حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا حماد بن زيد ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، قال: اتيت صفوان بن عسال المرادي ، فقال: ما جاء بك؟ فقلت: ابتغاء العلم، فقال: لقد بلغني" ان الملائكة لتضع اجنحتها لطالب العلم رضا بما يفعل" ، فذكر الحديث. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المرء مع من احب" . قال: فما برح يحدثني حتى حدثني" ان الله عز وجل جعل بالمغرب بابا مسيرة عرضه سبعون عاما للتوبة، لا يغلق ما لم تطلع الشمس من قبله" . وذلك قول الله عز وجل: يوم ياتي بعض آيات ربك لا ينفع نفسا إيمانها سورة الانعام آية 158.حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ؟ فَقُلْتُ: ابْتِغَاءُ الْعِلْمِ، فَقَالَ: لَقَدْ بَلَغَنِي" أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَفْعَلُ" ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ" . قَالَ: فَمَا بَرِحَ يُحَدِّثُنِي حَتَّى حَدَّثَنِي" أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا مَسِيرَةُ عَرْضِهِ سَبْعُونَ عَامًا لِلتَّوْبَةِ، لَا يُغْلَقُ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ مِنْ قِبَلِهِ" . وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا سورة الأنعام آية 158.
زربن حبیش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی پاس حاضر ہوا تو انہوں نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا حصول عمل کے سلسلے میں حاضر ہوا ہوں انہوں فرمایا اللہ کے فرشتے طالب علم کے لئے " طلب علم پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے " اپنے پر بچھا دیتے ہیں . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان (قیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے . پھر وہ ہمیں مسلسل حدیثیں سناتے رہے حتیٰ کہ فرمایا مغرب میں ایک دروازہ ہے جو توبہ کے لئے کھلا ہوا ہے اس کی مسافت ستر سال پر محیط ہے اللہ نے اسے آسمان و زمین کی تخلیق کے دن کھولا تھا وہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے، یہی مطلب ہے اس ارشادباری تعالیٰ یوم تاتی بعض آیات ربک۔۔۔۔۔۔ الآیہ
حكم دارالسلام: حديث: "المرء مع من أحب" منه صحيح، وهذا إسناد حسن
حدثنا هشيم ، اخبرنا ابو بشر ، عن مجاهد ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن كعب بن عجرة ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية ونحن محرمون، وقد حصرنا المشركون، وكانت لي وفرة، فجعلت الهوام تساقط على وجهي، فمر بي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ايؤذيك هوام راسك؟" قلت نعم، " فامره ان يحلق، قال: ونزلت هذه الآية: فمن كان منكم مريضا او به اذى من راسه ففدية من صيام او صدقة او نسك سورة البقرة آية 196" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ، وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِكُونَ، وَكَانَتْ لِي وَفْرَةٌ، فَجَعَلَتْ الْهَوَامُّ تَسَّاقَطُ عَلَى وَجْهِي، فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ؟" قُلْتُ نَعَمْ، " فَأَمَرَهُ أَنْ يَحْلِقَ، قَالَ: وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196" .
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حالت احرام میں حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے مشرکین نے ہمیں گھیر رکھا تھا (حرم میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے) میرے سر کے بال بہت بڑے تھے اس دوران میرے سر سے جوئیں نکل نکل کر چہرے پر گرنے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے تو فرمایا کیا تمہیں جوئیں تنگ کر رہی ہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سرمنڈ والو، اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف دہ چیز ہو تو وہ روزے رکھ کر یا صدقہ دے کر یا قربانی دے کر اس کا فدیہ ادا کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1814، م: 1201 ، أبو البشر لم يسمع من مجاهد، لكنه متابع
حدثنا هشيم ، اخبرنا خالد ، عن ابي قلابة ، عن كعب بن عجرة ، قال: قملت حتى ظننت ان كل شعرة من راسي فيها القمل من اصلها إلى فرعها، فامرني النبي صلى الله عليه وسلم حين راى ذلك، قال: " احلق"، ونزلت الآية، قال:" اطعم ستة مساكين ثلاثة آصع من تمر" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ، قَالَ: قَمِلْتُ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّ كُلَّ شَعْرَةٍ مِنْ رَأْسِي فِيهَا الْقَمْلُ مِنْ أَصْلِهَا إِلَى فَرْعِهَا، فَأَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَأَى ذَلِكَ، قَالَ: " احْلِقْ"، وَنَزَلَتْ الْآيَةُ، قَالَ:" أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ ثَلَاثَةَ آصُعٍ مِنْ تَمْرٍ" .
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے سر میں اتنی جوئیں ہوگئیں کہ میرا خیال تھا میرے سرکے ہر بال میں جڑ سے لے کر شاخوں تک جوئیں بھری پڑی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیفیت دیکھ کر مجھے حکم دیا کہ بال منڈوالو اور مذکورہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجوریں کھلادو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1814، م: 1201، وهذا إسناد منقطع، أبو قلابة لم يدرك كعباً
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر نماز کے ارادے سے نکلے تو اس دوران اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل نہ کرے کیونکہ وہ نماز میں ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لاختلاف فيه، ولجهالة حال أبى ثمامة الحناط
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن الحكم ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن كعب بن عجرة ، ان رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، قد علمنا السلام عليك، فكيف الصلاة عليك؟ قال:" قولوا: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم، إنك حميد مجيد" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْنَا السَّلَامَ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ؟ قَالَ:" قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" .
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! ہمیں آپ کو سلام کرنے کا طریقہ تو معلوم ہوگیا ہے یہ بتائیے کہ آپ پر درود کیسے بھیجا کریں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہا کرو اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم انک حمید مجید اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم انک حمید مجید۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، قال: حدثني الحكم ، عن ابن ابي ليلى . ح قال: وحدثنا محمد بن جعفر ، اخبرنا شعبة ، عن الحكم ، قال: سمعت ابن ابي ليلى ، قال: لقيني كعب بن عجرة ، قال ابن جعفر: قال: الا اهدي لك هدية؟ خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا: يا رسول الله، قد علمنا او عرفنا كيف السلام عليك، فكيف الصلاة؟ قال:" قولوا: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَكَمُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى . ح قَالَ: وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: قَالَ: أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً؟ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْنَا أَوْ عَرَفْنَا كَيْفَ السَّلَامُ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ الصَّلَاةُ؟ قَالَ:" قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" .
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! ہمیں آپ کو سلام کرنے کا طریقہ تو معلوم ہوگیا ہے یہ بتائیے کہ آپ پر دورد کیسے بھیجاکریں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہا کرو اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کماصلیت علی ابراہیم انک حمید مجید اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کمابارکت علی ابراہیم انک حمید مجید۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے انہیں ان کے سر کی جوؤں نے بہت تنگ کر رکھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سرمنڈانے کا حکم دے دیا اور فرمایا تین روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو فی کس دو مد کے حساب سے کھانا کھلا دو یا ایک بکری کی قربانی دے دو جو بھی کرو گے تمہاری طرف سے کافی ہوجائے گا۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن مجاهد ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن كعب بن عجرة ، قال: اتى علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا اوقد تحت قدر، والقمل يتناثر على وجهي او قال: على حاجبي، فقال" ايؤذيك هوام راسك؟". قال: قلت: نعم، قال: " فاحلقه، وصم ثلاثة ايام، او اطعم ستة مساكين، او انسك نسيكة" . قال ايوب: لا ادري بايتهن بدا..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ، قَالَ: أَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ، وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي أَوْ قَالَ: عَلَى حَاجِبَيَّ، فَقَال" أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ؟". قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَاحْلِقْهُ، وَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، أَوْ انْسُكْ نَسِيكَةً" . قَالَ أَيُّوبُ: لَا أَدْرِي بِأَيَّتِهِنَّ بَدَأَ..
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے سر کے کیڑے (جوئیں) تمہیں تنگ کر رہے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سرمنڈانے کا حکم دے دیا اور فرمایا تین روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو فی کس دو مد کے حساب سے کھانا کھلادو یا ایک بکری کی قربانی دے دو جو بھی کرو گے تمہاری طرف سے کافی ہوجائے گا۔