حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، عن علي بن زيد ، عن ابي معروف ، ان ابا ذر حدثهم، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لو ان عبدي استقبلني بقراب الارض خطايا، استقبلته بقرابها مغفرة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْرُوفٍ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَدَّثَهُمْ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْ أَنَّ عَبْدِي اسْتَقْبَلَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا، اسْتَقْبَلْتُهُ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اگر میرا بندہ زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ میرے سامنے آئے تو میں زمین بھر کر بخشش کے ساتھ اس کے سامنے آؤں گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2687، وهذا إسناد ضعيف، على بن زيد ضعيف، وأبو معروف مجهول
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: اخبرني عمرو بن مرة ، عن سويد بن الحارث ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ما يسرني ان لي احدا ذهبا، اموت يوم اموت وعندي منه دينار او نصف دينار، إلا ان ارصده لغريم" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي أُحُدًا ذَهَبًا، أَمُوتُ يَوْمَ أَمُوتُ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ أَوْ نِصْفُ دِينَارٍ، إِلَّا أَنْ أَرْصُدَهُ لِغَرِيمٍ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے لئے احد پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے اور جس دن میں دنیا سے رخصت ہو کر جاؤں تو اس میں سے ایک یا آدھا دینار بھی میرے پاس بچ گیا ہو الاّ یہ کہ میں اسے کسی قرض خواہ کے لئے رکھ لوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، سعيد بن الحارث خطأ، صوابه سويد بن الحارث، وسويد هذا مجهول
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، اخبرني حميد بن هلال ، سمع عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يقطع صلاة الرجل، إذا لم يكن بين يديه كآخرة الرحل المراة والحمار والكلب الاسود"، قلت: ما بال الاسود من الاحمر؟ قال: ابن اخي، سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" الكلب الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَآخِرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ"، قُلْتُ: مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَحْمَرِ؟ قَالَ: ابْنَ أَخِي، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلا حصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بوذر! نماز کو اس کے وقت مقررہ پر ادا کرنا اگر تم اس وقت آؤ جب لوگ نماز پڑھ چکے ہوں تو تم اپنی نماز محفوظ کرچکے ہوگے اور اگر انہوں نے نماز نہ پڑھی ہو تو تم ان کے ساتھ شریک ہوجانا اور یہ نماز تمہارے لئے نفل ہوجائے گی۔
حدثنا مرحوم ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم حمارا واردفني خلفه، وقال:" يا ابا ذر، ارايت إن اصاب الناس جوع شديد لا تستطيع ان تقوم من فراشك إلى مسجدك، كيف تصنع؟" قال الله ورسوله اعلم، قال:" تعفف"، قال:" يا ابا ذر، ارايت إن اصاب الناس موت شديد يكون البيت فيه بالعبد يعني القبر كيف تصنع؟" قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" اصبر"، قال:" يا ابا ذر، ارايت إن قتل الناس بعضهم بعضا يعني حتى تغرق حجارة الزيت من الدماء، كيف تصنع؟" قال: الله ورسوله اعلم، قال:" اقعد في بيتك، واغلق عليك بابك"، قال: فإن لم اترك؟ قال:" فات من انت منهم، فكن فيهم"، قال: فآخذ سلاحي؟ قال:" إذا تشاركهم فيما هم فيه، ولكن إن خشيت ان يروعك شعاع السيف، فالق طرف ردائك على وجهك حتى يبوء بإثمه وإثمك" .حَدَّثَنَا مَرْحُومٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارًا وَأَرْدَفَنِي خَلْفَهُ، وَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرَأَيْتَ إِنْ أَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ شَدِيدٌ لَا تَسْتَطِيعُ أَنْ تَقُومَ مِنْ فِرَاشِكَ إِلَى مَسْجِدِكَ، كَيْفَ تَصْنَعُ؟" قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" تَعَفَّفْ"، قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرَأَيْتَ إِنْ أَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ شَدِيدٌ يَكُونُ الْبَيْتُ فِيهِ بِالْعَبْدِ يَعْنِي الْقَبْرَ كَيْفَ تَصْنَعُ؟" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" اصْبِرْ"، قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَتَلَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا يَعْنِي حَتَّى تَغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ مِنَ الدِّمَاءِ، كَيْفَ تَصْنَعُ؟" قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" اقْعُدْ فِي بَيْتِكَ، وَأَغْلِقْ عَلَيْكَ بَابَكَ"، قَالَ: فَإِنْ لَمْ أُتْرَكْ؟ قَالَ:" فَأْتِ مَنْ أَنْتَ مِنْهُمْ، فَكُنْ فِيهِمْ"، قَالَ: فَآخُذُ سِلَاحِي؟ قَالَ:" إِذًا تُشَارِكَهُمْ فِيمَا هُمْ فِيهِ، وَلَكِنْ إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَرُوعَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ، فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ حَتَّى يَبُوءَ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے اور مجھے اپنا ردیف بنالیا اور فرمایا ابوذر! یہ بتاؤ کہ جب لوگ شدید قحط میں مبتلا ہوجائیں گے اور تم اپنے بستر سے اٹھ کر مسجد تک نہیں جاسکو گے تو اس وقت تم کیا کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت بھی اپنے آپ کو سوال کرنے سے بچانا پھر فرمایا ابوذر! یہ بتاؤ کہ جب لوگ شدت کے ساتھ بکثرت مرنے لگیں گے اور آدمی کا گھر قبر ہی ہوگی تو تم کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت بھی صبر کرنا، پھر فرمایا ابوذر! یہ بتاؤ کہ جب لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے اور حجارۃ الزیت " خون میں ڈوب جائے گا تو تم کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا اپنے گھر میں بیٹھ جانا اور اس کا دروازہ اندر سے بند کرلینا۔
انہوں نے پوچھا کہ اگر مجھے گھر میں رہنے ہی نہ دیا جائے تو کیا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم ان لوگوں کے پاس چلے جانا جن میں سے تم ہو اور ان میں شامل ہوجانا انہوں نے عرض کیا میں تو اپنا اسلحہ پکڑ لوں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم بھی ان کے شریک سمجھے جاؤ گے اس لئے اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تلوار کی دھار سے تمہیں خطرہ ہے تو تم اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لینا تاکہ وہ اپنا اور تمہارا گناہ لے کر لوٹ جائے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا اے ابوذر! جب کھانا پکایا کرو توشوربہ بڑھا لیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔
حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، ما آنية الحوض؟ قال: " والذي نفسي بيده، لآنيته اكثر من عدد نجوم السماء وكواكبها في الليلة المظلمة المصحية، آنية الجنة من شرب منها لم يظما آخر ما عليه، يشخب فيه ميزابان من الجنة، من شرب منه لم يظما، عرضه مثل طوله، ما بين عمان إلى ايلة، ماؤه اشد بياضا من اللبن، واحلى من العسل" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا آنِيَةُ الْحَوْضِ؟ قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَآنِيَتُهُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ وَكَوَاكِبِهَا فِي اللَّيْلَةِ الْمُظْلِمَةِ الْمُصْحِيَةِ، آنِيَةُ الْجَنَّةِ مَنْ شَرِبَ مِنْهَا لَمْ يَظْمَأْ آخِرَ مَا عَلَيْهِ، يَشْخَبُ فِيهِ مِيزَابَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ، عَرْضُهُ مِثْلُ طُولِهِ، مَا بَيْنَ عَمَّانَ إِلَى أَيْلَةَ، مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ حوض کوثر پر کتنے برتن ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تاریک رات میں آسمان کے نجوم و کواکب کی تعداد سے بھی زیادہ اس کے برتن ہوں گے وہ جنت کے برتن ہوں گے جو شخص اس حوض کا پانی ایک مرتبہ پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اس پر جنت کے دو پرنالے بہہ رہے ہوں گے جو اس کا پانی پی لے گا اسے دوبارہ کبھی پیاس نہ لگے گی۔ اس کی چوڑائی بھی لمبائی کے برابر ہوگی اور اس کی مسافت اتنی ہوگی جتنی عمان سے ایلہ تک ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہوگا۔
حدثنا محمد بن فضيل ، حدثني فليت العامري ، عن جسرة العامرية ، عن ابي ذر ، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فقرا بآية حتى اصبح، يركع بها ويسجد بها إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك انت العزيز الحكيم سورة المائدة آية 118، فلما اصبح، قلت يا رسول الله، ما زلت تقرا هذه الآية حتى اصبحت تركع بها وتسجد بها! قال: " إني سالت ربي الشفاعة لامتي فاعطانيها، وهي نائلة إن شاء الله، لمن لا يشرك بالله شيئا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنِي فُلَيْتٌ الْعَامِرِيُّ ، عَنْ جَسْرَةَ الْعَامِرِيَّةِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَقَرَأَ بِآيَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ، يَرْكَعُ بِهَا وَيَسْجُدُ بِهَا إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا زِلْتَ تَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى أَصْبَحْتَ تَرْكَعُ بِهَا وَتَسْجُدُ بِهَا! قَالَ: " إِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي الشَّفَاعَةَ لِأُمَّتِي فَأَعْطَانِيهَا، وَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، لِمَنْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی اور ساری رات صبح تک ایک ہی آیت رکوع و سجود میں پڑھتے رہے کہ اے اللہ " اگر تو انہیں عذاب میں مبتلا کر دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو تو بڑا غالب حکمت والا ہے " جب صبح ہوئی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صبح تک ساری رات رکوع و سجود میں مسلسل ایک ہی آیت پڑھتے رہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لئے سفارش کا حق مانگا تھا جو اس نے مجھے عطاء کردیا ہے اور ان شاء اللہ یہ ہر اس شخص کو نصیب ہوگی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔
حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا سالم يعني ابن ابي حفصة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن ابي ذر . ومنصور ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، اي جبل هذا؟" قلت: احد يا رسول الله، قال: " والذي نفسي بيده، ما يسرني انه لي ذهبا قطعا انفقه في سبيل الله، ادع منه قيراطا"، قال: قلت: قنطارا يا رسول الله؟ قال:" قيراطا" قالها: ثلاث مرات، ثم قال:" يا ابا ذر، إنما اقول الذي اقل، ولا اقول الذي هو اكثر" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَفْصَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ . ومَنْصُورٍ ، عَنْ زَيْد بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَيُّ جَبَلٍ هَذَا؟" قُلْتُ: أُحُدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا يَسُرُّنِي أَنَّهُ لِي ذَهَبًا قِطَعًا أُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَدَعُ مِنْهُ قِيرَاطًا"، قَالَ: قُلْتُ: قِنْطَارًا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" قِيرَاطًا" قَالَهَا: ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّمَا أَقُولُ الَّذِي أَقَلُّ، وَلَا أَقُولُ الَّذِي هُوَ أَكْثَرُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل احد کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پوچھا ابو ذر! یہ کون سا پہاڑ ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ احد پہاڑ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ یہ میرے لئے سونے کا بن جائے جس میں سے میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہوں اور ایک قیراط بھی چھوڑ دوں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قنطار؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا ایک قیراط پھر فرمایا ابوذر! میں تو کم از کم کی بات کر رہا ہوں، زیادہ کی بات ہی نہیں کر رہا۔
حكم دارالسلام: هذا الحديث له اسنادان، اما الاول فضعيف لضعف سالم بن ابي حفصة، وسالم بن ابي الجعد حديثه منقطع عن ابي ذر. واما اسناده الثاني فصحيح
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن ابي الاحوص ، عن ابي ذر يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم " إذا قام احدكم إلى الصلاة، فإن الرحمة تواجهه، فلا يمسح الحصى" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِهُهُ، فَلَا يَمْسَحْ الْحَصَى" .
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الہٰیہ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے لہٰذا اسے کنکریوں سے نہیں کھیلنا چاہئے۔