حدثنا إسماعيل ، حدثنا خالد الحذاء ، حدثني ابن اشوع ، عن الشعبي ، قال: حدثني كاتب المغيرة بن شعبة، قال: كتب معاوية إلى المغيرة بن شعبة ان اكتب إلي بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكتب إليه إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الله كره لكم: قيل وقال، وإضاعة المال، وكثرة السؤال" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَشْوَعَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي كَاتِبُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنْ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ: قِيلَ وَقَالَ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ" .
ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے کوئی ایسی چیز لکھ بھیجیں جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو؟ انہوں نے جواباً لکھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تین چیزوں کو تمہارے حق میں ناپسند کرتا ہے قیل و قال، کثرت سوال اور مال کو ضائع کرنا۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے جسم کو آگ سے داغے یا منتر پڑھے وہ توکل سے بری ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، ليث بن أبى سليم ضعيف، لكنه توبع
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا يونس ، عن زياد بن جبير ، عن ابيه ، ان المغيرة بن شعبة قال: " الراكب يسير خلف الجنازة، والماشي يمشي خلفها، وامامها، ويمينها، وشمالها، قريبا، والسقط يصلى عليه، يدعى لوالديه بالعافية والرحمة" . قال يونس: واهل زياد يذكرون النبي صلى الله عليه وسلم، واما انا فلا احفظه.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ قَالَ: " الرَّاكِبُ يَسِيرُ خَلْفَ الْجِنَازَةِ، وَالْمَاشِي يَمْشِي خَلْفَهَا، وَأَمَامَهَا، وَيَمِينَهَا، وَشِمَالَهَا، قَرِيبًا، وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ، يُدْعَى لِوَالِدَيْهِ بِالْعَافِيَةِ وَالرَّحْمَةِ" . قَالَ يُونُسُ: وَأَهْلُ زِيَادٍ يَذْكُرُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَّا أَنَا فَلَا أَحْفَظُهُ.
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلے پیدل چلنے والے کی مرضی ہے (آگے چلے یا پیچھے دائیں جانب چلے یا بائیں جانب) اور نابالغ بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، جس میں اس کے والدین کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعاء کی جائے گی۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن محمد بن سيرين ، عن عمرو بن وهب الثقفي ، قال: كنا عند المغيرة بن شعبة ، فسئل: هل ام النبي صلى الله عليه وسلم احد من هذه الامة غير ابي بكر؟ قال: نعم، قال: فزاده عندي تصديقا الذي قرب به الحديث. قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فلما كان من السحر، ضرب عقب راحلتي، فظننت ان له حاجة، فعدلت معه، فانطلقنا، حتى برزنا عن الناس، فنزل عن راحلته، ثم انطلق، فتغيب عني حتى ما اراه، فمكث طويلا، ثم جاء، فقال:" حاجتك يا مغيرة؟". قلت ما لي حاجة، فقال:" هل معك ماء؟" قلت: نعم، فقمت إلى قربة، او قال: سطيحة معلقة في آخرة الرحل، فاتيته بها، " فصببت عليه، فغسل يديه، فاحسن غسلهما، قال: واشك اقال: دلكهما بتراب ام لا، ثم غسل وجهه، ثم ذهب يحسر عن يده، وعليه جبة شامية ضيقة الكم، فضاقت، فاخرج يديه من تحتها إخراجا، فغسل وجهه ويديه، قال: فيجيء في الحديث غسل الوجه مرتين، فلا ادري اهكذا كان ام لا، ثم مسح بناصيته، ومسح على العمامة، ومسح على الخفين، ثم ركبنا فادركنا الناس، وقد اقيمت الصلاة، فتقدمهم عبد الرحمن بن عوف، وقد صلى بهم ركعة، وهم في الثانية، فذهبت اوذنه، فنهاني، فصلينا الركعة التي ادركنا، وقضينا التي سبقنا" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ وَهْبٍ الثَّقَفِيِّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، فَسُئِلَ: هَلْ أَمَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ غَيْرَ أَبِي بَكْرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَزَادَهُ عِنْدِي تَصْدِيقًا الَّذِي قَرَّبَ بِهِ الْحَدِيثَ. قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ السَّحَرِ، ضَرَبَ عَقِبَ رَاحِلَتِي، فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ حَاجَةً، فَعَدَلْتُ مَعَهُ، فَانْطَلَقْنَا، حَتَّى بَرَزْنَا عَنِ النَّاسِ، فَنَزَلَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ، فَتَغَيَّبَ عَنِّي حَتَّى مَا أَرَاهُ، فَمَكَثَ طَوِيلًا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ:" حَاجَتَكَ يَا مُغِيرَةُ؟". قُلْتُ مَا لِي حَاجَةٌ، فَقَالَ:" هَلْ مَعَكَ مَاءٌ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، فَقُمْتُ إِلَى قِرْبَةٍ، أَوْ قَالَ: سَطِيحَةٍ مُعَلَّقَةٍ فِي آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، " فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ، فَأَحْسَنَ غَسْلَهُمَا، قَالَ: وَأَشُكُّ أَقَالَ: دَلَّكَهُمَا بِتُرَابٍ أَمْ لَا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يَحْسِرُ عَنْ يَدِهِ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ ضَيِّقَةُ الْكُمِّ، فَضَاقَتْ، فَأَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ تَحْتِهَا إِخْرَاجًا، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، قَالَ: فَيَجِيءُ فِي الْحَدِيثِ غَسْلُ الْوَجْهِ مَرَّتَيْنِ، فَلَا أَدْرِي أَهَكَذَا كَانَ أَمْ لَا، ثُمَّ مَسَحَ بِنَاصِيَتِهِ، وَمَسَحَ عَلَى الْعِمَامَةِ، وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، ثُمَّ رَكِبْنَا فَأَدْرَكْنَا النَّاسَ، وَقَدْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَتَقَدَّمَهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَقَدْ صَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً، وَهُمْ فِي الثَّانِيَةِ، فَذَهَبْتُ أُوذِنُهُ، فَنَهَانِي، فَصَلَّيْنَا الرَّكْعَةَ الَّتِي أَدْرَكْنَا، وَقَضَيْنَا الَّتِي سُبِقْنَا" .
عمرو بن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھ کہ کسی شخص نے ان سے پوچھا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس امت میں کوئی اور بھی ایسا شخص ہوا ہے جس کی امامت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے خیمے کا دروازہ بجایا میں سمجھ گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے جانا چاہتے ہیں چناچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل پڑا یہاں تک کہ ہم لوگ چلتے چلتے لوگوں سے دور چلے گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اترے اور قضاء حاجت کے لئے چلے گئے اور میری نظروں سے غائب ہوگئے اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتا تھوڑی دیر گذرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور فرمایا مغیرہ! تم بھی اپنی ضرورت پوری کرلو میں نے عرض کیا کہ مجھے اس وقت حاجت نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! اور یہ کہہ کر میں وہ مشکیزہ لانے چلا گیا جو کجاوے کے پچھلے حصے میں لٹکا ہوا تھا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی لے حاضر ہوا اور پانی ڈالتا رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح دھوئے پھر چہرہ دھویا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بازؤوں سے آستینیں اوپر چڑھانے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا ' اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے وہ اوپر نہ ہوسکیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ نیچے سے نکال لئے اور چہرہ اور ہاتھ دھوئے پیشانی کی مقدار سر پر مسح کیا اپنے عمامے پر مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا اور واپسی کے لئے سوار ہوگئے جب ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو نماز کھڑی ہوچکی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر ایک رکعت پڑھا چکے تھے اور دوسری رکعت میں تھے میں انہیں بتانے کے لئے جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روک دیا اور ہم نے جو رکعت پائی وہ تو پڑھ لی اور جو رہ گئی تھی اسے (سلام پھرنے کے بعد) ادا کیا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، قال: سمعت المسيب بن رافع يحدث، عن وراد كاتب المغيرة بن شعبة، ان المغيرة كتب إلى معاوية: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا سلم قال: " لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُسَيَّبَ بْنَ رَافِعٍ يُحَدِّثُ، عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ كَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَلَّمَ قَالَ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ" .
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے کوئی ایسی چیز لکھ کر بھیجئے جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تھے تو یوں کہتے تھے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں حکومت اسی کی ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کی ہیں اے اللہ! جسے آپ دیں اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لیں اسے کوئی دے نہیں سکتا اور آپ کے سامنے کسی مرتبے والے کا مرتبہ کام نہیں آسکتا۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص میرے حوالے سے کوئی حدیث نقل کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو وہ دو میں سے ایک جھوٹا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، ميمون بن أبى شبيب لم يدرك المغيرة
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز دوپہر کی گرمی میں پڑھتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہم سے فرمایا نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کا اثر ہوتی ہے۔
حدثنا حجاج ، حدثنا شريك ، عن عبد الملك بن عمير ، عن المغيرة بن شعبة ، انه قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم آخذا بحجزة سفيان بن ابي سهل، فقال:" يا سفيان بن ابي سهل، لا تسبل إزارك، فإن الله لا يحب المسبلين" ..حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِذًا بِحُجْزَةِ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي سَهْلٍ، فَقَالَ:" يَا سُفْيَانُ بْنَ أَبِي سَهْلٍ، لَا تُسْبِلْ إِزَارَكَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُسْبِلِينَ" ..
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفیان بن ابی سہل کی کمر پکڑ کر یہ کہتے ہوئے سنا اے سفیان بن ابی سہل اپنے تہبند کو ٹخنوں سے نیچے مت لٹکاؤ کیونکہ اللہ ٹخنوں سے نیچے تہبند لٹکانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، علته شريك، والانقطاع بين عبدالملك والمغيرة