الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال 19. باب الاِقْتِصَادِ فِي الْمَوْعِظَةِ: باب: وعظ میں میانہ روی اختیار کرنے کا بیان۔
شقیق سے روایت ہے، ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھے تھے ان کا انتظار کرتے ہوئے، اتنے میں یزید بن معاویہ نخعی نکلے، ہم نے اس کو کہا: عبداللہ کو ہماری اطلاع کر، پس وہ گیا پھر نکلے عبداللہ اور کہنے لگے کہ مجھ کو خبر ہوتی ہے تمہارے آنے کی پھر میں نہیں نکلتا صرف اس خیال سے کہ کہیں تم کو میرے وعظ سے ملال نہ ہو (یعنی سنتے سنتے بیزار نہ ہو جاؤ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو وعظ سنانے کے لیے موقع اور وقت ڈھونڈتے (یعنی ہماری خوشی کا موقع) دنوں میں اس ڈر سے کہ ہم کو بار نہ ہو۔ (اس لیے کہ اگر دل نہ لگا اور وعظ سنا تو فائدہ کیا بلکہ گنہگار ہونے کا ڈر ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ واعظ کو اسی وقت تک وعظ کہنا چاہیے اور قاری کو اتنا ہی قرآن پڑھنا چاہیے جہاں تک لوگ خوشی سے سنیں اور ان کا دل لگے اور ان پر بار نہ ہو)۔
مذکورہ بالا حدیث ان اسناد سے بھی مروی ہے۔
ابووائل رحمہ اللہ سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہم کو ہر جمعرات کو وعظ سناتے۔ ایک شخص بولا: اے ابوعبدالرحمنٰ (یہ کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی) ہم تمہاری حدیث چاہتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم ہر روز ہم کو حدیث سنایا کرو۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم کو جو ہر روز حدیث نہیں سناتا تو اس وجہ سے کہ برا جانتا ہوں تم کو ملال دینا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی دنوں میں کوئی دن مقرر کرتے اس واسطے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برا جانتے تھے ہم کو رنج دینا (یعنی بار ہونا)۔
|