حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود ، قال: قال ابو موسى : لقد ذكرنا علي بن ابي طالب رضي الله عنه صلاة كنا نصليها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إما نسيناها، وإما تركناها عمدا، يكبر كلما ركع، وكلما رفع، وكلما سجد .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَن الْأَسْوَدِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى : لَقَدْ ذَكَّرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَاةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِمَّا نَسِينَاهَا، وَإِمَّا تَرَكْنَاهَا عَمْدًا، يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَكَعَ، وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَكُلَّمَا سَجَدَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی ہے جو ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے جسے ہم بھلاچکے تھے یا عمداً چھوڑ چکے تھے وہ ہر مرتبہ رکوع کرتے وقت، سر اٹھاتے وقت اور سجدے میں جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو کسی کی تعریف (اس کے منہ پر) کرتے ہوئے اور اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے دیکھا تو فرمایا تم نے اس کی کمر توڑ ڈالی۔
حدثنا ابو عبد الرحمن مؤمل ، قال: حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، حدثنا عاصم ، عن ابي وائل ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم اجعل عبيدا ابا عامر فوق اكثر الناس يوم القيامة" ، قال: فقتل عبيد يوم اوطاس، وقتل ابو موسى قاتل عبيد، قال: قال ابو وائل: ارجو ان لا يجمع الله عز وجل بين قاتل عبيد، وبين ابي موسى في النار.حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُؤَمَّلٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَن أَبِي وَائِلٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ عُبَيْدًا أَبَا عَامِرٍ فَوْقَ أَكْثَرِ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" ، قَالَ: فَقُتِلَ عُبَيْدٌ يَوْمَ أَوْطَاسٍ، وَقَتَلَ أَبُو مُوسَى قَاتِلَ عُبَيْدٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو وَائِلٍ: أَرْجُو أَنْ لَا يَجْمَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَ قَاتِلِ عُبَيْدٍ، وَبَيْنَ أَبِي مُوسَى فِي النَّارِ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! عبید ابوعامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں پر فوقیت عطاء فرما عبید رضی اللہ عنہ غزوہ اوطاس کے موقع پر شہید ہوگئے تھے اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان کے قاتل کو قتل کردیا تھا۔ ابو وائل کہتے ہیں مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عبید کے قاتل اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو جہنم میں جمع نہیں کرے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف مؤمل
حدثنا ابو عبد الرحمن عبد الله بن يزيد ، حدثنا المسعودي ، عن عدي بن ثابت ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: لقي عمر اسماء بنت عميس، رضي الله عنهما، فقال: نعم القوم انتم، لولا انكم سبقتم بالهجرة، ونحن افضل منكم، قالت: كنتم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلم جاهلكم، ويحمل راجلكم، وفررنا بديننا، فقالت: لا انتهي حتى ادخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخلت، فذكرت ما قال لها عمر رضي الله عنه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بل لكم الهجرة مرتين: هجرتكم إلى الحبشة، وهجرتكم إلى المدينة" .حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَن عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: لَقِيَ عُمَرُ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ سَبَقْتُمْ بِالْهِجْرَةِ، وَنَحْنُ أَفْضَلُ مِنْكُمْ، قَالَتْ: كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُ جَاهِلَكُمْ، وَيَحْمِلُ رَاجِلَكُمْ، وَفَرَرْنَا بِدِينِنَا، فَقَالَتْ: لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَتْ، فَذَكَرَتْ مَا قَالَ لَهَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَلْ لَكُمْ الْهِجْرَةُ مَرَّتَيْنِ: هِجْرَتُكُمْ إِلَى الْحَبَشَةِ، وَهِجْرَتُكُمْ إِلَى الْمَدِينَةِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت اسماء رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس آئیں تو مدینہ منورہ کے کسی راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کا آمنا سامنا ہوگیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا حبشہ جانے والی ہو؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ بہترین قوم تھے اگر تم سے ہجرت مدینہ نہ چھوٹتی انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ تمہارے پیدل چلنے والوں کو سواری دیتے تمہارے جاہل کو علم سکھاتے اور ہم لوگ اس وقت اپنے دین کو بچانے کے لئے نکلے تھے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کئے بغیر اپنے گھر واپس نہ جاؤں گی چناچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ساری بات بتادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری دو ہجرتیں ہوئیں ایک مدینہ منورہ کی طرف اور دوسری ہجرت حبشہ کی جانب۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 4230، م: 2503، المسعودي اختلط
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ تیزی سے لے کر گذرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سکون کے ساتھ چلنا چاہئے۔
حدثنا القاسم بن مالك ابو جعفر ، حدثنا عاصم بن كليب ، عن ابي بردة ، قال: دخلت على ابي موسى في بيت ابنة ام الفضل، فعطست ولم يشمتني، وعطست فشمتها، فرجعت إلى امي، فاخبرتها، فلما جاءها، قالت: عطس ابني عندك، فلم تشمته، وعطست فشمتها! فقال: إن ابنك عطس، فلم يحمد الله تعالى، فلم اشمته، وإنها عطست، فحمدت الله تعالى، فشمتها، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا عطس احدكم، فحمد الله، فشمتوه، وإن لم يحمد الله عز وجل، فلا تشمتوه" ، فقالت: احسنت احسنت.حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ أَبُو جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى فِي بَيْتِ ابْنَةِ أُمِّ الْفَضْلِ، فَعَطَسْتُ وَلَمْ يُشَمِّتْنِي، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى أُمِّي، فَأَخْبَرْتُهَا، فَلَمَّا جَاءَهَا، قَالَتْ: عَطَسَ ابْنِي عِنْدَكَ، فَلَمْ تُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَّهَا! فَقَالَ: إِنَّ ابْنَكِ عَطَسَ، فَلَمْ يَحْمَدْ اللَّهَ تَعَالَى، فَلَمْ أُشَمِّتْهُ، وَإِنَّهَا عَطَسَتْ، فَحَمَدَتْ اللَّهَ تَعَالَى، فَشَمَّتُّهَا، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ، فَحَمِدَ اللَّهَ، فَشَمِّتُوهُ، وَإِنْ لَمْ يَحْمَدْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَا تُشَمِّتُوهُ" ، فَقَالَتْ: أَحْسَنْتَ أَحْسَنْتَ.
ابوبردہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بنت ام الفضل کے گھر میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ موجود تھے میں بھی وہاں چلا گیا مجھے چھینک آئی تو انہوں نے مجھے اس کا جواب نہیں دیا اور خاتون کو چھینک آئی تو انہوں نے جواب دیا، میں نے اپنی والدہ کے پاس آکر انہیں یہ بات بتائی جب والد صاحب آئے تو انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے کو آپ کے سامنے چھینک آئی تو آپ نے جواب نہیں دیا اور اس خاتون کو چھینک آئی تو جواب دے دیا؟ انہوں نے فرمایا کہ تمہارے صاحبزادے کو جب چھینک آئی تو اس نے الحمدللہ نہیں کہا تھا لہٰذا میں نے اسے جواب نہیں دیا اور اسے چھینک آئی تو اس نے الحمدللہ کہا تھا لہٰذا میں نے اسے جواب بھی دے دیا کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص چھینکنے کے بعد الحمدللہ کہے تو اسے جواب دو اور اگر وہ الحمدللہ نہ کہے تو اسے جواب بھی مت دو اس پر والدہ نے کہا آپ نے خوب کیا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا کو پسند کرتا ہے اس کی آخرت کا نقصان ہوجاتا ہے اور جو شخص آخرت کو پسند کرتا ہے اس کی دنیا کا نقصان ہوجاتا ہے تم باقی رہنے والی چیز کو فناء ہوجانے والی چیز پر ترجیح دو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، المطلب ابن عبدالله لا يعرف له سماع من الصحابة
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا کو پسند کرتا ہے اس کی آخرت کا نقصان ہوجاتا ہے اور جو شخص آخرت کو پسند کرتا ہے اس کی دنیا کا نقصان ہوجاتا ہے تم باقی رہنے والی چیز کو فناء ہوجانے والی چیز پر ترجیح دو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، المطلب بن عبدالله لا يعرف له سماع من الصحابة
حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا، وابا موسى، إلى اليمن، فقال: " بشروا ولا تنفروا، ويسروا ولا تعسروا، وتطاوعا ولا تختلفا" ، قال: فكان لكل واحد منهما فسطاطا يكون فيه، يزور احدهما صاحبه. قال ابو عبد الرحمن: اظنه عن ابي موسى .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا، وَأَبَا مُوسَى، إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: " بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا" ، قَالَ: فَكَانَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فُسْطَاطًا يَكُونُ فِيهِ، يَزُورُ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَظُنُّهُ عَن أَبِي مُوسَى .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا خوشخبری دینا، نفرت مت پھیلانا، آسانی پیدا کرنا، مشکلات میں نہ ڈالنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا، چناچہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا خیمہ تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے ملنے کے لئے آتے رہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6124، م: 1733، رجاله ثقات
حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن عبد الملك بن عمير ، عن ابي بردة بن ابي موسى ، عن ابي موسى ، قال: مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشتد مرضه، فقال:" مروا ابا بكر يصلي بالناس"، فقالت عائشة: يا رسول الله، إن ابا بكر رجل رقيق، متى يقوم مقامك لا يستطيع ان يصلي بالناس، قال: " مروا ابا بكر، فليصل بالناس، فإنكن صواحبات يوسف" ، فاتاه الرسول، فصلى ابو بكر بالناس في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم..حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَن زَائِدَةَ ، عَن عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ، مَتَى يَقُومُ مَقَامَكَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، قَالَ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ" ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ بِالنَّاسِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری بڑھتی ہی چلی گئی تو فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھادیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوبکر بڑے رقیق القلب آدمی ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھادیں، تم تو یوسف والیاں ہو چناچہ قاصد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طبیبہ ہی میں انہوں نے نماز پڑھائی۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔