حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن سماك ، عن جابر بن سمرة ، قال: مات بغل، وقال: حماد بن سلمة ناقة، عند رجل، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم يستفتيه، فزعم جابر بن سمرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لصاحبها: " اما لك ما يغنيك عنها؟" قال: لا، قال:" اذهب فكلها" ، قال ابو عبد الرحمن: الصواب ناقة.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: مَاتَ بَغْلٌ، وَقَالَ: حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ نَاقَةٌ، عِنْدَ رَجُلٍ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِيهِ، فَزَعَمَ جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِصَاحِبِهَا: " أَمَا لَكَ مَا يُغْنِيكَ عَنْهَا؟" قَالَ: لَا، قَالَ:" اذْهَبْ فَكُلْهَا" ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الصَّوَابُ نَاقَةٌ.
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حرہ میں ایک خاندان آباد تھا جس کے افراد غریب تھے محتاج تھے ان کے قریب ان کی یا کسی اور کی اونٹنی مرگئی ایک آدمی ان کے پاس اس کا حکم پوچھنے کے لئے آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہیں اس سے بےنیاز کردے اس نے کہا نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ کھانے کی رخصت دیدی۔ (اضطراری حالت کی وجہ سے)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، شريك سيئ الحفظ وقد توبع، وهذا الحديث قد تفرد به سماك، فهو ممن لا يحتمل تفرده فى مثل هذه الأبواب
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک آدمی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھتے ہوئے سنا ہے کہ کیا میں ان کپڑوں میں نماز پڑھ سکتا ہوں جن میں اپنی بیوی کے پاس جاتاہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں الاّ یہ کہ تمہیں کوئی اس پر دھبہ نظر آئے تو اسے دھو لو۔
حكم دارالسلام: هذا الحديث موقوف على الصحيح، وفي سنده عبدالله بن ميمون، فهو مجهول لكنه توبع
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جب فرض نماز پڑھاتے تھے تو نہ بہت زیادہ لمبی اور نہ بہت زیادہ مختصر بلکہ درمیانی نماز پڑھاتے تھے اور نماز عشاء کو ذرا موخر کردیتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف مسند المكثرين من الضحابة الضعف أيوب بن جابر لكنه توبع
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا سليمان بن قرم ، عن سماك ، عن جابر بن سمرة ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " يخطب قائما"، فمن حدثك انه رآه يخطب إلا قائما، فقد كذب، ولكنه:" ربما خرج وراى في الناس قلة فجلس، ثم يثوبون، ثم يقوم فيخطب قائما" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ قَرْمٍ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَخْطُبُ قَائِمًا"، فَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ رَآهُ يَخْطُبُ إِلَّا قَائِمًا، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَكِنَّهُ:" رُبَّمَا خَرَجَ وَرَأَى فِي النَّاسِ قِلَّةً فَجَلَسَ، ثُمَّ يَثُوبُونَ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ قَائِمًا" .
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے اس لئے اگر تم سے کوئی شخص یہ بیان کرتا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی اور صورت میں دیکھا ہے تو وہ غلط بیان کرتا ہے۔ البتہ کبھی کبھار یہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے آتے اور لوگوں کی تعداد کم نظر آتی تو بیٹھ جاتے جب لوگ آجاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مکہ مکرمہ میں ایک پتھر کو پہچانتا جو مجھے قبل از بعثت مجھے سلام کرتا تھا میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔
حدثنا عبد الله بن محمد وسمعته انا من عبد الله بن محمد، حدثنا حاتم بن إسماعيل ، عن المهاجر بن مسمار ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، قال: كتبت إلى جابر بن سمرة مع غلامي اخبرني بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فكتب إلي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة عشية رجم الاسلمي يقول: " لا يزال الدين قائما حتى تقوم الساعة، او يكون عليكم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش" . وسمعته يقول:" عصبة المسلمين يفتتحون البيت الابيض، بيت كسرى وآل كسرى" . وسمعته يقول:" إن بين يدي الساعة كذابين فاحذروهم" . وسمعته يقول: " إذا اعطى الله احدكم خيرا، فليبدا بنفسه واهل بيته" . وسمعته يقول: " انا فرطكم على الحوض" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عَبِدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ الْمُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ مَعَ غُلَامِي أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيَّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةٍ عَشِيَّةَ رَجْمِ الْأَسْلَمِيِّ يَقُولُ: " لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ" . وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" عُصْبَةُ الْمُسْلِمِينَ يَفْتَتِحُونَ الْبَيْتَ الْأَبْيَضَ، بَيْتَ كِسْرَى وَآلِ كِسْرَى" . وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ فَاحْذَرُوهُمْ" . وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " إِذَا أَعْطَى اللَّهُ أَحَدَكُمْ خَيْرًا، فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ" . وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ" .
عامر بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے غلام کے ہاتھ خط لکھ کر حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پوچھی تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلمی کو رجم کیا اس جمعہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دین اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ بارہ خلیفہ نہ ہوجائیں جو سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت نکلے گی اور وہ کسری آل کسری کا سفید خزانہ نکال لیں گے۔
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن قریب کذاب آکر رہیں گے تم ان سے بچنا۔
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو کوئی خیر عطا فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ سے اس کا آغاز کرنا چاہیے۔
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ میں حوض کوثر پر تمہارا منتظر بھی ہوں گا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مجلس میں شریک تھا میرے والد حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بےحیائی اور بےہودہ گوئی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسلام کے اعتبار سے لوگوں میں عمدہ شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے عمدہ ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مجھے اپنی امت پر تین چیزوں کا اندیشہ ہے، ستاروں سے بارش مانگنا، بادشاہوں کا ظلم کرنا اور تقدیر کی تکذیب۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا ، محمد بن القاسم ضعيف جدا، متهم