، فقال جبريل: اقرا القرآن على حرف، فقال ميكائيل: استزده، حتى بلغ سبعة احرف، كلها شاف كاف" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: مَا حَكَّ فِي صَدْرِي شَيْءٌ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، إِلَّا أَنِّي قَرَأْتُ آيَةً، وَقَرَأَهَا رَجُلٌ غَيْرَ قِرَاءَتِي، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: أَقْرَأْتَنِي آيَةَ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَقَالَ الْآخَرُ: أَلَمْ تُقْرِئْنِي آيَةَ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، أَتَانِي جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، فَقَعْدَ جِبْرِيِلُ عَنْ يَمِينِي، وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِي، فَقَالَ جِبْرِيلُ: اقْرَأْ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، فَقَالَ مِيكَائِيلُ: اسْتَزِدْهُ، حَتَّى بَلَغَ سَبْعَةَ أَحْرُفٍ، كُلُّهَا شَافٍ كَافٍ" ..
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک آیت پڑھائی اور دوسرے آدمی کو وہی آیت دوسری طرح پڑھائی، میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں یہ آیت کس نے پڑھائی ہے؟ اس نے کہ مجھے یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے میں نے قسم کھا کر کہا کہ مجھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت اس طرح پڑھائی ہے اور اس دن اسلام کے حوالے سے جو وسوسے میرے ذہن میں آئے کبھی ایسے وسوسے نہیں آئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے فلاں آیت مجھے اس اس طرح نہیں پڑھائی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں میں نے عرض کیا کہ یہ شخص دعوی کرتا ہے آپ نے اسے یہی آیت دوسری طرح پڑھائی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا جس سے وہ تمام وساوس دور ہوگئے اور اس کے بعد کبھی مجھے ایسے وسوسے نہ آئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام آئے تھے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ قرآن کریم کو ایک حرف پر پڑھئے حضرت میکائیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ ان سے اضافے کی درخواست کیجئے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اسے دو حرفوں پر پڑھئے حضرت میکائیل علیہ السلام نے پھر کہا کہ ان سے اضافے کی درخواست کیجئے یہاں تک کہ سات حروف تک پہنچ گئے اور فرمایا ان میں سے ہر ایک کافی شافی ہے۔