قال عبد الله بن احمد: حدثنا عبيد الله القواريري ، حدثنا ابو عوانة ، بإسناده مثله سواء. قال ابو عبد الرحمن: قال عبيد الله القواريري: ليس حديث اشد على الجهمية من هذا الحديث قوله:" لا شخص احب إليه مدحة من الله عز وجل".قال عبد الله بن أحمد: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ سَوَاءً. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ الْقَوَارِيرِيُّ: لَيْسَ حَدِيثٌ أَشَدَّ عَلَى الْجَهْمِيَّةِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ قَوْلِهِ:" لَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِدْحَةٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
حدثنا هشام بن عبد الملك ، حدثنا عبيد الله بن إياد ، قال: سمعت إيادا يحدث، عن قبيصة بن برمة ، عن المغيرة بن شعبة ، قال: خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض ما كان يسافر، فسرنا حتى إذا كنا في وجه السحر، انطلق حتى توارى عني، " فضرب الخلاء، ثم جاء فدعا بطهور، وعليه جبة شامية، ضيقة الكمين، فادخل يده من اسفل الجبة، ثم غسل وجهه ويديه، ومسح براسه، ومسح على الخفين" ..حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ إيَادًا يُحَدِّثُ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ بُرْمَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَا كَانَ يُسَافِرُ، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا كُنَّا فِي وَجْهِ السَّحَرِ، انْطَلَقَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّي، " فَضَرَبَ الْخَلَاءَ، ثُمَّ جَاءَ فَدَعَا بِطَهُورٍ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ، ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ مِنْ أَسْفَلِ الْجُبَّةِ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ" ..
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر پر نکلا صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے چلے گئے اور میری نظروں سے غائب ہوگئے اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتا تھوڑی دیر گذرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے پانی منگوایا اور اپنے بازؤوں سے آستینیں اوپر چڑھانے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا ' اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے وہ اوپر نہ ہوسکیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ نیچے سے نکال لئے اور چہرہ اور ہاتھ دھوئے سر پر مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن حميد ، عن بكر ، عن حمزة بن المغيرة بن شعبة ، عن ابيه ، قال: تخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقضى حاجته، فقال:" هل معك طهور؟" قال: فاتبعته بميضاة فيها ماء، " فغسل كفيه ووجهه، ثم ذهب يحسر عن ذراعيه، وكان في يدي الجبة ضيق، فاخرج يديه من تحت الجبة، فغسل ذراعيه، ثم مسح على عمامته وخفيه، وركب وركبت راحلتي، فانتهينا إلى القوم، وقد صلى بهم عبد الرحمن بن عوف ركعة، فلما احس بالنبي صلى الله عليه وسلم، ذهب يتاخر فاوما إليه ان يتم الصلاة، وقال:" قد احسنت، كذلك فافعل" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ بَكْرٍ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى حَاجَتَهُ، فَقَالَ:" هَلْ مَعَكَ طَهُورٌ؟" قَال: فَاتَّبَعْتُهُ بِمِيضَأَةٍ فِيهَا مَاءٌ، " فَغَسَلَ كَفَّيْهِ وَوَجْهَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يَحْسِرُ عَنْ ذِرَاعَيْهِ، وَكَانَ فِي يَدَيْ الْجُبَّةِ ضِيقٌ، فَأَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ، فَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ مَسَحَ عَلَى عِمَامَتِهِ وَخُفَّيْهِ، وَرَكِبَ وَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَوْمِ، وَقَدْ صَلَّى بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَكْعَةً، فَلَمَّا أَحَسَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ يُتِمَّ الصَّلَاةَ، وَقَالَ:" قَدْ أَحْسَنْتَ، كَذَلِكَ فَافْعَلْ" .
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اترے اور قضاء حاجت کے لئے چلے گئے تھوڑی دیر گذرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی لے حاضر ہوا اور پانی ڈالتا رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح دھوئے پھر چہرہ دھویا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بازؤوں سے آستینیں اوپر چڑھانے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا ' اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے وہ اوپر نہ ہوسکیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ نیچے سے نکال لئے اور چہرہ اور ہاتھ دھوئے پیشانی کی مقدار سر پر مسح کیا اپنے عمامے پر مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا اور واپسی کے لئے سوار ہوگئے جب ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو نماز کھڑی ہوچکی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر ایک رکعت پڑھاچکے تھے اور دوسری رکعت میں تھے میں انہیں بتانے کے لئے جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روک دیا اور ہم نے جو رکعت پائی وہ تو پڑھ لی اور جو رہ گئی تھی اسے (سلام پھرنے کے بعد) ادا کیا۔
شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی دو رکعتیں پڑھانے کے بعد وہ بیٹھے نہیں بلکہ کھڑے ہوگئے مقتدیوں نے سبحان اللہ کہا لیکن انہوں نے اشارہ سے کہا کہ کھڑے ہوجاؤ جب نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کئے اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه ، ابن أبى ليلى سيئ الحفظ، لكنه توبع
حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا المبارك ، قال: اخبرني زياد بن جبير ، اخبرني ابي ، عن المغيرة بن شعبة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الراكب خلف الجنازة، والماشي امامها قريبا عن يمينها، او عن يسارها، والسقط يصلى عليه، ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة" .حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الرَّاكِبُ خَلْفَ الْجِنَازَةِ، وَالْمَاشِي أَمَامَهَا قَرِيبًا عَنْ يَمِينِهَا، أَوْ عَنْ يَسَارِهَا، وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَيُدْعَى لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ" .
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلے پیدل چلنے والے کی مرضی ہے (آگے چلے یا پیچھے دائیں جانب چلے یا بائیں جانب) اور نابالغ بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، جس میں اس کے والدین کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعاء کی جائے گی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مبارك بن فضالة يدلس ويسوي، وقد عنعن، وقد توبع
حدثنا سعد ، ويعقوب ، قالا: حدثنا ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، حدثني عباد بن زياد ، قال سعد: ابن ابي سفيان، عن عروة بن المغيرة ، عن ابيه المغيرة بن شعبة ، انه قال: تخلفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، فتبرز رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم رجع إلي ومعي الإداوة، قال: " فصببت على يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم استنثر، قال يعقوب: ثم تمضمض، ثم غسل وجهه ثلاث مرات، ثم اراد ان يغسل يديه قبل ان يخرجهما من كمي جبته، فضاق عنه كماها، فاخرج يده من الجبة، فغسل يده اليمنى ثلاث مرات، ويده اليسرى ثلاث مرات، ومسح بخفيه ولم ينزعهما، ثم عمد إلى الناس، فوجدهم قد قدموا عبد الرحمن بن عوف يصلي بهم، فادرك رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى الركعتين، فصلى مع الناس الركعة الآخرة بصلاة عبد الرحمن، فلما سلم عبد الرحمن، قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يتم صلاته، فافزع المسلمين، فاكثروا التسبيح، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبل عليهم، فقال:" قد احسنتم واصبتم". يغبطهم ان صلوا الصلاة لوقتها .حَدَّثَنَا سَعْدٌ ، وَيَعْقُوبُ ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عَبَّادُ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ سَعْدُ: ابن أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ أَبِيهِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: تَخَلَّفْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَتَبَرَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ وَمَعِي الْإِدَاوَةُ، قَالَ: " فَصَبَبْتُ عَلَى يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَنْثَرَ، قَالَ يَعْقُوبُ: ثُمَّ تَمَضْمَضَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَغْسِلَ يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُخْرِجَهُمَا مِنْ كُمَّيْ جُبَّتِهِ، فَضَاقَ عَنْهُ كُمَّاهَا، فَأَخْرَجَ يَدَهُ مِنَ الْجُبَّةِ، فَغَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَيَدَهُ الْيُسْرَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَمَسَحَ بِخُفَّيْهِ وَلَمْ يَنْزِعْهُمَا، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى النَّاسِ، فَوَجَدَهُمْ قَدْ قَدَّمُوا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ يُصَلِّي بِهِمْ، فَأَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ، فَصَلَّى مَعَ النَّاسِ الرَّكْعَةَ الْآخِرَةَ بِصَلَاةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَلَمَّا سَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتِمُّ صَلَاتَهُ، فَأَفْزَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَأَكْثَرُوا التَّسْبِيحَ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ:" قَدْ أَحْسَنْتُمْ وَأَصَبْتُمْ". يَغْبِطُهُمْ أَنْ صَلَّوْا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا .
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اترے اور قضاء حاجت کے لئے چلے گئے تھوڑی دیر گذرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی لے حاضر ہوا اور پانی ڈالتا رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح دھوئے پھر چہرہ دھویا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بازؤوں سے آستینیں اوپر چڑھانے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا ' اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے وہ اوپر نہ ہوسکیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ نیچے سے نکال لئے اور چہرہ اور ہاتھ دھوئے پیشانی کی مقدار سر پر مسح کیا اپنے عمامے پر مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا اور واپسی کے لئے سوار ہوگئے جب ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو نماز کھڑی ہوچکی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر ایک رکعت پڑھا چکے تھے اور دوسری رکعت میں تھے پیچھے ہٹنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے نماز مکمل کرنے کے لئے فرمایا اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا تم نے اچھا کیا اسی طرح کیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 182، م: 274، عباد بن زياد مجهول، لكنه توبع
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے منہ سے لہسن کی بدبو محسوس ہوئی تو فرمایا لہسن کس نے کھایا ہے؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور اپنی قمیص میں داخل کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ میرے سینے پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم معذور ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى هلال، وقد اختلف فى وصله وإرساله، والراجع إرساله
حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان . ح وحدثنا زيد بن الحباب ، اخبرنا سفيان ، المعنى، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن عبيد بن نضيلة ، قال زيد: الخزاعي، عن المغيرة بن شعبة ، ان ضرتين ضربت إحداهما الاخرى بعمود فسطاط، فقتلتها، " فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالدية على عصبة القاتلة، وفيما في بطنها غرة" . قال الاعرابي: اتغرمني من لا اكل، ولا شرب ولا صاح فاستهل فمثل ذلك يطل. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اسجع كسجع الاعراب"، ولما في بطنها غرة.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ . ح وَحَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، الْمَعْنَى، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ ، قَالَ زَيْدٌ: الْخُزَاعِيُّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، أَنَّ ضُرَّتَيْنِ ضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِعَمُودِ فُسْطَاطٍ، فَقَتَلَتْهَا، " فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدِّيَةِ عَلَى عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ، وَفِيمَا فِي بَطْنِهَا غُرَّةٌ" . قَالَ الْأَعْرَابِيُّ: أَتُغَرِّمُنِي مَنْ لَا أَكَلَ، وَلَا شَرِبَ وَلَا صَاحَ فَاسْتَهَلَّ فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أسَجْعٌ كَسَجْعِ الْأَعْرَابِ"، وَلِمَا فِي بَطْنِهَا غُرَّةٌ.
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو عورتوں کی لڑائی ہوئی، ان میں سے ایک نے دوسری کو اپنے خیمے کی چوب مار کر قتل کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتلہ کے عصبات پر دیت کا فیصلہ فرمایا اور اس کے پیٹ میں موجود بچے کے ضائع ہونے پر ایک باندی یا غلام کا فیصلہ فرمایا ایک دیہاتی کہنے لگا کہ آپ مجھ پر اس جان کا تاوان عائد کرتے ہیں جس نے کھایا نہ پیا، چیخا اور نہ چلایا، ایسی جان کا معاملہ تو ٹال دیا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیہاتیوں جیسی تک بندی ہے لیکن فیصلہ پھر بھی وہی ہے کہ اس بچے کے قصاص میں ایک غلام یا باندی ہے۔
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا زائدة ، عن زياد بن علاقة ، قال: سمعت المغيرة بن شعبة ، يقول: انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم مات إبراهيم، فقال الناس: انكسفت لموت إبراهيم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينكسفان لموت احد، ولا لحياته، فإذا رايتموه فادعوا الله وصلوا حتى تنكشف" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ ، يَقُولُ: انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ، فَقَالَ النَّاسُ: انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَادْعُوا اللَّهَ وَصَلُّوا حَتَّى تَنْكَشِفَ" .
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا اس دن سورج گرہن ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ سورج اور چاند کسی کی موت سے نہیں گہناتے یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں لہٰذا جب ان میں سے کسی ایک کو گہن لگے تو تم فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوجایا کرو۔ یہاں تک کہ یہ ختم ہوجائے۔