حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام " ریان " ہے قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ ریان کی طرف آؤ جب ان کا آخری آدمی بھی اندر داخل ہوچکے گا تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے کو ناپسند اور معیوب قرار دیا ہے (مکمل تفصیل کے لئے حدیث نمبر ٢٣٢١٨ دیکھئے)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ! نے ارشاد فرمایا اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام کے لئے نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں کسی شخص کے کوڑے کی جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو نماز میں کسی غلطی کا احساس ہو تو اسے " سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ تالی بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنا مردوں کے لئے۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک وہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔
حدثنا بهز ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، اخبرنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتى بني عمرو بن عوف في لحاء اي خصام كان بينهم، ليصلح بينهم، فحانت الصلاة، فقال بلال لابي بكر: اقيم وتصلي بالناس؟ فقال ابو بكر: نعم , فاقام بلال، وتقدم ابو بكر ليصلي بالناس، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرق الصفوف، فصفح القوم، وكان ابو بكر لا يكاد يلتفت في الصلاة، فلما اكثروا التفت ابو بكر، فإذا هو برسول الله صلى الله عليه وسلم يخرق الصفوف، فتاخر ابو بكر واوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان مكانك، فتاخر ابو بكر، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بهم، فلما قضى صلاته، قال:" يا ابا بكر، ما بالك إذ اومات إليك لم تقم؟" قال: ما كان لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما لكم إذا نابكم امر صفحتم، سبحوا، فإن التصفيح للنساء" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فِي لِحَاءٍ أَيْ خِصَامٍ كَانَ بَيْنَهُمْ، لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَانَتْ الصَّلَاةُ، فَقَالَ بِلَالٌ لِأَبِي بَكْرٍ: أُقِيمُ وَتُصَلِّي بِالنَّاسِ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: نَعَمْ , فَأَقَامَ بِلَالٌ، وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ لِيُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرِقُ الصُّفُوفَ، فَصَفَّحَ الْقَوْمُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَكَادُ يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا الْتَفَتَ أَبُو بَكْرٍ، فَإِذَا هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرِقُ الصُّفُوفَ، فَتَأَخَّرَ أَبُو بَكْرٍ وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَكَانَكَ، فَتَأَخَّرَ أَبُو بَكْرٍ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا بَالُكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ لَمْ تَقُمْ؟" قَالَ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا لَكُمْ إِذَا نَابَكُمْ أَمْرٌ صَفَّحْتُمْ، سَبِّحُوا، فَإِنَّ التَّصْفِيحَ لِلنِّسَاءِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابوبکر! نماز کا وقت ہوچکا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں موجود نہیں ہیں کیا میں اذان دے کر اقامت کہوں تو آپ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دیں گے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہاری مرضی چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان و اقامت کہی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز شروع کردی۔ اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے لوگ تالیاں بجانے لگے جسے محسوس کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ رہو لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تمہیں اپنی جگہ ٹھہرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ کی یہ جرأت کہاں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا تم لوگوں نے تالیاں کیوں بجائیں؟ انہوں نے عرض کیا تاکہ ابوبکر کو مطلع کرسکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تالیاں بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنے کا حکم مردوں کے لئے۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال:" كان الناس يؤمرون ان يضعوا اليمنى على اليسرى في الصلاة" , قال ابو حازم: ولا اعلم إلا ينمي ذلك , قال ابو عبد الرحمن:" ينمي": يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ:" كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعُوا الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ" , قَالَ أَبُو حَازِمٍ: وَلَا أَعْلَمُ إِلَّا يُنْمِي ذَلِكَ , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:" يُنْمِي": يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دوران نماز لوگوں کو داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا حکم دیا جاتا تھا۔
قرات على عبد الرحمن : مالك ، وحدثنا إسحاق ، اخبرنا مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد , ان النبي صلى الله عليه وسلم جاءته امراة، فقالت: يا رسول الله، إني قد وهبت نفسي لك فقامت قياما طويلا، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، زوجنيها إن لم يكن لك بها حاجة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هل عندك من شيء تصدقها إياه؟" فقال: ما عندي إلا إزاري هذا , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن اعطيتها إزارك جلست لا إزار لك، فالتمس شيئا" , فقال: ما اجد شيئا , فقال: التمس ولو خاتما من حديد , فالتمس فلم يجد شيئا، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" هل معك من القرآن شيء؟" قال: نعم، سورة كذا، وسورة كذا لسور يسميها، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" قد زوجتكها بما معك من القرآن" .قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٍ ، وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ فَقَامَتْ قِيَامًا طَوِيلًا، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ تُصْدِقُهَا إِيَّاهُ؟" فَقَالَ: مَا عِنْدِي إِلَّا إِزَارِي هَذَا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ أَعْطَيْتَهَا إِزَارَكَ جَلَسْتَ لَا إِزَارَ لَكَ، فَالْتَمِسْ شَيْئًا" , فَقَالَ: مَا أَجِدُ شَيْئًا , فَقَالَ: الْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ , فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ؟" قَالَ: نَعَمْ، سُورَةُ كَذَا، وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ يُسَمِّيهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں لوگوں کے ساتھ تھا کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کردیا ہے اب جو آپ کی رائے ہو (وہ کافی دیر تک کھڑی رہی) پھر ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ! (اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو) مجھ سے ہی اس کا نکاح کرا دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ تین مرتبہ وہ عورت کھڑی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس اسے مہر میں دینے کے لئے کچھ ہے؟ اس نے کہا کچھ نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور کچھ تلاش کر کے لاؤ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ملے تو وہی لے آؤ وہ کہنے لگا کہ مجھے تو لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں قرآن بھی کچھ آتا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! فلاں فلاں سورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اس عورت کے ساتھ تمہارا نکاح قرآن کریم کی ان سورتوں کی وجہ سے کردیا۔
قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن ابن شهاب , وحدثنا إسحاق بن عيسى ، اخبرني مالك ، عن ابن شهاب ، ان سهل بن سعد اخبره: ان عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الانصاري، فقال: يا عاصم، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله فتقتلونه، ام كيف يفعل؟ سل لي عن ذلك يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم فسال عاصم النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، " فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، حتى كبر على عاصم مما يسمع، قال إسحاق: ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى اهله، جاءه عويمر، فقال: يا عاصم، ماذا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عاصم لعويمر لم تاتني بخير، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسالة التي سالته عنها , فقال عويمر: والله لا انتهي حتى اساله عنها , فاقبل عويمر حتى اتى النبي صلى الله عليه وسلم وسط الناس، فقال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله فتقتلونه، ام كيف يفعل؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد انزل الله فيك وفي صاحبتك، فاذهب فات بها" , قال سهل ابن سعد: فتلاعنا وانا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما فرغا، قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها , فطلقها ثلاثا قبل ان يامره رسول الله صلى الله عليه وسلم" ..قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ سَلْ لِي عَنْ ذَلِكَ يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ عَاصِمٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، " فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مِمَّا يَسْمَعُ، قَالَ إِسْحَاقُ: مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ، جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ لِعُوَيْمِرٍ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا , فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا , فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا" , قَالَ سَهْلُ ابْنُ سَعْدٍ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا , فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ..
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھئے کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی اور آدمی کو پائے اور اسے قتل کر دے تو کیا بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو اچھا نہیں سمجھا۔ پھر عویمر رضی اللہ عنہ کی عاصم رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو عویمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا بنا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا بننا کیا تھا؟ تم نے مجھے اچھا کام نہیں بتایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو ہی اچھا نہیں سمجھا عویمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ بخدا! میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور ان سے یہ سوال پوچھ کر رہوں گا چنانچہ وہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلے میں وحی نازل ہوچکی تھی اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میاں بیوی کو بلا کر ان کے درمیان لعان کرا دیا پھر عویمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! اگر میں اسے اپنے ساتھ لے گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس پر ظلم کیا ہے چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو جدا کردیا (طلاق دے دی) اور یہ چیز لعان کرنے والوں کے درمیان رائج ہوگی۔