حدثنا عفان ، حدثنا جرير بن حازم ، قال: جلس إلينا شيخ في مكان ايوب، فسمع القوم يتحدثون، فقال حدثني مولاي، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ما اسمه؟ قال: قرة بن دعموص النميري ، قال: قدمت المدينة فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحوله الناس، فجعلت اريد ان ادنو منه، فلم استطع، فناديته يا رسول الله، استغفر للغلام النميري، فقال:" غفر الله لك"، قال: وبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم الضحاك بن قيس ساعيا، فلما رجع رجع بإبل جلة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتيت هلال بن عامر، ونمير بن عامر، وعامر بن ربيعة، فاخذت جلة اموالهم؟" قال: يا رسول الله، إنني سمعتك تذكر الغزو، فاحببت ان آتيك بإبل تركبها، وتحمل عليها، فقال:" والله، للذي تركت احب إلي من الذي اخذت، ارددها، وخذ من حواشي اموالهم صدقاتهم"، قال: فسمعت المسلمين يسمون تلك الإبل المسان المجاهدات .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ: جَلَسَ إِلَيْنَا شَيْخٌ فِي مَكَانِ أَيُّوبَ، فَسَمِعَ الْقَوْمَ يَتَحَدَّثُونَ، فَقَالَ حَدَّثَنِي مَوْلَايَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا اسْمُهُ؟ قَالَ: قُرَّةُ بْنُ دَعْمُوصٍ النُّمَيْرِيُّ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَوْلَهُ النَّاسُ، فَجَعَلْتُ أُرِيدُ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ، فَلَمْ أَسْتَطِعْ، فَنَادَيْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِلْغُلَامِ النُّمَيْرِيِّ، فَقَالَ:" غَفَرَ اللَّهُ لَكَ"، قَالَ: وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ سَاعِيًا، فَلَمَّا رَجَعَ رَجَعَ بِإِبِلٍ جِلَّةٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَيْتَ هِلَالَ بْنَ عَامِرٍ، وَنُمَيْرَ بْنَ عَامِرٍ، وَعَامِرَ بْنَ رَبِيعَةَ، فَأَخَذْتَ جُلَّةَ أَمْوَالِهِمْ؟" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّنِي سَمِعْتُكَ تَذْكُرُ الْغَزْوَ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ آتِيَكَ بِإِبِلٍ تَرْكَبُهَا، وَتَحْمِلُ عَلَيْهَا، فَقَالَ:" وَاللَّهِ، لَلَّذِي تَرَكْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الَّذي أَخَذْتَ، ارْدُدْهَا، وَخُذْ مِنْ حَوَاشِي أَمْوَالِهِمْ صَدَقَاتِهِمْ"، قَالَ: فَسَمِعْتُ الْمُسْلِمِينَ يُسَمُّونَ تِلْكَ الْإِبِلَ الْمَسَانَّ الْمُجَاهِدَاتِ .
حضرت قرہ بن دعموص سے مروی ہے کہ میں مدینہ منورہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے اردگرد لوگ بیٹھے ہوئے تھے میں نے قریب ہونے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکا تو میں نے دور ہی سے پکار کر کہا یارسول اللہ نمیری نوجوان کے لئے (میرے لئے) بخشش کی دعا کیجیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمہاری بخشش فرمائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل ازیں حضرت ضحاک بن قیس کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا جب وہ واپس آئے تو بڑے عمدہ اونٹ لے کر آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تم نے ہلال بن عامر، نمیر بن عامر اور عامر بن ربیعہ کے پاس پہنچ کر ان کا قیمتی مال لے لیا؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے سنا تھا کہ آپ جہاد پر روانہ ہونے کا تذکرہ کررہے تھے میں نے سوچا کہ ایسے اونٹ لے کر آؤں جن پر آپ سوار ہوسکیں اور ان پر سامان رکھ سکیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واللہ تم جو جانور چھوڑ کر آئے وہ مجھے ان سے زیادہ محبوب ہے جو تم لے کر آئے ہو یہ واپس ان لوگوں کو دے دو اور ان سے درمیانے درجے کا مال زکوٰۃ میں لیا کرو راوی کہتے ہیں میں نے مسلمانوں کو ان اونٹوں کے لئے مجاہدات کا لفظ استعمال کرتے ہوئے سنا ہے۔
حدثنا بهز ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن عبد الملك بن عمير ، عن ربعي بن حراش ، عن طفيل بن سخبرة اخي عائشة لامها، انه راى فيما يرى النائم، كانه مر برهط من اليهود، فقال: من انتم؟ قالوا: نحن اليهود، قال: إنكم انتم القوم، لولا انكم تزعمون ان عزيرا ابن الله! فقالت اليهود: وانتم القوم، لولا انكم تقولون ما شاء الله وشاء محمد! ثم مر برهط من النصارى، فقال: من انتم؟ قالوا: نحن النصارى، فقال: إنكم انتم القوم، لولا انكم تقولون المسيح ابن الله! قالوا: وإنكم انتم القوم، لولا انكم تقولون ما شاء الله وما شاء محمد! فلما اصبح اخبر بها من اخبر، ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبره، فقال" هل اخبرت بها احدا؟" قال عفان: قال: نعم، فلما صلوا خطبهم، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال" إن طفيلا راى رؤيا، فاخبر بها من اخبر منكم، وإنكم كنتم تقولون كلمة كان يمنعني الحياء منكم ان انهاكم عنها"، قال: " لا تقولوا ما شاء الله وما شاء محمد" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ طُفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ أَخِي عَائِشَةَ لِأُمِّهَا، أَنَّهُ رَأَى فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، كَأَنَّهُ مَرَّ بِرَهْطٍ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: نَحْنُ الْيَهُودُ، قَالَ: إِنَّكُمْ أَنْتُمْ الْقَوْمُ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ عُزَيْرًا ابْنُ اللَّهِ! فَقَالَتْ الْيَهُودُ: وَأَنْتُمْ الْقَوْمُ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ مُحَمَّدٌ! ثُمَّ مَرَّ بِرَهْطٍ مِنَ النَّصَارَى، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: نَحْنُ النَّصَارَى، فَقَالَ: إِنَّكُمْ أَنْتُمْ الْقَوْمُ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَقُولُونَ الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ! قَالُوا: وَإِنَّكُمْ أَنْتُمْ الْقَوْمُ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ وَمَا شَاءَ مُحَمَّدٌ! فَلَمَّا أَصْبَحَ أَخْبَرَ بِهَا مَنْ أَخْبَرَ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ" هَلْ أَخْبَرْتَ بِهَا أَحَدًا؟" قَالَ عَفَّانُ: قَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا صَلَّوْا خَطَبَهُمْ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ" إِنَّ طُفَيْلًا رَأَى رُؤْيَا، فَأَخْبَرَ بِهَا مَنْ أَخْبَرَ مِنْكُمْ، وَإِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَقُولُونَ كَلِمَةً كَانَ يَمْنُعُنِي الْحَيَاءُ مِنْكُمْ أَنْ أَنْهَاكُمْ عَنْهَا"، قَالَ: " لَا تَقُولُوا مَا شَاءَ اللَّهُ وَمَا شَاءَ مُحَمَّدٌ" .
حضرت طفیل بن سخبرہ جو حضرت عائشہ کے ماں شریک بھائی ہیں کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ وہ یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گذرے اور ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا ہم یہودی ہیں طفیل نے کہا تم ایک صحیح قوم ہوتے اگر تم حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا نہ سمجھتے یہودیوں نے کہا تم بھی ایک صحیح قوم ہوتے اگر تم یوں نہ کہتے کہ جو اللہ نے چاہا اور جو محمد نے چاہا پھر ان کا گذر عیسائیوں کے ایک گروہ پر ہوا اور ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو انہوں نے کہا ہم عیسائی ہیں طفیل نے کہا تم ایک صحیح قوم ہوتے اگر تم حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا نہ قرار دیتے عیسائیوں نے کہا تم بھی ایک صحیح قوم ہوتے اگر تم یوں نہ کہتے کہ جو اللہ نے چاہا اور جو محمد نے چاہا۔ صبح ہوئی تو انہوں نے یہ خواب کچھ لوگوں کو سنایا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بھی یہ واقعہ سنایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے یہ خواب کسی کو بتایا بھی ہے انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا کہ طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے جو اس نے تم میں سے بعض لوگوں کو بتایا بھی ہے تم یہ جملہ پہلے کہتے تھے جس سے تمہیں روکتے ہوئے مجھے حیاء مانع ہوجاتی تھی اب یہ نہ کہا کرو کہ جو اللہ نے چاہا اور جو محمد نے چاہا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى إسناده على عبدالملك بن عمير
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن زيد ، عن ابي حرة الرقاشي ، عن عمه ، قال: كنت آخذا بزمام ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم في اوسط ايام التشريق، اذود عنه الناس، فقال:" يا ايها الناس، هل تدرون في اي شهر انتم؟ وفي اي يوم انتم؟ وفي اي بلد انتم؟" قالوا: في يوم حرام، وشهر حرام، وبلد حرام، قال:" فإن دماءكم، واموالكم، واعراضكم، عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، إلى يوم تلقونه" ، ثم قال: " اسمعوا مني تعيشوا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، إنه لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه، الا وإن كل دم ومال وماثرة كانت في الجاهلية تحت قدمي هذه إلى يوم القيامة، وإن اول دم يوضع دم ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب، كان مسترضعا في بني ليث، فقتلته هذيل، الا وإن كل ربا كان في الجاهلية موضوع، وإن الله قضى ان اول ربا يوضع ربا العباس بن عبد المطلب، لكم رءوس اموالكم، لا تظلمون ولا تظلمون، الا وإن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والارض"، ثم قرا:" إن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهرا في كتاب الله يوم خلق السموات والارض منها اربعة حرم ذلك الدين القيم فلا تظلموا فيهن انفسكم سورة التوبة آية 36 . " الا لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض، الا إن الشيطان قد ايس ان يعبده المصلون، ولكنه في التحريش بينكم، فاتقوا الله في النساء، فإنهن عندكم عوان لا يملكن لانفسهن شيئا، وإن لهن عليكم، ولكم عليهن حقا ان لا يوطئن فرشكم احدا غيركم، ولا ياذن في بيوتكم لاحد تكرهونه، فإن خفتم نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع، واضربوهن ضربا غير مبرح"، قال حميد: قلت للحسن: ما المبرح؟ قال: المؤثر،" ولهن رزقهن وكسوتهن بالمعروف، وإنما اخذتموهن بامانة الله، واستحللتم فروجهن بكلمة الله، الا ومن كانت عنده امانة، فليؤدها إلى من ائتمنه عليها"، وبسط يديه، فقال" الا هل بلغت، الا هل بلغت، الا هل بلغت؟!" ثم قال" ليبلغ الشاهد الغائب، فإنه رب مبلغ اسعد من سامع" ، قال حميد: قال الحسن حين بلغ هذه الكلمة، قد والله بلغوا اقواما كانوا اسعد به.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي حُرَّةَ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: كُنْتُ آخِذًا بِزِمَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، أَذُودُ عَنْهُ النَّاسَ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، هَلْ تَدْرُونَ فِي أَيِّ شَهْرٍ أَنْتُمْ؟ وَفِي أَيِّ يَوْمٍ أَنْتُمْ؟ وَفِي أَيِّ بَلَدٍ أَنْتُمْ؟" قَالُوا: فِي يَوْمٍ حَرَامٍ، وَشَهْرٍ حَرَامٍ، وَبَلَدٍ حَرَامٍ، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَهُ" ، ثُمَّ قَالَ: " اسْمَعُوا مِنِّي تَعِيشُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، إِنَّهُ لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ وَمَالٍ وَمَأْثَرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمِي هَذِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ يُوضَعُ دَمُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ، فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَإِنَّ اللَّهَ قَضَى أَنَّ أَوَّلَ رِبًا يُوضَعُ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ، لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، أَلَا وَإِنَّ الزَّمَانَ قَدْ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ"، ثُمَّ قَرَأَ:" إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ سورة التوبة آية 36 . " أَلَا لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ، وَلَكِنَّهُ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَكُمْ، فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٌ لَا يَمْلِكْنَ لِأَنْفُسِهِنَّ شَيْئًا، وَإِنَّ لَهُنَّ عَلَيْكُمْ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ حَقًّا أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا غَيْرَكُمْ، وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِأَحَدٍ تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ خِفْتُمْ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ"، قَالَ حُمَيْدٌ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: مَا الْمُبَرِّحُ؟ قَالَ: الْمُؤَثِّرُ،" وَلَهُنَّ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنَّمَا أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ، أَلَا وَمَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَانَةٌ، فَلْيُؤَدِّهَا إِلَى مَنْ ائْتَمَنَهُ عَلَيْهَا"، وَبَسَطَ يَدَيْهِ، فَقَالَ" أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟!" ثُمَّ قَالَ" لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَإِنَّهُ رُبَّ مُبَلَّغٍ أَسْعَدُ مِنْ سَامِعٍ" ، قَالَ حُمَيْدٌ: قَالَ الْحَسَنُ حِينَ بَلَّغَ هَذِهِ الْكَلِمَةَ، قَدْ وَاللَّهِ بَلَّغُوا أَقْوَامًا كَانُوا أَسْعَدَ بِهِ.
حضرت ابورقاشی اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں ایام تشریق کے درمیانی دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی لگام میں نے پکڑی ہوئی تھی اور لوگوں پیچھے ہٹا رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آج تم کس دن میں ہو؟ کس مہینے میں ہو؟ اور کس شہر میں ہو لوگوں نے عرض کیا حرمت والے دن میں ہیں اور حرمت والے مہینے میں اور حرمت والے شہر میں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہاری جان، مال اور عزت آبرو ایک دوسرے کے لئے اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مہینہ اور اس شہر میں ہے یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جا ملو۔ پھر فرمایا کہ لوگو میری بات سنو تمہیں زندگی ملے گی خبردار کسی پر ظلم نہ کرو تین مرتبہ فرمایا کسی شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے یادر کھو۔ ہر وہ خون، مالی معاملہ اور فخر ومباہات کی چیزیں جو زمانہ جاہلیت میں تھیں آج میرے ان دو قدموں کے نیچے ہیں قیامت تک کے لئے اور سب سے پہلا خون جو معاف کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے جو بنولیث کے یہاں دودھ پیتا بچہ تھا تھا اور بنوہذیل نے اسے قتل کردیا تھا اسی طرح زمانہ جاہلیت کا ہر سود ختم کیا جاتا ہے اور اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ سب سے پہلا سود حضرت عباس بن عبدالمطلب کا ختم کیا جاتا ہے تمہیں تمہارا اصل راس المال ملے گا جس میں تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ یاد رکھو زمانہ اسی کی ہیئت پر واپس گھوم کر آگیا ہے جس پر اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا پھر یہ آیت تلاوت فرمائی " اللہ کے نزدیک اللہ کے فیصلے میں اسی دن مہینوں کی گنتی بارہ تھی جب اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے لہذا ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ " خبردار میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو یادر کھو شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ اب نمازی اس کی پوجا کریں گے لیکن وہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈالتا رہے گا عورتیں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ وہ تمہارے زیرنگین ہیں خود وہ کسی چیز کی مالک نہیں ان کے تم پر اور تمہارے ان پر کچھ حقوق ہیں۔ وہ تمہارے بستروں پر تمہارے علاوہ کسی کو نہ آنے دیں کسی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں جس کو تم اچھا نہ سمجھتے ہو اگر تمہیں ان کی نافرمانی سے خطرہ ہو تو انہیں سمجھاؤ ان کے بستر الگ کردو اور اس طرح مارو جس سے کوئی نقصان نہ ہو ان کا کھانا پینا اور کپڑے بھلے طریقے سے تمہارے ذمہ ہیں تم نے انہیں امانتاً لیا ہے اور اللہ کے کلمہ کے ذریعے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ خبردار جس کے پاس کوئی امانت ہو اس کو امانت رکھوانے والے کے لئے حوالے کردیا جائے اور پھر ہاتھ پھیلا کر فرمایا کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچا دیا؟ (تین مرتبہ فرمایا) پھر فرمایا حاضرین غائبین تک یہ باتیں پہنچا دیں کیونکہ بہت سے غائبین سننے والوں سے زیادہ سعادت مند ہوتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره منقطعا، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا داود بن ابي هند ، عن رجل من اهل الشام، يقال له: عمار ، قال: ادربنا عاما، ثم قفلنا، وفينا شيخ من خثعم، فذكر الحجاج، فوقع فيه، وشتمه، فقلت له: لم تسبه وهو يقاتل اهل العراق في طاعة امير المؤمنين؟ فقال: إنه هو الذي اكفرهم، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يكون في هذه الامة خمس فتن، فقد مضت اربع وبقيت واحدة، وهي الصيلم، وهي فيكم يا اهل الشام، فإن ادركتها فإن استطعت ان تكون حجرا فكنه، ولا تكن مع واحد من الفريقين، الا فاتخذ نفقا في الارض" ، وقد قال حماد:" ولا تكن"، وقد حدثنا به حماد قبل ذا، قلت: اانت سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قلت: يرحمك الله، افلا كنت اعلمتني انك رايت النبي صلى الله عليه وسلم حتى اسائلك.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، يُقَالُ لَهُ: عَمَّارٌ ، قَالَ: أَدْرَبْنَا عَامًا، ثُمَّ قَفَلْنَا، وَفِينَا شَيْخٌ مِنْ خَثْعَمٍ، فَذُكِرَ الْحَجَّاجُ، فَوَقَعَ فِيهِ، وَشَتَمَهُ، فَقُلْتُ لَهُ: لِمَ تَسُبُّهُ وَهُوَ يُقَاتِلُ أَهْلَ الْعِرَاقِ فِي طَاعَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ هُوَ الَّذِي أَكْفَرَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ خَمْسُ فِتَنٍ، فَقَدْ مَضَتْ أَرْبَعٌ وَبَقِيَتْ وَاحِدَةٌ، وَهِيَ الصَّيْلَمُ، وَهِيَ فِيكُمْ يَا أَهْلَ الشَّامِ، فَإِنْ أَدْرَكْتَهَا فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ حَجَرًا فَكُنْهُ، وَلَا تَكُنْ مَعَ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِيقَيْنِ، أَلَا فَاتَّخِذْ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ" ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ:" وَلَا تَكُنْ"، وَقَدْ حَدَّثَنَا بِهِ حَمَّادٌ قَبْلَ ذَا، قُلْتُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، أَفَلَا كُنْتَ أَعْلَمْتَنِي أَنَّكَ رَأَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أُسَائِلَكَ.
اہل شام کا ایک آدمی جس کا نام عمار تھا اس کا کہنا ہے کہ ایک سال ہم دشمن کے ملک میں داخل ہوگئے پھر وہاں سے لوٹ آئے ہم میں قبیلہ خثعم کے ایک بزرگ بھی تھے انہوں نے حجاج کا تذکرہ کیا تو اسے خوب برا بھلا کہا میں نے ان سے کہا کہ آپ اسے کیوں برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ تو امیرالمؤمنین کی اطاعت میں اہل عراق سے قتال کررہا ہے انہوں نے فرمایا کہ ان لوگوں کو کفر میں مبتلا کرنے والا وہی تو ہے تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں پانچ فتنے ہونگے جن میں سے چار گزر گئے ہیں ایک رہ گیا ہے اور وہ ہے جڑ سے مٹا دینے والی جنگ اور اے اہل شام وہ تم میں ہے اگر تم اس زمانے کو پاؤ اور تمہارے اندر یہ طاقت ہو کہ پتھر بن جاؤ تو بن جاؤ اور فریقین میں سے کسی کے ساتھ بھی نہ ہونا اور زمین میں اپنا نفقہ تلاش کرنا میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی ہی آپ نے یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے اگر آپ نے مجھے پہلے بتایا ہوتا کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے تو میں آپ سے کچھ پوچھ ہی لیتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الجهالة عمار الرجل الشامي
حدثنا عفان ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، اخبرنا عمار يعني ابن ابي عمار ، عن ابن عباس ، قال: اتى علي زمان وانا اقول اولاد المسلمين مع المسلمين، واولاد المشركين مع المشركين، حتى حدثني فلان ، عن فلان ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عنهم، فقال: " الله اعلم بما كانوا عاملين"، قال: فلقيت الرجل، فاخبرني، فامسكت عن قولي .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَمَّارٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَأَنَا أَقُولُ أَوْلَادُ الْمُسْلِمِينَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَوْلَادُ الْمُشْرِكِينَ مَعَ الْمُشْرِكِينَ، حَتَّى حَدَّثَنِي فُلَانٌ ، عَنْ فُلَانٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْهُمْ، فَقَالَ: " اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ"، قَالَ: فَلَقِيتُ الرَّجُلَ، فَأَخْبَرَنِي، فَأَمْسَكْتُ عَنْ قَوْلِي .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک وقت میں اس بات کا قائل تھا کہ مسلمانوں کی اولاد مسلمانوں کے ساتھ ہوگی اور مشرکین کی اولاد مشرکین کے ساتھ ہوگی حتی کے فلاں آدمی نے مجھے فلاں کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اولاد کے متعلق پوچھا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے پھر میں ایک اور آدمی سے ملا اور اس نے بھی مجھے یہی بات بتائی تب میں اپنی رائے سے پیچھے ہٹ گیا۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، قال: سمعت شيخا من قيس يحدث، عن ابيه ، انه قال جاءنا النبي صلى الله عليه وسلم وعندنا بكرة صعبة لا نقدر عليها، قال: فدنا منها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمسح ضرعها، فحفل، فاحتلب، قال: ولما مات ابي جاء، وقد شددته في كفنه، واخذت سلاءة فشددت بها الكفن، فقال: " لا تعذب اباك بالسلى"، قالها حماد: ثلاثا، قال: ثم كشف عن صدره والقى السلى، ثم بزق على صدره، حتى رايت رضاض بزاقه على صدره .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ شَيْخًا مِنْ قَيْسٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ جَاءَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَنَا بَكْرَةٌ صَعْبَةٌ لَا نَقْدِرُ عَلَيْهَا، قَالَ: فَدَنَا مِنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَسَحَ ضَرْعَهَا، فَحَفَلَ، فَاحْتَلَبَ، قَالَ: وَلَمَّا مَاتَ أَبِي جَاءَ، وَقَدْ شَدَدْتُهُ فِي كَفَنِهِ، وَأَخَذْتُ سُلَّاءَةً فَشَدَدْتُ بِهَا الْكَفَنَ، فَقَالَ: " لَا تُعَذِّبْ أَبَاكَ بِالسُّلَّى"، قَالَهَا حَمَّادٌ: ثَلَاثًا، قَالَ: ثُمَّ كَشَفَ عَنْ صَدْرِهِ وَأَلْقَى السُّلَّى، ثُمَّ بَزَقَ عَلَى صَدْرِهِ، حَتَّى رَأَيْتُ رُضَاضَ بُزَاقِهِ عَلَى صَدْرِهِ .
قبیلہ قیس کے ایک صحابی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ہمارے پاس ایک طاقت ور اونٹ تھا جس پر کسی کو قدرت حاصل نہ ہوتی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب گئے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور اس کا دودھ دوہا پھر جب میرے والد فوت ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں اس وقت انہیں کفن میں لپیٹا چکا تھا اور درخت خرما کے کانٹے لے کر ان سے کفن کو باندھ دیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے باپ کو کانٹوں سے عذاب نہ دو پھر ان کے سینے سے کانٹے کھول کر پھینک دیئے اور ان کے سینے پر اپنا لعاب دہن لگایا یہاں تک میں نے ان کی تری ان کے سینے پر دیکھی۔
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا عمرو بن يحيى ، عن معاذ بن رفاعة الانصاري ، عن رجل من بني سلمة، يقال له: سليم ، اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن معاذ بن جبل ياتينا بعدما ننام، ونكون في اعمالنا بالنهار، فينادي بالصلاة، فنخرج إليه، فيطول علينا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا معاذ بن جبل، لا تكن فتانا، إما ان تصلي معي، وإما ان تخفف على قومك"، ثم قال:" يا سليم، ماذا معك من القرآن؟" قال: إني اسال الله الجنة، واعوذ به من النار، والله ما احسن دندنتك، ولا دندنة معاذ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وهل تصير دندنتي ودندنة معاذ إلا ان نسال الله الجنة ونعوذ به من النار"، ثم قال سليم: سترون غدا إذا التقى القوم إن شاء الله، قال: والناس يتجهزون إلى احد، فخرج وكان في الشهداء .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ، يُقَالُ لَهُ: سُلَيْمٌ ، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ يَأْتِينَا بَعْدَمَا نَنَامُ، وَنَكُونُ فِي أَعْمَالِنَا بِالنَّهَارِ، فَيُنَادِي بِالصَّلَاةِ، فَنَخْرُجُ إِلَيْه، فَيُطَوِّلُ عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ، لَا تَكُنْ فَتَّانًا، إِمَّا أَنْ تُصَلِّيَ مَعِي، وَإِمَّا أَنْ تُخَفِّفَ عَلَى قَوْمِكَ"، ثُمَّ قَالَ:" يَا سُلَيْمُ، مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ؟" قَالَ: إِنِّي أَسْأَلُ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَأَعُوذُ بِهِ مِنَ الْنَّارِ، وَاللَّهِ مَا أُحْسِنُ دَنْدَنَتَكَ، وَلَا دَنْدَنَةَ مُعَاذٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَهَلْ تَصِيرُ دَنْدَنَتِي وَدَنْدَنَةُ مُعَاذٍ إِلَّا أَنْ نَسْأَلَ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَنَعُوذَ بِهِ مِنَ الْنَّارِ"، ثُمَّ قَالَ سُلَيْمٌ: سَتَرَوْنَ غَدًا إِذَا الْتَقَى الْقَوْمُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: وَالنَّاسُ يَتَجَهَّزُونَ إِلَى أُحُدٍ، فَخَرَجَ وَكَانَ فِي الشُّهَدَاءِ .
بنوسلمہ کے سلیم نامی ایک صحابی کا کہنا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ حضرت معاذ بن جبل ہمارے یہاں اس وقت آتے ہیں جب ہم سوچکے ہوتے ہیں دن میں ہم اپنے کام کاج میں مصروف رہتے ہیں وہ نماز کے لئے بلاتے ہیں جب ہم آجاتے ہیں تو وہ لمبی نماز پڑھاتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اے معاذ بن جبل تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے نہ بنو یا تو میرے ساتھ نماز پڑھا کرو یا پھر اپنی نماز کو ہلکی نماز پڑھایا کرو۔ پھر مجھ سے فرمایا سلیم! تمہیں کتنا قرآن یاد ہے میں نے عرض کیا کہ میں اللہ سے جنت کا سوال اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں بخدا! میں آپ کی طرح یا معاذ کی طرح نہیں پڑھ سکتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میری اور معاذ کی طرح کیوں نہیں ہوسکتے؟ ہم بھی تو اللہ سے جنت کا سوال اور دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں پھر سلیم نے کہا کہ ان شاء اللہ کل جب دشمن سے سامنا ہوگا تو آپ دیکھئے گا اس وقت لوگ غزوہ احد کی تیاریوں میں مشغول تھے وہ بھی غزوہ احد میں شریک ہوا اور شہید ہوگیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، معاذ بن رفاعة لم يسمع هذا الحديث من سليم
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي المليح ، عن ابيه ، ان يوم حنين كان مطيرا، قال: فامر النبي صلى الله عليه وسلم مناديه" ان الصلاة في الرحال" ..حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ يَوْمَ حُنَيْنٍ كَانَ مَطِيرًا، قَالَ: فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيَهُ" أَنَّ الصَّلَاةَ فِي الرِّحَالِ" ..
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر بارش کے دن لوگوں سے فرمایا کہ اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو۔
حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، قال قتادة اخبرنا، عن ابي المليح ، عن ابيه انهم كانوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين، فاصابهم مطر، فنادى مناديه" ان صلوا في رحالكم" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ قَتَادَةُ أَخْبَرَنَا، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَأَصَابَهُمْ مَطَرٌ، فَنَادَى مُنَادِيَهُ" أَنْ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر بارش کے دن لوگوں سے فرمایا کہ اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو۔