حدثنا يزيد ، اخبرنا بهز بن حكيم ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قلت: يا رسول الله، إنا قوم نتساءل اموالنا، قال: " يتساءل الرجل في الحاجة او الفتق ليصلح به بين قومه، فإذا بلغ او كرب، استعف" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَوْمٌ نَتَسَاءَلُ أَمْوَالَنَا، قَالَ: " يَتَسَاءَلُ الرَّجُلُ فِي الحاجة أَوْ الْفَتْقِ لِيُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ قَوْمِهِ، فَإِذَا بَلَغَ أَوْ كَرَبَ، اسْتَعَفَّ" .
حضرت معاویہ بہزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا مال مانگتے رہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان اپنی قوم میں صلح کرنے کے لئے کسی زخم یا نشان کا تاوان مانگ سکتا ہے، جب وہ منزل پر پہنچ جائے یا تکلیف باقی رہے تو وہ اپنے آپ کو سوال کرنے سے بچائے۔
حدثنا يحيى بن سعيد , وإسماعيل بن إبراهيم , عن بهز ، قال: حدثني ابي ، عن جدي , قال: قلت: يا رسول الله، عوراتنا ما ناتي منها وما نذر؟ قال: " احفظ عورتك إلا من زوجتك، او ما ملكت يمينك" , قال: قلت: يا رسول الله، فإذا كان القوم بعضهم في بعض؟ قال:" إن استطعت ان لا يراها احد فلا يرينها" قلت: فإذا كان احدنا خاليا , قال:" فالله تبارك وتعالى احق ان يستحيا منه" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ بَهْزٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ؟ قَالَ: " احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ، أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ؟ قَالَ:" إِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَاهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَيَنَّهَا" قُلْتُ: فَإِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا , قَالَ:" فَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ" ..
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ہم اپنی شرمگاہ کا کتنا حصہ چھپائیں اور اور کتنا چھوڑ سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی بیوی اور باندی کے علاوہ ہر ایک سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بعض لوگوں کے رشتہ دار ان کے ساتھ رہتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاں تک ممکن ہو کہ وہ تمہاری شرمگاہ نہ دیکھیں، تم انہیں مت دکھاؤ، میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات ہم میں سے کوئی شخص تنہا بھی تو ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔
حدثنا يونس ، عن حماد بن زيد ، قال ايضا: وقال النبي صلى الله عليه وسلم بيده، فوضعها على فرجه.حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ أَيْضًا: وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، فَوَضَعَهَا عَلَى فَرْجِهِ.
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن بهز ، قال: اخبرني ابي ، عن جدي ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله، والله ما اتيتك حتى حلفت اكثر من عدد اولاء وضرب إحدى يديه على الاخرى ان لا آتيك، ولا آتي دينك، وإني قد جئت امرا لا اعقل شيئا إلا ما علمني الله عز وجل ورسوله، وإني اسالك بوجه الله، بم بعثك ربنا إلينا؟ قال:" بالإسلام" قال: قلت: يا رسول الله، وما آية الإسلام؟ قال:" ان تقول: اسلمت وجهي لله وتخليت، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وكل مسلم على مسلم محرم، اخوان نصيران , لا يقبل الله عز وجل من مشرك يشرك، بعد ما اسلم عملا، او يفارق المشركين إلى المسلمين، ما لي امسك بحجزكم عن النار! الا إن ربي داعي، وإنه سائلي , هل بلغت عبادي؟ وانا قائل له: رب قد بلغتهم , الا فليبلغ الشاهد منكم الغائب , ثم إنكم مدعوون ومفدمة افواهكم بالفدام، وإن اول ما يبين" , وقال بواسط" يترجم" , قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده على فخذه، قال: قلت: يا رسول الله، هذا ديننا؟ قال:" هذا دينكم، واينما تحسن يكفك" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ بَهْزٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا أَتَيْتُكَ حَتَّى حَلَفْتُ أَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ أُولَاءِ وَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى أَنْ لَا آتِيَكَ، وَلَا آتِيَ دِينَكَ، وَإِنِّي قَدْ جِئْتُ امْرَأً لَا أَعْقِلُ شَيْئًا إِلَّا مَا عَلَّمَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولُهُ، وَإِنِّي أَسْأَلُكَ بِوَجْهِ اللَّهِ، بِمَ بَعَثَكَ رَبُّنَا إِلَيْنَا؟ قَالَ:" بِالْإِسْلَامِ" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا آيَةُ الْإِسْلَامِ؟ قَالَ:" أَنْ تَقُولَ: أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَتَخَلَّيْتُ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَكُلُّ مُسْلِمٍ عَلَى مُسْلِمٍ مُحَرَّمٌ، أَخَوَانِ نَصِيرَانِ , لَا يَقْبَلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ مُشْرِكٍ يُشْرِكُ، بَعْدَ مَا أَسْلَمَ عَمَلًا، أَوْ يُفَارِقُ الْمُشْرِكِينَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ، مَا لِي أُمْسِكُ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ! أَلَا إِنَّ رَبِّي دَاعِيَّ، وَإِنَّهُ سَائِلِي , هَلْ بَلَّغْتَ عِبَادِي؟ وَأَنَا قَائِلٌ لَهُ: رَبِّ قَدْ بَلَّغْتُهُمْ , أَلَا فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ مِنْكُمْ الْغَائِبَ , ثُمَّ إِنَّكُمْ مَدْعُوُّونَ وَمُفَدَّمَةٌ أَفْوَاهُكُمْ بِالْفِدَامِ، وَإِنَّ أَوَّلَ مَا يُبِينُ" , وَقَالَ بِوَاسِطٍ" يُتَرْجِمُ" , قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا دِينُنَا؟ قَالَ:" هَذَا دِينُكُمْ، وَأَيْنَمَا تُحْسِنْ يَكْفِكَ" .
حضرت معاویہ بہزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اتنی مرتبہ (اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر کہا) قسم کھائی تھی (کہ آپ کے پاس نہیں آؤں گا، اب میں آپ کے پاس آگیا ہوں تو) مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کے ساتھ بھیجا ہے، پوچھا اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یوں کہوں کہ میں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا دیا اور اس کے لئے یکسو ہوگیا اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور یاد رکھو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے قابل احترام ہے۔ یہی دونوں چیزیں مددگار ہیں اور اللہ اس شخص کی توبہ قبول نہیں کرتا جو اسلام قبول کرنے کے بعد یا مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں کے پاس آنے کے بعد دوبارہ شرک میں مبتلا ہوجائے۔ یہ کیا معاملہ ہے کہ میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر جہنم سے بچا رہا ہوں، یاد رکھو! میرا پروردگار مجھے بتائے گا اور مجھ سے پوچھے گا کہ کیا آپ نے میرے بندوں تک میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ اور میں عرض کروں گا کہ پروردگار! میں نے ان تک پیغام دیا تھا، یاد رکھو! تم میں سے جو حاضر ہیں: وہ غائب تک یہ بات پہنچا دیں۔ قیامت کے دن جب تم لوگ پیش ہوں گے تو تمہارے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور سب سے پہلے جو چیز بولے گی وہ ران ہوگی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا یہ ہمارا دین ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارا دین ہے اور تم جہاں بھی اچھا کام کرو گے وہ تمہاری کفایت کرے گا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا بهز ، حدثني ابي ، عن جدي ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " في كل إبل سائمة، في كل اربعين ابنة لبون، لا تفرق إبل عن حسابها، من اعطاها مؤتجرا، فله اجرها، ومن منعها، فإنا آخذوها وشطر إبله، عزمة من عزمات ربنا تبارك وتعالى , لا يحل لآل محمد منها شيء" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " فِي كُلِّ إِبِلٍ سَائِمَةٍ، فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، لَا تُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا، مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ مَنَعَهَا، فَإِنَّا آخِذُوهَا وَشَطْرَ إِبِلِهِ، عَزْمَةً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى , لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ مِنْهَا شَيْء" .
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے سائمہ اونٹوں کی ہر چالیس تعداد پر ایک بنت لبون واجب ہوگی اور زکوٰۃ کے اس حساب سے کسی اونٹ کو الگ نہیں کیا جائے گا، جو شخص ثواب کی نیت سے خود ہی زکوٰۃ ادا کر دے تو اسے اس کا ثواب مل جائے گا اور جو شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا تو ہم اس سے جبراً بھی وصول کرسکتے ہیں، اس کے اونٹ کا حصہ ہمارے پروردگار کا فیصلہ ہے اور اس میں سے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ بھی حلال نہیں ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا بهز ، ويزيد , قال: اخبرنا بهز المعنى، حدثني ابي ، عن جدي ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إنه كان عبد من عباد الله، اعطاه الله مالا وولدا، وكان لا يدين الله دينا" , قال يزيد:" فلبث حتى ذهب عمر وبقي عمر، تذكر، فعلم ان لم يبتئر عند الله تبارك وتعالى خيرا، دعا بنيه , فقال: يا بني، اي اب تعلمون؟ قالوا: خيره يا ابانا , قال: فوالله، لا ادع عند رجل منكم مالا هو مني إلا انا آخذه منه، او لتفعلن ما آمركم به , قال: فاخذ منهم ميثاقا، قال: اما لا، فإذا مت، فخذوني فالقوني في النار، حتى إذا كنت حمما فدقوني , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده على فخذه كانه يقول: اسحقوني ثم ذروني في الريح، لعلي اضل الله! قال ففعل به ذلك ورب محمد حين مات" , قال:" فجيء به احسن ما كان، فعرض على ربه , فقال: ما حملك على النار؟ قال: خشيتك يا رباه , قال:" إني لاسمعن الراهبة , قال يزيد: اسمعك راهبا فتيب عليه" , قال بهز: فحدثت بهذا الحديث الحسن , وقتادة، وحدثانيه" فتيب عليه، او فتاب الله عز وجل عليه" شك يحيى.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَيَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا بَهْزٌ الْمَعْنَى، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّهُ كَانَ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، أَعْطَاهُ اللَّهُ مَالًا وَوَلَدًا، وَكَانَ لَا يَدِينُ اللَّهَ دِينًا" , قَالَ يَزِيدُ:" فَلَبِثَ حَتَّى ذَهَبَ عُمُرٌ وَبَقِيَ عُمُرٌ، تَذَكَّرَ، فَعَلِمَ أَنْ لَمْ يَبْتَئِرْ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَيْرًا، دَعَا بَنِيهِ , فقَالَ: يَا بَنِيَّ، أَيَّ أَبٍ تَعْلَمُونَ؟ قَالُوا: خَيْرَهُ يَا أَبَانَا , قَالَ: فَوَاللَّهِ، لَا أَدَعُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْكُمْ مَالًا هُوَ مِنِّي إِلَّا أَنَا آخِذُهُ مِنْهُ، أَوْ لَتَفْعَلُنَّ مَا آمُرُكُمْ بِهِ , قَالَ: فَأَخَذَ مِنْهُمْ مِيثَاقًا، قَالَ: أَمَّا لَا، فَإِذَا مُتُّ، فَخُذُونِي فَأَلْقُونِي فِي النَّارِ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ حُمَمًا فَدُقُّونِي , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِهِ كَأَنَّهُ يَقُولُ: اسْحَقُونِي ثُمَّ ذَرُّونِي فِي الرِّيحِ، لَعَلِّي أَضِلُّ اللَّهَ! قَالَ فَفُعِلَ بِهِ ذَلِكَ وَرَبِّ مُحَمَّدٍ حِينَ مَاتَ" , قَالَ:" فَجِيءَ بِهِ أَحْسَنَ مَا كَانَ، فَعُرِضَ عَلَى رَبِّهِ , فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى النَّارِ؟ قَالَ: خَشِيتُكَ يَا رَبَّاهُ , قَالَ:" إِنِّي لَأَسْمَعَنَّ الرَّاهِبَةَ , قَالَ يَزِيدُ: أَسْمَعُكَ رَاهِبًا فَتِيبَ عَلَيْهِ" , قَالَ بَهْزٌ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ الْحَسَنَ , وَقَتَادَةَ، وَحَدَّثَانِيهِ" فَتِيبَ عَلَيْهِ، أَوْ فَتَابَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ" شَكَّ يَحْيَى.
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پہلے زمانے میں ایک آدمی تھا جسے اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت اور اولاد سے نواز رکھا تھا، وقت گذرتا رہا حتیٰ کہ ایک زمانہ چلا گیا اور دوسرا زمانہ آگیا، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بچوں سے کہا کہ میرے بچو! میں تمہارے لئے کیسا باپ ثابت ہوا؟ انہوں نے کہا بہترین باپ، اس نے کہا کیا اب تم میری ایک بات مانوگے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! اس نے کہا دیکھو، جب میں مرجاؤں تو مجھے آگ میں جلا دینا اور کوئلہ بن جانے تک مجھے آگ ہی میں رہنے دینا، پھر اس کوئلے کو ہاون دستے میں اس طرح کوٹنا (ہاتھ کے اشارے سے بتایا) پھر جس دن ہوا چل رہی ہو، میری راکھ کو سمندر میں بہا دینا، شاید اس طرح میں اللہ کو نہ مل سکوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم! ان لوگوں نے اسی طرح کیا، لیکن وہ اسی لمحے اللہ کے قبضے میں تھا، اللہ نے اس سے پوچھا کہ اے ابن آدم! تجھے اس کام پر کس چیز نے ابھارا؟ اس نے کہا پروردگار! تیرے خوف نے، اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی برکت سے اس کی توبہ قبول فرما لی۔
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن بهز بن حكيم ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قلت: يا رسول الله، عوراتنا ما ناتي منها وما نذر؟ قال: " احفظ عورتك إلا من زوجتك، او ما ملكت يمينك" قلت: ارايت إن كان القوم بعضهم في بعض؟ قال:" إن استطعت ان لا يراها احد فلا يراها" قلت: ارايت إن كان احدنا خاليا؟ قال:" فالله تبارك وتعالى احق ان يستحيا من الناس" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ؟ قَالَ: " احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ، أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ" قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ؟ قَالَ:" إِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَاهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَاهَا" قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا؟ قَالَ:" فَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنَ النَّاسِ" .
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یارسول اللہ! ہم اپنی شرمگاہ کا کتنا حصہ چھپائیں اور اور کتنا چھوڑ سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی بیوی اور باندی کے علاوہ ہر ایک سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بعض لوگوں کے رشتہ دار ان کے ساتھ رہتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاں تک ممکن ہو کہ وہ تمہاری شرمگاہ نہ دیکھیں، تم انہیں مت دکھاؤ، میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات ہم میں سے کوئی شخص تنہا بھی تو ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔
حدثنا إسماعيل ، عن بهز بن حكيم ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت نبي الله صلى الله عليه وسلم يقول: " في كل إبل سائمة، في كل اربعين ابنة لبون، لا يفرق إبل عن حسابها، من اعطاها مؤتجرا، فله اجرها، ومن منعها، فإنا آخذوها منه وشطر ماله وقال مرة: إبله عزمة من عزمات ربنا، لا يحل لآل محمد منه شيء" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " فِي كُلِّ إِبِلٍ سَائِمَةٍ، فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، لَا يُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا، مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ مَنَعَهَا، فَإِنَّا آخِذُوهَا مِنْهُ وَشَطْرَ مَالِهِ وَقَالَ مَرَّةً: إِبِلِهِ عَزْمَةً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا، لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ مِنْهُ شَيْءٌ" .
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے سائمہ اونٹوں کی ہر چالیس تعداد پر ایک بنت لبون واجب ہوگی اور زکوٰۃ کے اس حساب سے کسی اونٹ کو الگ نہیں کیا جائے گا، جو شخص ثواب کی نیت سے خود ہی زکوٰۃ ادا کر دے تو اسے اس کا ثواب مل جائے گا اور جو شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا تو ہم اس سے جبراً بھی وصول کرسکتے ہیں، اس کے اونٹ کا حصہ ہمارے پروردگار کا فیصلہ ہے اور اس میں سے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ بھی حلال نہیں ہے۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا بهز بن حكيم ، عن ابيه ، عن جده : ان اخاه او عمه قام إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: جيراني بما اخذوا؟ فاعرض عنه، قال: جيراني بما اخذوا؟ فاعرض عنه، ثم قال: جيراني بما اخذوا؟ فاعرض عنه، فقال: لئن قلت ذلك، لقد زعم الناس ان محمدا ينهى عن الغي، ويستخلي به! فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما قال؟" فقام اخوه، او ابن اخيه , فقال: يا رسول الله، إنه إنه , فقال:" اما لقد قلتموها او قال قائلكم؟ ولئن كنت افعل ذلك، إنه لعلي وما هو عليكم، خلوا له عن جيرانه" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ : أَنَّ أَخَاهُ أَوْ عَمَّهُ قَامَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَال: جِيرَانِي بِمَا أُخِذُوا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، قَالَ: جِيرَانِي بِمَا أُخِذُوا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: جِيرَانِي بِمَا أُخِذُوا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فقَالَ: لَئِنْ قُلْتُ ذَلكَ، لَقَدْ زَعَمَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَنْهَى عَنِ الْغَيِّ، وَيَسْتَخْلِي بِهِ! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا قَالَ؟" فَقَامَ أَخُوهُ، أَوْ ابْنُ أَخِيهِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ إِنَّهُ , فَقَالَ:" أَمَا لَقَدْ قُلْتُمُوهَا أَوْ قَالَ قَائِلُكُمْ؟ وَلَئِنْ كُنْتُ أَفْعَلُ ذَلِكَ، إِنَّهُ لَعَلَيَّ وَمَا هُوَ عَلَيْكُمْ، خَلُّوا لَهُ عَنْ جِيرَانِهِ" .
حضرت معاویہ بہزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد یا چچا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پڑوسیوں کو کیوں پکڑا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سے اعراض کیا، دو مرتبہ اسی طرح ہوا پھر والد یا چچا نے کہا کہ بخدا! اگر آپ ایسا کرلیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ آپ ایک کام کا حکم دیتے ہیں اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ بولتا جا رہا تھا اور میں اپنی چادر گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صاحب کیا کہہ رہے تھے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ کہہ رہا تھا اگر آپ ایسا کرلیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ آپ ایک کام کا حکم دیتے ہیں اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا لوگ ایسی بات کہہ سکتے ہیں، اگر میں نے ایسا کیا بھی تو اس کا اثر مجھ پر ہوگا، ان پر تو کچھ نہیں ہوگا، اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔