حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس آیت کے ذیل میں مروی ہے " ولنذیقنہم من العذاب الادنی۔۔۔۔۔۔۔۔ " کہ مصیبتیں اور دھواں ان دو چیزوں کا عذاب تو گذر چکا اور بطشہ اور لزام کا عذاب بھی۔
حدثني عبد الله، حدثني محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا عمر بن علي ، عن ابي جناب ، عن عبد الله بن عيسى ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، حدثني ابي بن كعب ، قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم فجاء اعرابي، فقال: يا نبي الله، إن لي اخا وبه وجع! قال: " وما وجعه؟"، قال: به لمم، قال:" فائتني به، فوضعه بين يديه فعوذه النبي صلى الله عليه وسلم بفاتحة الكتاب، واربع آيات من اول سورة البقرة، وهاتين الآيتين وإلهكم إله واحد سورة البقرة آية 163 وآية الكرسي، وثلاث آيات من آخر سورة البقرة، وآية من آل عمران شهد الله انه لا إله إلا هو سورة آل عمران آية 18 وآية من الاعراف إن ربكم الله الذي خلق السموات والارض سورة الاعراف آية 54 وآخر سورة المؤمنين فتعالى الله الملك الحق سورة طه آية 114 وآية من سورة الجن وانه تعالى جد ربنا سورة الجن آية 3، وعشر آيات من اول الصافات سورة الصافات آية 1، وثلاث آيات من آخر سورة الحشر، و قل هو الله احد سورة الإخلاص آية 1، والمعوذتين، فقام الرجل كانه لم يشتك قط" .حَدَّثَنِي عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِي جَنَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ لِي أَخًا وَبِهِ وَجَعٌ! قَالَ: " وَمَا وَجَعُهُ؟"، قَالَ: بِهِ لَمَمٌ، قَالَ:" فَائْتِنِي بِهِ، فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَعَوَّذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَأَرْبَعِ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَهَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ سورة البقرة آية 163 وَآيَةِ الْكُرْسِيِّ، وَثَلَاثِ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَآيَةٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ سورة آل عمران آية 18 وَآيَةٍ مِنْ الْأَعْرَافِ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ سورة الأعراف آية 54 وَآخِرِ سُورَةِ الْمُؤْمِنِينَ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ سورة طه آية 114 وَآيَةٍ مِنْ سُورَةِ الْجِنِّ وَأَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا سورة الجن آية 3، وَعَشْرِ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ الصَّافَّاتِ سورة الصافات آية 1، وَثَلَاثِ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْحَشْرِ، وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ سورة الإخلاص آية 1، وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ، فَقَامَ الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَشْتَكِ قَطُّ" .
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے نبی! میرا ایک بھائی ہے جو تکلیف میں مبتلا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کی تکلیف کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ اس میں جنون و دیوانگی (پاگل پن) کا عنصر پایا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے میرے پاس لے کر آؤ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر اپنے سامنے بٹھایا اور اس پر سورت فاتحہ، سورت بقرہ کی ابتدائی چار آیتیں " والہکم الہ واحد۔ اور آیت الکرسی، سورت بقرہ کی آخری تین آیتیں سورت آل عمران کی ایک آیت شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو۔۔۔۔۔۔۔ سورت اعراف کی ایک آیت ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض۔۔۔۔۔۔ سورت مومن کی آخری آیات فتعالی اللہ الملک الحق۔۔۔۔۔۔۔۔ سورت جن کی آیت وانہ تعالیٰ جدربنا۔۔۔۔ سورت صافات کی ابتدائی دس آیات سورت حشر کی آخری تین آیاقل اللہ احد اور معوذتین پڑھ کردم کیا وہ آدمی اس طرح کھڑا ہوگیا کہ گویا کبھی بیمار ہی نہ ہوا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى جناب، وقد اضطرب فى إسناده
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو اضاءہ کے کنوئیں کے پاس تھے اور کہا اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت ایک حرف پر کریں اور آہستہ آہستہ بڑھاتے ہوئے سات کے عدد تک پہنچ گئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 820، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عمر بن سالم، ثم إنه غير محفوظ من رواية زبيد عن ابن أبى ليلى، وإنما المحفوظ هو من رواية مجاهد عن ابن أبى ليلى
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو اضاءہ کے کنوئیں کے پاس تھے اور کہا اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سات حروف پر کریں جس حرف کے مطابق تلاوت کریں گے صحیح کریں گے۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو اضاءہ کے کنوئیں کے پاس تھے اور کہا اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت ایک حرف پر کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آہستہ آہستہ بڑھاتے ہوئے سات کے عدد تک پہنچ گئے۔
حكم دارالسلام: صحيح، م: 820، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل جعفر بن مهران، لكنه توبع
حدثنا عبد الله، حدثني ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابن نمير ، حدثنا يزيد بن ابي زياد بن ابي الجعد ، عن عبد الملك بن عمير ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ابي بن كعب ، قال: انتسب رجلان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال احدهما: انا فلان بن فلان بن فلان، فمن انت لا ام لك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انتسب رجلان على عهد موسى عليه السلام، فقال احدهما: انا فلان بن فلان حتى عد تسعة، فمن انت لا ام لك؟ قال: انا فلان بن فلان، ابن الإسلام، قال فاوحى الله إلى موسى عليه السلام إن هذين المنتسبين، اما انت ايها المنتمي او المنتسب إلى تسعة في النار فانت عاشرهم، واما انت يا هذا المنتسب إلى اثنين في الجنة، فانت ثالثهما في الجنة" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: انْتَسَبَ رَجُلَانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بْنُ فُلاَنٍ، فَمَنْ أَنْتَ لَا أُمَّ لَكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْتَسَبَ رَجُلَانِ عَلَى عَهْدِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ حَتَّى عَدَّ تِسْعَةً، فَمَنْ أَنْتَ لَا أُمَّ لَكَ؟ قَالَ: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، ابْنُ الْإِسْلَامِ، قَالَ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام إِنَّ هَذَيْنِ الْمُنْتَسِبَيْنِ، أَمَّا أَنْتَ أَيُّهَا الْمُنْتَمِي أَوْ الْمُنْتَسِبُ إِلَى تِسْعَةٍ فِي النَّارِ فَأَنْتَ عَاشِرُهُمْ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا هَذَا الْمُنْتَسِبُ إِلَى اثْنَيْنِ فِي الْجَنَّةِ، فَأَنْتَ ثَالِثُهُمَا فِي الْجَنَّةِ" .
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دور باسعادت میں دو آدمیوں نے اپنا نسب نامہ بیان کیا ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا میں تو فلاں بن فلاں ہوں تو کون ہے؟ تیری ماں نہ رہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں دو آدمیوں نے اپنا نسب نامہ بیان کیا ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ میں تو فلاں بن فلاں ہوں اور اس نے اپنے آباؤ اجداد میں سے نو افراد کے نام گنوائے اور کہا کہ تو کون ہے؟ تیری ماں نہ رہے اس نے کہا میں فلاں بن فلاں بن اسلام ہوں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ان دونوں کے حوالے سے وحی بھیجی کہ اے نو آدمیوں کی طرف نسبت کرنے والے! وہ سب جہنم میں ہیں اور دسواں تو خود ان کے ساتھ جہنم میں ہوگا اور اے دو جنتی آدمیوں کی طرف اپنے نسب کو منسوب کرنے والے! تو جنت میں ان کے ساتھ تیسرا ہوگا۔
حدثنا عبد الله، حدثني وهب بن بقية ، حدثنا خالد بن عبد الله ، عن إسماعيل يعني ابن ابي خالد ، عن عبد الله بن عيسى ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، حدثني ابي بن كعب ، قال: كنت في المسجد، فدخل رجل، فصلى، فقرا قراءة انكرتها عليه، فدخل رجل آخر، فصلى، فقرا قراءة سوى قراءة صاحبه، فلما قضينا الصلاة، دخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن هذا قرا قراءة انكرتها عليه، فدخل هذا، فقرا قراءة سوى قراءة صاحبه، فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقرءوا" فقرءوا، فقال:" قد احسنتم"، فسقط في نفسي من التكذيب، ولا إذ كنت في الجاهلية، فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قد غشيني، ضرب صدري، قال: ففضت عرقا، وكانما انظر إلى ربي فرقا، فقال لي:" ابي! إن ربي ارسل إلي، فقال لي: اقرا على حرف، فرددت إليه ان هون على امتي، فرد إلي ان اقرا على حرفين، فرددت إليه ثلاث مرات ان هون على امتي، فرد علي ان اقرا على سبعة احرف، ولك بكل ردة رددتها سؤلك اعطيكها، فقلت اللهم اغفر لامتي، اللهم اغفر لامتي، واخرت الثالثة ليوم يرغب إلي فيه الخلق، حتى إبراهيم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَصَلَّى، فَقَرَأَ قِرَاءَةً أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ آخَرُ، فَصَلَّى، فَقَرَأَ قِرَاءَةً سِوَى قِرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الصَّلَاةَ، دَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا قَرَأَ قِرَاءَةً أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، فَدَخَلَ هَذَا، فَقَرَأَ قِرَاءَةً سِوَى قِرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَءُوا" فَقَرَءُوا، فَقَالَ:" قَدْ أَحْسَنْتُمْ"، فَسَقَطَ فِي نَفْسِي مِنَ التَّكْذِيبِ، وَلَا إِذْ كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ غَشِيَنِي، ضَرَبَ صَدْرِي، قَالَ: فَفِضْتُ عَرَقًا، وَكَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى رَبِّي فَرَقًا، فَقَالَ لِي:" أُبَيٌّ! إِنَّ رَبِّي أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقَالَ لِي: اقْرَأْ عَلَى حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ أَنْ اقْرَأْ عَلَى حَرْفَيْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَرَدَّ عَلَيَّ أَنْ اقْرَأْ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، وَلَكَ بِكُلِّ رَدَّةٍ رَدَدْتَهَا سُؤْلَكَ أُعْطِيكَهَا، فَقُلْتُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَةَ لِيَوْمٍ يَرْغَبُ إِلَيَّ فِيهِ الْخَلْقُ، حَتَّى إِبْرَاهِيمَ" .
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مسجد میں تھا ایک آدمی آیا اور اس طرح قرآن پڑھنے لگا جسے میں نہیں جانتا تھا پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے بھی مختلف انداز میں پڑھا ہم اکٹھے ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ آدمی مسجد میں آیا اور اس طرح قرآن پڑھا جس پر مجھے تعجب ہوا پھر یہ دوسرا آیا اور اس نے بھی مختلف انداز میں اسے پڑھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پڑھنے کے لئے فرمایا چنانچہ ان دونوں نے تلاوت کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصویب فرمائی اس دن اسلام کے حوالے سے جو وسوسے میرے ذہن میں آئے کبھی ایسے وسوسے نہیں آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا جس سے وہ تمام وساوس دور ہوگئے اور میں پانی پانی ہوگیا اور یوں محسوس ہوا کہ میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل اور میکائیل (علیہم السلام) آئے تھے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ قرآن کریم کو ایک حرف پر پڑھئے میں نے اپنے رب کے پاس پیغام بھیجا کہ میری امت پر آسانی فرما اس طرح ہوتے ہوتے سات حروف تک بات آگئی اور اللہ نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ اسے سات حروف پر پڑھئے اور ہر مرتبہ کے عوض آپ مجھ سے ایک درخواست کریں میں اسے قبول کرلوں گا چنانچہ میں نے دو مرتبہ تو اپنی امت کی بخشش کی دعاء کرلی اور تیسری چیز کو اس دن کے لئے رکھ دیا جب ساری مخلوق حتٰی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی میرے پاس آئیں گے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے ہم نے روٹی اور گوشت کھایا پھر میں نے وضو کے لئے پانی منگوایا تو وہ دونوں حضرات کہنے لگے کہ وضو کیوں کر رہے ہو؟ میں نے کہا کہ اس کھانے کی وجہ سے جو ابھی ہم نے کھایا ہے وہ کہنے لگے کہ کیا تم حلال چیزوں سے وضو کرو گے؟ اس ذات نے اس سے وضو نہیں کیا جو تم سے بہتر تھی۔
حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن زر ، قال: قلت لابي ، إن عبد الله، يقول: في المعوذتين، فقال: سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عنهما، فقال:" قيل لي، فقلت: فانا اقول كما قال" ..حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيٍّ ، إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ: فِي الْمُعَوِّذَتَيْنِ، فَقَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمَا، فَقَالَ:" قِيلَ لِي، فَقُلْتُ: فَأَنَا أَقُولُ كَمَا قَالَ" ..
زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کے متعلق کہتے ہیں (کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہیں اسی لئے وہ انہیں اپنے نسخے میں نہیں لکھتے؟) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ("" قل "" کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ میں بھی کہتا ہوں۔ زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے متعلق پوچھا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ("" قل "" کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔ زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے متعلق پوچھا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ("" قل "" کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند بھی مروی ہے۔ زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے متعلق پوچھا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ("" قل "" کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔ زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کے متعلق کہتے ہیں (کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہیں اسی لئے وہ انہیں اپنے نسخے میں نہیں لکھتے؟) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ( «قل» کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عاصم ، عن زر ، قال: سالت ابي بن كعب عن المعوذتين، فقال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم عنهما، فقال:" قيل لي، فقلت لكم، فقولوا"، قال ابي، فقال لنا النبي صلى الله عليه وسلم، فنحن نقول..حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ عَنِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ، فَقَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمَا، فَقَالَ:" قِيلَ لِي، فَقُلْتُ لَكُمْ، فَقُولُوا"، قَالَ أُبَيٌّ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَحْنُ نَقُولُ..