حدثنا عفان , وبهز , قالا: حدثنا ابو عوانة ، حدثنا قتادة , قال بهز: عن قتادة، عن زرارة بن اوفى ، عن عمران بن حصين ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خير امتي القرن الذي بعثت فيهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم" , قال: والله اعلم اذكر الثالث ام لا؟" ثم ينشا قوم يشهدون ولا يستشهدون، وينذرون ولا يوفون، ويخونون ولا يؤتمنون، ويفشو فيهم السمن" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , وَبَهْزٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , قَالَ بَهْزٌ: عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِي بُعِثْتُ فِيهِمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ" , قَالَ: وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَذَكَرَ الثَّالِثَ أَمْ لَا؟" ثُمَّ يَنْشَأُ قَوْمٌ يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَنْذُرُونَ وَلَا يُوفُونَ، وَيَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَفْشُو فِيهِمْ السِّمَنُ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس امت کا سب سے بہترین زمانہ تو وہ ہے جس میں مجھے مبعوث کیا گیا ہے، پھر اس کے بعد والوں کا زمانہ ہے، پھر ایک ایسی قوم آئے گی جو منت مانے گی لیکن پوری نہیں کرے گی، خیانت کرے گی، امانت دار نہ ہوگی، گواہی دینے کے لئے تیار ہوگی گو کہ اس سے گواہی نہ مانگی جائے اور ان میں موٹاپا عام ہوجائے گا۔
حدثنا عفان ، حدثنا ابان يعني العطار ، حدثنا يحيى بن ابي كثير ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين : ان امراة من جهينة اتت نبي الله صلى الله عليه وسلم , فقالت له: إني اصبت حدا فاقمه علي، وهي حامل، فامر بها ان يحسن إليها حتى تضع، فلما وضعت جيء بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فامر بها، فشكت عليها ثيابها، ثم رجمها، ثم صلى عليها، فقال عمر: يا نبي الله، تصلي عليها وقد زنت؟! قال: " لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين من اهل المدينة لوسعتهم، وهل وجدت افضل من ان جادت بنفسها لله؟!" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ يَعْنِي الْعَطَّارَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ : أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ لَهُ: إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، وَهِيَ حَامِلٌ، فَأَمَرَ بِهَا أَنْ يُحْسَنَ إِلَيْهَا حَتَّى تَضَعَ، فَلَمَّا وَضَعَتْ جِيءَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهَا، فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ رَجَمَهَا، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا، فَقَالَ عُمَرُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، تُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ زَنَتْ؟! قَالَ: " لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلَّهِ؟!" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بدکاری کا اعتراف کرلیا اور کہنے لگی کہ میں امید سے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سرپرست کو بلا کر اس سے فرمایا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور جب یہ بچے کو جنم دے چکے تو مجھے بتانا، اس نے ایسا ہی کیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اس عورت کے جسم پر اچھی طرح کپڑے باندھ دیئے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے رجم کردیا گیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ نے اسے رجم بھی کیا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھا رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ ستر اہل مدینہ پر تقسیم کردی جائے تو ان کے لئے بھی کافی ہوجائے اور تم نے اس سے افضل بھی کوئی چیز دیکھی ہے کہ اس نے اپنی جان کو اللہ کے لئے قربان کردیا؟
حضرت عمران رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ غصے میں منت نہیں ہوتی اور اس کا کفارہ وہی ہوتا ہے جو کفارہ قسم کا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، محمد بن الزبير متروك ، وأبوه مجهول، وفيه رجل مبهم
حضرت عمران رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ غصے میں منت نہیں ہوتی اور اس کا کفارہ وہی ہوتا ہے جو کفارہ قسم کا ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا ثابت , ان عمران بن حصين حدث , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الحياء خير كله" , قال بشير بن كعب: إن منه ضعفا، فغضب عمران , فقال: لا اراني احدث , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" الحياء خير كله" , وتقول إن منه ضعفا! قال: فجفاه واراد ان لا يحدثه، فقيل له: إنه كما تحب , حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، عن حميد ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين ، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ , أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ حَدَّثَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ" , قَالَ بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ: إِنَّ مِنْهُ ضَعْفًا، فَغَضِبَ عِمْرَانُ , فَقَالَ: لَا أَرَانِي أُحَدِّثُ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّه" , وَتَقُولُ إِنَّ مِنْهُ ضَعْفًا! قَالَ: فَجَفَاهُ وَأَرَادَ أَنْ لَا يُحَدِّثَهُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ كَمَا تُحِبُّ , حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء ہمیشہ خیر ہی لاتی ہے، یہ حدیث ان سے سن کر بشیر بن کعب کہنے لگے کہ حکمت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حیاء سے وقاروسکینت پیدا ہوتی ہے، حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کررہا ہوں اور تم اپنے صحیفوں کی بات کررہے ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، ثابت البناني لم يسمع من عمران لكنه توبع
حدثنا عفان حدثنا حماد عن حميد عن الحسن عن عمران بن حصين عن النبي صلى الله عليه وسلم مثلهحَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حُمَيْدٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، الحسن لم يسمع من عمران
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن علي بن زيد ، قال: سمعت ابا نضرة ، قال: مر على مسجدنا عمران بن حصين ، فقمت إليه فاخذت بلجامه، فسالته عن الصلاة في السفر، فقال:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحج، فكان يصلي ركعتين حتى ذهب، وابو بكر ركعتين حتى ذهب، وعمر ركعتين حتى ذهب، وعثمان ست سنين او ثمان، ثم اتم الصلاة بمنى اربعا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَضْرَةَ ، قَالَ: مَرَّ عَلَى مَسْجِدِنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَأَخَذْتُ بِلِجَامِهِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ الصَّلَاةِ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ، فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ حَتَّى ذَهَبَ، وَأَبُو بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى ذَهَبَ، وَعُمَرُ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى ذَهَبَ، وَعُثْمَانُ سِتَّ سِنِينَ أَوْ ثَمَانٍ، ثُمَّ أَتَمَّ الصَّلَاةَ بِمِنًى أَرْبَعًا" .
ابونضرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ہماری مسجد کے پاس سے گذرے، میں ان کی طرف بڑھا اور ان کی سواری کی لگام پکڑ کر ان سے نماز سفر کے متعلق پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لئے نکلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپسی تک دو دو رکعتیں پڑھتے رہے، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کیا، چھ یا آٹھ سال تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کیا، اس کے بعد وہ منٰی میں چار رکعتیں پڑھنے لگے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل على بن زيد
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن خالد ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين ، قال: " صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر او العصر ثلاث ركعات، ثم سلم" ، فقال رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يقال له: الخرباق: اقصرت الصلاة؟ فسال النبي صلى الله عليه وسلم فإذا هو كما قال، فصلى ركعة، ثم سلم، ثم سجد سجدتين، ثم سلم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ أَوْ الْعَصْرَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ سَلَّمَ" ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ: الْخِرْبَاقُ: أَقُصِرَتْ الصَّلَاةُ؟ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ كَمَا قَالَ، فَصَلَّى رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ.
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی تین رکعتوں پر ہی سلام پھیر دیا اور سلام پھیر کر گھر چلے گئے، ایک آدمی جس کا نام " خرباق " تھا اور اس کے ہاتھ کچھ زیادہ ہی لمبے تھے، اٹھ کر گیا اور " یا رسول اللہ " کہہ کر پکارا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو اس نے بتایا کہ آپ نے تین رکعتیں پڑھائی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور لوگوں سے پوچھا کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھائی اور سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کئے اور سلام پھیر دیا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، قال: سمعت زرارة بن اوفى يحدث , عن عمران بن حصين , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صلى الظهر، فجعل رجل يقرا خلفه: ب سبح اسم ربك الاعلى فلما انصرف، قال:" ايكم قرا او ايكم القارئ؟" فقال رجل: انا , قال: " قد ظننت ان بعضكم خالجنيها" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَةَ بْنَ أَوْفَى يُحَدِّثُ , عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى الظُّهْرَ، فَجَعَلَ رَجُلٌ يَقْرَأُ خَلْفَهُ: بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" أَيُّكُمْ قَرَأَ أَوْ أَيُّكُمْ الْقَارِئُ؟" فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا , قَالَ: " قَدْ ظَنَنْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی، مقتدیوں میں سے ایک آدمی نے سبح اسم ربک الاعلی والی سورت پڑھی، نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم میں سے سبح اسم ربک الاعلی کس نے پڑھی ہے؟ ایک آدمی نے کہا میں نے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھ گیا تھا کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جھگڑ رہا ہے۔