حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا زيد بن اسلم ، ان عمر بن الخطاب ، قال لصهيب رضي الله عنهما:" لولا ثلاث خصال فيك، لم يكن بك باس، قال: وما هن، فوالله ما نراك تعيب شيئا؟ قال: اكتناؤك بابي يحيى وليس لك ولد، وادعاؤك إلى النمر بن قاسط وانت رجل الكن، وانك لا تمسك المال، قال: اما اكتنائي بابي يحيى، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كناني بها، فلا ادعها حتى القاه، واما ادعائي إلى النمر بن قاسط، فإني امرؤ منهم، ولكن استرضع لي بالايلة، فهذه اللكنة من ذاك، واما المال، فهل تراني انفق إلا في حق" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ لِصُهَيْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" لَوْلَا ثَلَاثُ خِصَالٍ فِيكَ، لَمْ يَكُنْ بِكَ بَأْسٌ، قَالَ: وَمَا هُنَّ، فَوَاللَّهِ مَا نَرَاكَ تَعِيبُ شَيْئًا؟ قَالَ: اكْتِنَاؤُكَ بِأَبِي يَحْيَى وَلَيْسَ لَكَ وَلَدٌ، وَادِّعَاؤُكَ إِلَى النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ وَأَنْتَ رَجُلٌ أَلْكَنُ، وَأَنَّكَ لَاَ تُمْسِكُ الْمَالَ، قَالَ: أَمَّا اكْتِنَائِي بِأَبِي يَحْيَى، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنَّانِي بِهَا، فَلَا أَدَعُهَا حَتَّى أَلْقَاهُ، وَأَمَّا ادِّعَائِي إِلَى النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ، فَإِنِّي امْرُؤٌ مِنْهُمْ، وَلَكِنْ اسْتُرْضِعَ لِي بِالَأَيْلَةِ، فَهَذِهِ اللُّكْنَةُ مِنْ ذَاكَ، وَأَمَّا الْمَالُ، فَهَلْ تُرَانِي أُنْفِقُ إِلَاَّ فِي حَقٍّ" .
زید بن اسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے سے فرمایا اگر تم میں تین چیزیں نہ ہوتی تو تم میں کوئی عیب نہ ہوتا انہوں نے پوچھا وہ کیا ہیں؟ کیونکہ ہم نے تو کبھی آپ کو کسی چیز میں عیب نکالتے ہوئے دیکھا ہی نہیں انہوں نے فرمایا ایک تو یہ کہ تم اپنی کنیت ابویحیی رکھتے ہو حالانکہ تمہارے یہاں کوئی اولاد ہی نہیں ہے دوسرا یہ کہ تم اپنی نسبت نمر بن قاسط کی طرف کرتے ہو جبکہ تمہاری زبان میں لکنت ہے اور تم مال نہیں رکھتے۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جہاں تک میری کنیت ابویحییٰ کا تعلق ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے لہٰذا اسے تو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ ان سے جا ملوں رہی نمر بن قاسط کی طرف میری نسبت تو یہ صحیح ہے کیونکہ میں ان ہی کا ایک فرد ہوں لیکن چونکہ میری رضاعت " ایلہ " میں ہوئی تھی اس وجہ سے یہ لکنت پیدا ہوگئی اور باقی رہا مال تو کیا کبھی آپ نے مجھے ایسی جگہ خرچ کرتے ہوئے دیکھا ہے جو ناحق ہو۔
حكم دارالسلام: هذا الأثر إسناده ضعيف على اضطراب فى متنه، وزيد بن أسلم لم يدرك عمر بن الخطاب
حدثنا وكيع ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن ناجية الخزاعي ، قال: وكان صاحب بدن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلت: كيف اصنع بما عطب من البدن؟ قال: " انحره، واغمس نعله في دمه، واضرب صفحته، وخل بين الناس وبينه، فلياكلوه" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ نَاجِيَةَ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: وَكَانَ صَاحِبَ بُدْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنَ الْبُدْنِ؟ قَالَ: " انْحَرْهُ، وَاغْمِسْ نَعْلَهُ فِي دَمِهِ، وَاضْرِبْ صَفْحَتَهُ، وَخَلِّ بَيْنَ النَّاسِ وَبَيْنَهُ، فَلْيَأْكُلُوهُ" .
حضرت ناجیہ رضی اللہ عنہ (جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کے ذمہ دار تھے) سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہدی کا کوئی اونٹ مرنے کے قریب ہوجائے تو کیا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فریاما اسے ذبح کردو اور اس کے نعل کو اس کے خون میں ڈبو کر اس کی پیشانی پر مل دو اور اسے لوگوں کے لئے چھوڑ دو تاکہ وہ اسے کھالیں۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن ناجية الخزاعي ، وكان صاحب بدن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلت: يا رسول الله، كيف اصنع بما عطب من الإبل او البدن؟ قال: " انحرها ثم الق نعلها في دمها، ثم خل عنها وعن الناس، فلياكلوها" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ نَاجِيَةَ الْخُزَاعِيِّ ، وَكَانَ صَاحِبَ بُدْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنَ الَإِبِلِ أَوْ الْبُدْنِ؟ قَالَ: " انْحَرْهَا ثُمَّ أَلْقِ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ خَلِّ عَنْهَا وَعَنِ النَّاسِ، فَلْيَأْكُلُوهَا" .
حضرت ناجیہ رضی اللہ عنہ (جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کے ذمہ دار تھے) سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہدی کا کوئی اونٹ مرنے کے کر قریب ہوجائے تو کیا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فریاما اسے ذبح کردو اور اس کے نعل کو اس کے خون میں ڈبو کر اس کی پیشانی پر مل دو اور اسے لوگوں کے لئے چھوڑ دو تاکہ وہ اسے کھالیں۔
حضرت فراسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں لوگوں سے سوال کرسکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اور اگر سوال کرنا ہی ہے تو نیک لوگوں سے کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة اثنين من رواته: مسلم بن مخشي، وابن الفراسي
حدثنا قتيبة بن سعيد ، قال عبد الله بن احمد: وكتب به إلي قتيبة، حدثنا ليث بن سعد ، عن عمرو بن الحارث ، عن يحيى بن ميمون الحضرمي ، ان ابا موسى الغافقي سمع، عقبة بن عامر الجهني يحدث على المنبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم احاديث، فقال ابو موسى: إن صاحبكم هذا لحافظ او هالك، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان آخر ما عهد إلينا ان قال: " عليكم بكتاب الله، وسترجعون إلى قوم يحبون الحديث عني، فمن قال علي ما لم اقل فليتبوا مقعده من النار، ومن حفظ عني شيئا فليحدثه" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قال عبد الله بن أحمد: وَكَتَبَ بِهِ إِلَيَّ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الْغَافِقِيّ سَمِعَ، عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يُحَدِّثُ عَلَى الْمِنْبَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: إِنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا لَحَافِظٌ أَوْ هَالِكٌ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ آخِرُ مَا عَهِدَ إِلَيْنَا أَنْ قَالَ: " عَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَسَتَرْجِعُونَ إِلَى قَوْمٍ يُحِبُّونَ الْحَدِيثَ عَنِّي، فَمَنْ قَالَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ حِفْظَ عَنِّي شَيْئًا فَلْيُحَدِّثْهُ" .
حضرت ابوموسی غافقی رضی اللہ عنہ نے حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کو منبر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کچھ احادیث بیان کرتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ تمہارا یہ ساتھی یا توحافظ ہے یا ہلاک ہونے والا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آخری وصیت جو فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ کتاب اللہ کو اپنے اوپر لازم پکڑو عنقریب تم ایک ایسی قوم کے پاس پہنچو گے جو میری نسبت سے حدیث کو محبوب رکھے گی یاد رکھو! جو شخص میری طرف ایسی بات کی نسبت کرتا ہے جو میں نے نہیں کہی اسے چاہیے کہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالے اور جو شخص میری حدیث کو اچھی طرح محفوظ کرلے اسے چاہئے کہ آگے بیان کردے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يحيى بن ميمون لم يسمعه من أبى موسى، بينهما راو مجهول، وقد اضطرب فيه
حدثنا قتيبة بن سعيد ، قال: عبد الله بن احمد: وكتب به إلي قتيبة، حدثنا مجمع بن يعقوب ، عن محمد بن إسماعيل بن مجمع ، قال: قيل لعبد الله بن ابي حبيبة : ما ادركت من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم وهو غلام حديث، قال:" جاءنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما إلى مسجدنا يعني مسجد قباء، قال: فجئنا، فجلسنا إليه، وجلس إليه الناس، قال فجلس ما شاء الله ان يجلس، ثم قام يصلي، فرايته يصلي في نعليه" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قال: عبد الله بن أحمد: وَكَتَبَ بِهِ إِلَيَّ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَعْقُوبَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَمِّعٍ ، قَالَ: قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ : مَا أَدْرَكْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ وَهُوَ غُلَامٌ حَدِيثٌ، قَالَ:" جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى مَسْجِدِنَا يَعْنِي مَسْجِدَ قُبَاءَ، قَالَ: فَجِئْنَا، فَجَلَسْنَا إِلَيْهِ، وَجَلَسَ إِلَيْهِ النَّاسُ، قَالَ فَجَلَسَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَجْلِسَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ" .
محمد بن اسماعیل کہتے ہیں کہ ان کے گھر والوں میں سے کسی نے ان کے نانا یعنی حضرت عبداللہ بن ابی حبیبہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کون سا واقعہ یاد رکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں تشریف لائے تھے ہم بھی اور دوسرے لوگ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ گئے کچھ دیر تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہے پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اس دن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتے پہن کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الراوي عن عبدالله بن أبى حبيبة