حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر یہ فرماتے اے ہمارے پروردگار اللہ! تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں زمین و آسمان کے بھرپور ہونے کے برابر اور اس کے علاوہ جن چیزوں کو آپ چاہیں ان کے بھرپور ہونے کے برابر۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ليث ، عن مدرك ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو فيقول: " اللهم طهرني بالثلج والبرد والماء البارد، اللهم طهر قلبي من الخطايا كما طهرت الثوب الابيض من الدنس، وباعد بيني وبين ذنوبي كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم إني اعوذ بك من قلب لا يخشع، ونفس لا تشبع، ودعاء لا يسمع، وعلم لا ينفع، اللهم إني اعوذ بك من هؤلاء الاربع، اللهم إني اسالك عيشة تقية، وميتة سوية، ومردا غير مخز" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا لَيْثٌ ، عَنْ مُدْرِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ طَهِّرْنِي بِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَالْمَاءِ الْبَارِدِ، اللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا طَهَّرْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ ذُنُوبِي كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَنَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَدُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ، وَعِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِيشَةً تَقِيَّةً، وَمِيتَةً سَوِيَّةً، وَمَرَدًّا غَيْرَ مُخْزٍ" .
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء فرمایا کرتے تھے اے! مجھے برف اولوں اور ٹھنڈے پانی سے پاکیزگی عطاء فرما، اے اللہ! میرے قلب کو لغزشات سے اس طرح پاک فرما جیسے سفیدکپڑے کو میل کچیل سے صاف کرتا ہے میرے اور میرے گناہوں کے درمیان مشرق اور مغرب جتنا فاصلہ حائل فرمادے اے اللہ! میں خشوع سے خالی دل، سیراب نہ ہونے والے نفس، غیر مقبول دعاء اور غیرنافع علم سے آپ کی پناہ میں آتاہوں اے اللہ! میں ان چاروں چیزوں سے آپ کی پناہ میں آتاہوں، اے اللہ! میں آپ سے تقویٰ والی زندگی، عمدہ موت اور شرمندگی سے پاک لوٹائے جانے کا سوال کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ليث ضعيف، ومدرك بن عمارة مستور
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن القاسم الشيباني ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، قال: قدم معاذ اليمن او قال: الشام فراى النصارى تسجد لبطارقتها واساقفتها، فروى في نفسه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم احق ان يعظم، فلما قدم، قال: يا رسول الله، رايت النصارى تسجد لبطارقتها واساقفتها، فروات في نفسي انك احق ان تعظم، فقال: " لو كنت آمر احدا ان يسجد لاحد، لامرت المراة ان تسجد لزوجها، ولا تؤدي المراة حق الله عز وجل عليها كله حتى تؤدي حق زوجها عليها كله، حتى لو سالها نفسها وهي على ظهر قتب لاعطته إياه" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ القَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاذٌ الْيَمَنَ أَوْ قَالَ: الشَّامَ فَرَأَى النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّى فِي نَفْسِهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ يُعَظَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّأْتُ فِي نَفْسِي أَنَّكَ أَحَقُّ أَنْ تُعَظَّمَ، فَقَالَ: " لَوْ كُنْتُ آمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَلَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهَا كُلَّهُ حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا عَلَيْهَا كُلَّهُ، حَتَّى لَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا وَهِيَ عَلَى ظَهْرِ قَتَبٍ لَأَعْطَتْهُ إِيَّاهُ" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن پہنچے تو وہاں کے عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کو سجدہ کرتے ہیں ان کے دل میں خیال آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ان سے بھی زیادہ تعظیم کے مستحق ہیں لہٰذایمن سے واپس آکر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے عیسائیوں کو اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے دیکھا ہے میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ان سے زیادہ تعظیم کے مستحق تو آپ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے اور کوئی عورت اس وقت تک مکمل طور پر حقوق اللہ کو ادا نہیں کرسکتی جب تک اپنے شوہر کے مکمل حقوق ادانہ کرے حتیٰ کہ اگر مرد اس سے اپنی خواہش کی تکمیل کا اس وقت ارادہ کرے جبکہ وہ توے پر روٹی پکار رہی ہوتب بھی اس کی بات پوری کرے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ البتہ اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی تعظیم کا یہی طریقہ تھا میں نے کہا کہ پھر تو ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے جس طرح اپنی کتابوں میں تحریف کردی ہے اسی طرح اپنے انبیاء پر جھوٹ بھی باندھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے میں اس سے بہتر چیز یعنی سلام عطاء فرمادیا ہے جو اہل جنت کا طریقہ تعظیم ہے۔
حكم دارالسلام: حديث جيد، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه، اضطرب فيه القاسم الشيباني
حدثنا علي ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن القاسم بن عوف رجل من اهل الكوفة احد بني مرة بن همام، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ابيه ، عن معاذ بن جبل ، قال: إنه اتى الشام، فراى النصارى، فذكر معناه، إلا انه قال: فقلت: لاي شيء تصنعون هذا؟ قالوا: هذا كان تحية الانبياء قبلنا، فقلت: نحن احق ان نصنع هذا بنبينا، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " إنهم كذبوا على انبيائهم كما حرفوا كتابهم، إن الله عز وجل ابدلنا خيرا من ذلك السلام تحية اهل الجنة" .حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْفٍ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ أَحَدِ بَنِي مُرَّةَ بْنِ هَمَّامٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: إِنَّهُ أَتَى الشَّامَ، فَرَأَى النَّصَارَى، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَقُلْتُ: لِأَيِّ شَيْءٍ تَصْنَعُونَ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا كَانَ تَحِيَّةَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلَنَا، فَقُلْتُ: نَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَصْنَعَ هَذَا بِنَبِيِّنَا، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُمْ كَذَبُوا عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ كَمَا حَرَّفُوا كِتَابَهُمْ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَبْدَلَنَا خَيْرًا مِنْ ذَلِكَ السَّلَامَ تَحِيَّةَ أَهْلِ الْجَنَّةِ" .
حكم دارالسلام: جيد دون قوله: إنهم كذبوا على إلى آخر الحديث، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه ، اضطرب فيه القاسم الشيباني
حدثنا يحيى ، عن شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتاه قوم بصدقتهم، صلى عليهم، فاتاه ابي بصدقته، فقال: " اللهم صل على آل ابي اوفى" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ، صَلَّى عَلَيْهِمْ، فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے دعاء فرماتے تھے ایک دن میں بھی اپنے والد کے مال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہم صل علی آل ابی اوفی۔
اسماعیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دی تھی؟ انہوں نے فرمایا ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنت میں لکڑی کے ایک محل کی خوشخبری دی تھی جس میں کوئی شوروشغب ہوگا اور نہ ہی کوئی تعب۔
حدثنا يحيى ، عن إسماعيل ، حدثنا عبد الله بن ابي اوفى ، قال: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطاف بالبيت، ثم خرج، فطاف بين الصفا، والمروة،، وجعلنا نستره من اهل مكة ان يرميه احد، او يصيبه بشيء، فسمعته يدعو على الاحزاب، يقول: " اللهم منزل الكتاب، سريع الحساب، هازم الاحزاب، اللهم اهزمهم وزلزلهم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ،، وَجَعَلْنَا نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَرْمِيَهُ أَحَدٌ، أَوْ يُصِيبَهُ بِشَيْءٍ، فَسَمِعْتُهُ يَدْعُو عَلَى الْأَحْزَابِ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، سَرِيعَ الْحِسَابِ، هَازِمَ الْأَحْزَابِ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لئے روانہ ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا پھر باہر نکل کر صفامروہ کے درمیان سعی کی ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مکہ سے بچاکرچل رہے تھے کہ کہیں کوئی مشرک انہیں تیر نہ ماردے یا انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچادے میں نے انہیں مشرکین کے لشکروں کے لئے بدعاء کرتے ہوئے سنا اے کتاب کو نازل کرنے والے اللہ! جلدی حساب لینے والے لشکروں کو شکست دینے والے، انہیں شکست سے ہمکنار فرما اور انہیں ہلا کر رکھ دے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا مالك بن مغول ، عن طلحة بن مصرف ، قال: قلت لعبد الله بن ابي اوفى : اوصى النبي صلى الله عليه وسلم بشيء؟ قال: لا، قلت: فكيف امر المسلمين بالوصية؟ قال: اوصى بكتاب الله عز وجل، قال مالك بن مغول: قال طلحة، وقال الهزيل بن شرحبيل: ابو بكر رضي الله عنه كان يتامر على وصي رسول الله صلى الله عليه وسلم! ود ابو بكر رضي الله عنه، انه وجد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عهدا، فخزم انفه بخزام .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى : أَوْصَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَكَيْفَ أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ بِالْوَصِيَّةِ؟ قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ: قَالَ طَلْحَةُ، وَقَالَ الْهُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ: أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَتَأَمَّرُ عَلَى وَصِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! وَدَّ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا، فَخُزِمَ أَنْفُهُ بِخِزَامٍ .
طلحہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت فرمائی ہے؟ انہوں نے فرمایا نہیں، میں نے کہا تو پھر انہوں نے مسلمانوں کو وصیت کا حکم کیسے دے دیا جبکہ خود وصیت کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی ہے (لیکن کسی کو کوئی خاص وصیت نہیں فرمائی ')
حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن إبراهيم ابي إسماعيل السكسكي ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، قال: اتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني لا اقرا القرآن، فمرني بما يجزئني منه، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " قل: الحمد لله، وسبحان الله، ولا إله إلا الله، والله اكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله"، قال: فقالها الرجل، وقبض كفه، وعد خمسا مع إبهامه، فقال: يا رسول الله، هذا لله تعالى، فما لنفسي؟ قال:" قل: اللهم اغفر لي، وارحمني، وعافني، واهدني، وارزقني"، قال: فقالها، وقبض على كفه الاخرى، وعد خمسا مع إبهامه، فانطلق الرجل، وقد قبض كفيه جميعا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لقد ملا كفيه من الخير" ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَبِي إِسْمَاعِيلَ السَّكْسَكِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَمُرْنِي بِمَا يُجْزِئُنِي مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُلْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، قَالَ: فَقَالَهَا الرَّجُلُ، وَقَبَضَ كَفَّهُ، وَعَدَّ خَمْسًا مَعَ إِبْهَامِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لِلَّهِ تَعَالَى، فَمَا لِنَفْسِي؟ قَالَ:" قُلْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَعَافِنِي، وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي"، قَالَ: فَقَالَهَا، وَقَبَضَ عَلَى كَفِّهِ الْأُخْرَى، وَعَدَّ خَمْسًا مَعَ إِبْهَامِهِ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ، وَقَدْ قَبَضَ كَفَّيْهِ جَمِيعًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ مَلَأَ كَفَّيْهِ مِنَ الْخَيْرِ" ..
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں قرآن کریم کا تھوڑا ساحصہ بھی یاد نہیں کرسکتا، اس لئے مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئے جو میرے لئے کافی ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الاباللہ اس نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے میرے لئے کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما اور مجھے رزق عطاء فرما، پھر وہ آدمی پلٹ کر چلا گیا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے بند کر رکھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص تو اپنے ہاتھ خیر سے بھر کر چلا گیا۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک غلام (لڑکا) آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ایک یتیم لڑکا ہے جس کی بیوی، ماں اور ایک یتیم بہن ہے آپ ہمیں ان چیزوں میں سے کھلائیے جو اللہ نے آپ کو کھلائی ہیں، اللہ آپ کو اپنے پاس سے اتنا دے کہ آپ راضی ہوجائیں پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! یہاں ایک لڑکا ہے جو قریب المرگ ہے اسے لا الہ الا اللہ کی تلقین کی جارہی ہے لیکن وہ اسے کہہ نہیں پارہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا وہ اپنی زندگی میں یہ کلمہ نہیں پڑھتا تھا؟ اس نے کہا کیوں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر موت کے وقت اسے کسی نے روک دیا۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ فائدہ۔ امام احمد کے صاحبزادے عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے یہ دونوں حدیثیں بیان نہیں کی ہیں البتہ کتاب میں لکھ دی تھیں اور انہیں کاٹ دیا تھا کیونکہ انہیں فائد بن عبدالرحمن کی احادیث پر اعتماد نہیں تھا اور ان کے نزدیک وہ متروک الحدیث تھا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه، وهذا إسناد ضيعف لضعف إبراهيم السكسكي- يزيد روى عن المسعودي بعد الاختلاط لكنه توبع
قال ابو عبد الرحمن: وكان في كتاب ابي: حدثنا يزيد ابن هارون ، اخبرنا فائد بن عبد الرحمن ، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، قال: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتاه غلام، فقال: يا رسول الله، إن هاهنا غلاما يتيما، له ام ارملة، واخت يتيمة، اطعمنا مما اطعمك الله تعالى، اعطاك الله مما عنده حتى ترضى، فذكر الحديث بطوله.قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَكَانَ فِي كِتَابِ أَبِي: حَدَّثَنَا يَزِيدُ ابْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا فَائِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ غُلَامٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَاهُنَا غُلَامًا يَتِيمًا، لَهُ أُمٌّ أَرْمَلَةٌ، وَأُخْتٌ يَتِيمَةٌ، أَطْعِمْنَا مِمَّا أَطْعَمَكَ اللَّهُ تَعَالَى، أَعْطَاكَ اللَّهُ مِمَّا عِنْدَهُ حَتَّى تَرْضَى، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فائد بن عبدالرحمن ضعيف جدا