حدثنا يحيى بن سعيد ، عن التيمي ، عن ابي عثمان ، عن ابي بن كعب ، قال: كان رجل بالمدينة، لا اعلم رجلا كان ابعد منه منزلا، او قال: دارا من المسجد منه، فقيل له: لو اشتريت حمارا فركبته في الرمضاء والظلمات، فقال: ما يسرني ان داري او قال: منزلي إلى جنب المسجد، فنمي الحديث إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما اردت بقولك ما يسرني ان منزلي او قال داري، إلى جنب المسجد؟" قال: اردت ان يكتب إقبالي إذا اقبلت إلى المسجد، ورجوعي إذا رجعت إلى اهلي، قال:" اعطاك الله تعالى ذلك كله" او" انطاك الله ما احتسبت اجمع" او" انطاك الله ذلك كله ما احتسبت اجمع" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ بِالْمَدِينَةِ، لَا أَعْلَمُ رَجُلًا كَانَ أَبْعَدَ مِنْهُ مَنْزِلًا، أَوْ قَالَ: دَارًا مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْهُ، فَقِيلَ لَهُ: لَوْ اشْتَرَيْتَ حِمَارًا فَرَكِبْتَهُ فِي الرَّمْضَاءِ وَالظُّلُمَاتِ، فَقَالَ: مَا يَسُرُّنِي أَنَّ دَارِي أَوْ قَالَ: مَنْزِلِي إِلَى جَنْبِ الْمَسْجِدِ، فَنُمِيَ الْحَدِيثُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَا أَرَدْتَ بِقَوْلِكَ مَا يَسُرُّنِي أَنَّ مَنْزِلِي أَوْ قَالَ دَارِي، إِلَى جَنْبِ الْمَسْجِدِ؟" قَالَ: أَرَدْتُ أَنْ يُكْتَبَ إِقْبَالِي إِذَا أَقْبَلْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَرُجُوعِي إِذَا رَجَعْتُ إِلَى أَهْلِي، قَالَ:" أَعْطَاكَ اللَّهُ تَعَالَى ذَلِكَ كُلَّهُ" أَوْ" أَنْطَاكَ اللَّهُ مَا احْتَسَبْتَ أَجْمَعَ" أَوْ" أَنْطَاكَ اللَّهُ ذَلِكَ كُلَّهُ مَا احْتَسَبْتَ أَجْمَعَ" .
حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک آدمی کا گھر مسجد نبوی سے دور تھا میرے خیال میں اس سے زیادہ دور کسی کا گھر نہیں تھا کسی نے اس سے کہا کہ اگر تم کوئی گدھا وغیرہ لے لیتے تو اچھا ہوتا اس نے کہا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا ہو میں نے اس کے منہ سے اس سے زیادہ کوئی کراہت آمیز جملہ نہیں سنا تھا لیکن پھر پتہ چلا کہ اس کی مراد مسجد کی طرف دور سے چل کر آنے کا ثواب حاصل کرنا ہے چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے ہر قدم کے بدلے ایک درجہ ملے گا اور تمہیں وہی ملے گا جس کی تم نے نیت کی ہو۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم ، قال: سمعت ابا عثمان يحدث، عن ابي بن كعب ، قال: كان رجل ياتي الصلاة، فقيل له: لو اتخذت حمارا يقيك الرمضاء والشوك والوقع! قال شعبة: وذكر رابعة، قال: محلوفة، ما احب ان طنبي بطنب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " لك ما نويت" او قال:" لك اجر ما نويت"، شعبة يقول ذلك .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ يَأْتِي الصَّلَاةَ، فَقِيلَ لَهُ: لَوْ اتَّخَذْتَ حِمَارًا يَقِيكَ الرَّمْضَاءَ وَالشَّوْكَ وَالْوَقْعَ! قَالَ شُعْبَةُ: وَذَكَرَ رَابِعَةً، قَالَ: مَحْلُوفَةً، مَا أُحِبُّ أَنَّ طُنُبِي بِطُنُبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَكَ مَا نَوَيْتَ" أَوْ قَالَ:" لَكَ أَجْرُ مَا نَوَيْتَ"، شُعْبَةُ يَقُولُ ذَلِكَ .
حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک آدمی کا گھر مسجد نبوی سے دور تھا میرے خیال میں اس سے زیادہ دور کسی کا گھر نہیں تھا کسی نے اس سے کہا کہ اگر تم کوئی گدھا وغیرہ لے لیتے تو اچھا ہوتا اس نے کہا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا ہو میں نے اس کے منہ سے اس سے زیادہ کوئی کراہت آمیز جملہ نہیں سنا تھا لیکن پھر پتہ چلا کہ اس کی مراد مسجد کی طرف دور سے چل کر آنے کا ثواب حاصل کرنا ہے چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے ہر قدم کے بدلے ایک درجہ ملے گا اور تمہیں وہی ملے گا جس کی تم نے نیت کی ہو۔
حدثنا عبد الله، حدثنا عبيد الله بن معاذ بن العنبري ، حدثنا المعتمر ، قال: قال ابي : حدثنا ابو عثمان ، عن ابي بن كعب ، قال: كان رجل ما اعلم من الناس من إنسان من اهل المدينة ممن يصلي القبلة ابعد بيتا من المسجد منه، قال: فكان يحضر الصلوات كلهن مع النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت له: لو اشتريت حمارا تركبه في الرمضاء والظلماء! قال: والله ما احب ان بيتي يلزق بمسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاخبرت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله عن ذلك، فقال: يا نبي الله، لكيما يكتب اثري، ورجوعي إلى اهلي، وإقبالي إليه، او كما قال، قال: " انطاك الله ذلك كله"، او" اعطاك ما احتسبت اجمع"، او كما قال .حَدَّثَنَا عَبْد الله، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذِ بْنِ الْعَنْبَرِيِّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، قَالَ: قَالَ أَبِي : حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مَا أَعْلَمُ مِنَ النَّاسِ مِنْ إِنْسَانٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِمَّنْ يُصَلِّي الْقِبْلَةَ أَبْعَدَ بَيْتًا مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْهُ، قَالَ: فَكَانَ يَحْضُرُ الصَّلَوَاتِ كُلَّهُنَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: لَوْ اشْتَرَيْتَ حِمَارًا تَرْكَبُهُ فِي الرَّمْضَاءِ وَالظَّلْمَاءِ! قَالَ: وَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ بَيْتِي يَلْزَقُ بِمَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لِكَيْمَا يُكْتَبَ أَثَرِي، وَرُجُوعِي إِلَى أَهْلِي، وَإِقْبَالِي إِلَيْهِ، أَوْ كَمَا قَالَ، قَالَ: " أَنْطَاكَ اللَّهُ ذَلِكَ كُلَّهُ"، أَوْ" أَعْطَاكَ مَا احْتَسَبْتَ أَجْمَعَ"، أَوْ كَمَا قَالَ .
حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک آدمی کا گھر مسجد نبوی سے دور تھا میرے خیال میں اس سے زیادہ دور کسی کا گھر نہیں تھا کسی نے اس سے کہا کہ اگر تم کوئی گدھا وغیرہ لے لیتے تو اچھا ہوتا اس نے کہا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا ہو میں نے اس کے منہ سے اس سے زیادہ کوئی کراہت آمیز جملہ نہیں سنا تھا لیکن پھر پتہ چلا کہ اس کی مراد مسجد کی طرف دور سے چل کر آنے کا ثواب حاصل کرنا ہے چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے ہر قدم کے بدلے ایک درجہ ملے گا اور تمہیں وہی ملے گا جس کی تم نے نیت کی ہو۔
حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا عباد بن عباد ، حدثنا عاصم ، عن ابي عثمان ، عن ابي بن كعب ، قال: كان رجل من الانصار، بيته اقصى بيت في المدينة، فكان لا تكاد تخطئه الصلاة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فتوجعت له، فقلت: يا فلان، لو انك اشتريت حمارا يقيك من حر الرمضاء، ويقيك من هوام الارض! قال: والله ما احب ان بيتي بطنب بيت محمد صلى الله عليه وسلم، قال: فحملت حملا، حتى اتيت به نبي الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرته فدعاه، فقال: مثل ذلك، وذكر انه يرجو في اثره الاجر، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" إن لك ما احتسبت" .حَدَّثَنَا عَبْد الله، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، بَيْتُهُ أَقْصَى بَيْتٍ فِي الْمَدِينَةِ، فَكَانَ لَا تَكَادُ تُخْطِئُهُ الصَّلَاةُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَتَوَجَّعْتُ لَهُ، فَقُلْتُ: يَا فُلَانُ، لَوْ أَنَّكَ اشْتَرَيْتَ حِمَارًا يَقِيكَ مِنْ حَرِّ الرَّمْضَاءِ، وَيَقِيكَ مِنْ هَوَامِّ الْأَرْضِ! قَالَ: وَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ بَيْتِي بِطُنُبِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحَمَلْتُ حِمْلًا، حَتَّى أَتَيْتُ بِهِ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ فَدَعَاهُ، فَقَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ، وَذَكَرَ أَنَّهُ يَرْجُو فِي أَثَرِهِ الْأَجْرَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لَكَ مَا احْتَسَبْتَ" .
حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک آدمی کا گھر مسجد نبوی سے دور تھا میرے خیال میں اس سے زیادہ دور کسی کا گھر نہیں تھا کسی نے اس سے کہا کہ اگر تم کوئی گدھا وغیرہ لے لیتے تو اچھا ہوتا اس نے کہا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا ہو میں نے اس کے منہ سے اس سے زیادہ کوئی کراہت آمیز جملہ نہیں سنا تھا لیکن پھر پتہ چلا کہ اس کی مراد مسجد کی طرف دور سے چل کر آنے کا ثواب حاصل کرنا ہے چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے ہر قدم کے بدلے ایک درجہ ملے گا اور تمہیں وہی ملے گا جس کی تم نے نیت کی ہو۔
ابو عثمان کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلائی لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ تو ایسی کھلی گفتگو نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے محمد! ہمارے سامنے اپنے رب کا نسب نامہ بیان کرو اس پر اللہ تعالیٰ نے سورت اخلاص نازل فرمائی کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اکیلا ہے اللہ بےنیاز ہے، اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى سعد وأبي جعفر الرازي
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس امت کو عظمت و رفعت، دین ونصرت اور زمین میں اقتدار کی خوشخبری دے دو (چھٹی چیز میں راوی کو شک ہے) سو جو ان میں سے آخرت کا عمل دنیا کے لئے کرے گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔
حدثنا عبد الله: (٥) حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي: حدثنا معتمر بن سليمان: حدثنا سفيان الثوري عن ابي سلمة الخراساني عن الربيع بن انس عن ابي العالية عن ابي بن كعب عن النبي مثلهحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ: (٥) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرِ الْمُقَدَّمِيُّ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ الْخُرَاسَانِي عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنِ النبي مِثْلَهُ
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس امت کو عظمت و رفعت، دین و نصرت اور زمین میں اقتدار کی خوشخبری دے دو (چھٹی چیز میں راوی کو شک ہے) سو جو ان میں سے آخرت کا عمل دنیا کے لئے کرے گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔