حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دابۃ الارض کا خروج ہوگا تو وہ لوگوں کے منہ پر نشان لگا دے گا اور وہ اس نشان کے ساتھ ہی زندہ رہیں گے حتیٰ کہ اگر ایک آدمی کوئی آونٹ خریدے گا اور کوئی شخص اس سے پوچھے گا کہ یہ اونٹ تم نے کس سے خریدا ہے؟ تو وہ جواب دے گا کہ یہ میں نے اس شخص سے خریدا ہے جس کے منہ پر نشانی لگی ہوئی ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیمار کی عیادت کرنے والا رحمت الہٰی کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا وہ اس طرح آگے پیچھے ہوتا ہے اور جب اس کے پاس بیٹھتا ہے تو رحمت الہٰی اسے ڈھانپ لیتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبيدالله بن زحر وعلي بن يزيد ضعيفان
حدثنا يحيى بن إسحاق , اخبرنا حماد بن زيد , عن سنان بن ربيعة , عن شهر يعني ابن حوشب , عن ابي امامة , ان النبي صلى الله عليه وسلم توضا فمضمض ثلاثا , واستنشق ثلاثا , وغسل وجهه , وكان يمسح الماقين من العين , قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم يمسح راسه مرة واحدة , وكان يقول: " الاذنان من الراس" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ , أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ سِنَانِ بْنِ رَبِيعَةَ , عَنْ شَهْرٍ يَعْنِي ابْنَ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَمَضْمَضَ ثَلَاثًا , وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا , وَغَسَلَ وَجْهَهُ , وَكَانَ يَمْسَحُ الْمَاقَيْنِ مِنَ الْعَيْنِ , قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ رَأْسَهُ مَرَّةً وَاحِدَةً , وَكَانَ يَقُولُ: " الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے چہرے اور ہاتھوں کو تین تین مرتبہ دھویا سر کا مسح کیا اور فرمایا کہ کان سر کا حصہ ہیں نیز یہ بھی فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کے حلقے مسلتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: والأذنان من الرأس، والمسح على المأقين، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر وأبن ربيعة، وللاختلاف فى رفع ووقف قوله: والأذنان من الرأس
حدثنا زياد بن عبد الله البكائي , حدثنا منصور , عن سالم بن ابي الجعد , عن ابي امامة , قال: جاءت امراة رسول الله صلى الله عليه وسلم معها ابنان لها وهي حامل , فما سالته يومئذ إلا اعطاها , ثم قال: " حاملات والدات رحيمات , لولا ما ياتين إلى ازواجهن , دخلن الجنة" .حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَكَّائِيُّ , حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ , عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا ابْنَانِ لَهَا وَهِيَ حَامِلٌ , فَمَا سَأَلَتْهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا أَعْطَاهَا , ثُمَّ قَالَ: " حَامِلَاتٌ وَالِدَاتٌ رَحِيمَاتٌ , لَوْلَا مَا يَأْتِينَ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ , دَخَلْنَ الْجَنَّةَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت اپنے ایک بچے کے ہمراہ اسے اٹھاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مانگنے کے لئے آئی اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی مانگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دے دیا پھر فرمایا بچوں کو اٹھانے والی یہ مائیں اپنی اولاد پر کتنی مہربان ہیں اگر وہ چیز نہ ہوتی جو یہ اپنے شوہروں کے ساتھ کرتی ہیں تو ان کی نمازی عورتیں جنت میں داخل ہوجائیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، سالم لم يسمعه من أبى أمامة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء اور بےضرر گفتگو کرنا ایمان کے دو شعبے ہیں جبکہ فحش گوئی اور بےجا گفتگو کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: والعي والبيان، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين حسان بن عطية وبين أبى أمامة
حدثنا حسن بن موسى , حدثنا عمارة يعني ابن زاذان , حدثني ابو غالب , عن ابي امامة , قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بتسع , حتى إذا بدن وكثر لحمه , اوتر بسبع , وصلى ركعتين وهو جالس , فقرا ب إذا زلزلت و قل يا ايها الكافرون" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى , حَدَّثَنَا عُمَارَةُ يَعْنِي ابْنَ زَاذَانَ , حَدَّثَنِي أَبُو غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِتِسْعٍ , حَتَّى إِذَا بَدَّنَ وَكَثُرَ لَحْمُهُ , أَوْتَرَ بِسَبْعٍ , وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ , فَقَرَأَ بِ إِذَا زُلْزِلَتْ و َقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں نو رکعت وتر پڑھتے تھے بعد میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک بھاری ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سات رکعتوں پر وتر بنانے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد بیٹھ کردو رکعتیں پڑھتے تھے اور ان میں سورت زلزال اور سورت کافروں کی تلاوت فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون تعيين قراءة النبىﷺ فى الركعتين بعد الوتر، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أبى غالب وعمارة بن زاذان
حدثنا انس بن عياض , قال: سمعت صفوان بن سليم , يقول: دخل ابو امامة الباهلي دمشق , فراى رءوس حروراء قد نصبت , فقال: " كلاب النار , كلاب النار , ثلاثا , شر قتلى تحت ظل السماء , خير قتلى من قتلوا" , ثم بكى , فقام إليه رجل , فقال: يا ابا امامة , هذا الذي تقول من رايك ام سمعته؟ قال: إني إذا لجريء كيف اقول هذا عن راي , قال: قد سمعته غير مرة , ولا مرتين , قال: فما يبكيك , قال: ابكي لخروجهم من الإسلام هؤلاء الذين تفرقوا , واتخذوا دينهم شيعا .حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ , قَالَ: سَمِعْتُ صَفْوَانَ بْنَ سُلَيْمٍ , يَقُولُ: دَخَلَ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ دِمَشْقَ , فَرَأَى رُءُوسَ حَرُورَاءَ قَدْ نُصِبَتْ , فَقَالَ: " كِلَابُ النَّارِ , كِلَابُ النَّارِ , ثَلَاثًا , شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ , خَيْرُ قَتْلَى مَنْ قَتَلُوا" , ثُمَّ بَكَى , فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , هَذَا الَّذِي تَقُولُ مِنْ رَأْيِكَ أَمْ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ كَيْفَ أَقُولُ هَذَا عَنْ رَأْيٍ , قَالَ: قَدْ سَمِعْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ , وَلَا مَرَّتَيْنِ , قَالَ: فَمَا يُبْكِيكَ , قَالَ: أَبْكِي لِخُرُوجِهِمْ مِنْ الْإِسْلَامِ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ تَفَرَّقُوا , وَاتَّخَذُوا دِينَهُمْ شِيَعًا .
صفوان بن سلیم کہتے ہیں کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ دمشق میں داخل ہوئے تو خوارج کے سر لٹکے ہوئے نظر آئے انہوں نے تین مرتبہ فرمایا جہنم کے کتے ہیں آسمان کے سائے تلے سب سے بدترین مقتول ہیں اور آسمان کے سائے تلے سب سے بہترین مقتول وہ تھا جسے انہوں نے شہید کردیا اور رونے لگے۔
تھوڑی دیر بعد جب واپس ہوئے تو کسی نے پوچھا اے ابوامامہ! یہ جو آپ نے " جہنم کے کتے " کہا یہ بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا سبحان اللہ! اگر میں نے کوئی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سات مرتبہ تک سنی ہو اور پھر درمیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نکال دوں تو میں بڑا جری ہوں گا، اس نے پوچھا کہ پھر آپ روئے کیوں تھے؟ انہوں نے فرمایا اس لئے کہ یہ لوگ اسلام سے خارج ہوگئے اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تفرقہ بازی کی اور اپنے دین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرلیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، صفوان بن سليم لم يسمع من أبى أمامة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تنہا نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے یعنی اس کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے؟ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں جماعت ہوگئے۔
حدثنا هشام بن سعيد حدثنا ابن المبارك عن يحيى بن ايوب عن عبيد الله بن زحر عن علي بن يزيد عن القاسم عن ابي امامة عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه وقال:" هذان جماعة"حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَقَالَ:" هَذَانِ جَمَاعَةٌ"
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا، عبيدالله بن زحر ضعيف، وعلي بن يزيد وأهي الحديث
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سلام میں پہل کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا، أبو المهلب وعبيدالله بن زحر ضعيفان، وعلي بن يزيد واهي الحديث