الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب النِّكَاحِ نکاح کے احکام و مسائل 1. باب اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَيْهِ وَوَجَدَ مُؤْنَةً وَاشْتِغَالِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الْمُؤَنِ بِالصَّوْمِ: باب: صاحب استطاعت کے لیے نکاح کرنے کا استحباب، اور جو اس کی طاقت نہیں رکھتا اس کو روزوں کے ساتھ مشغول رہنے کا استحباب۔
علقمہ رحمہ اللہ نے کہا: میں چلا جاتا تھا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں، سو عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ملے اور ان سے کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن! ہم تمہارا نکاح ایسی جوان لڑکی سے نہ کر دیں کہ وہ تم کو تمہاری گزری ہوئی عمر میں سے کچھ یاد دلا دے تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ اگر تم یہ کہتے ہو تو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”اے گروہ جوانوں کے! جو تم میں نکاح کے خرچ کی طاقت رکھتا ہو (یعنی نان و نفقہ دے سکتا ہو) تو چاہئیے کہ نکاح کرے، اس لیے کہ وہ آنکھوں کو خوب نیچا کر دیتا ہے اور فرج کو زنا وغیرہ سے بچا دیتا ہے اور جو نہ طاقت رکھتا ہو (اس خرچ کی) تو روزے رکھے کہ یہ اس کے لیے گویا خصی کرنا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ان کو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ملے تو انہوں نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن! ادھر آؤ پھر ان کو خلوت میں لے گئے۔ جب عبداللہ نے دیکھا کہ عثمان کو کوئی کام نہیں تو انہوں نے مجھے بلا لیا کہ اے علقمہ! یہاں آ جاؤ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں چلا گیا تو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ اے ابوعبدالرحمان! کیا تمہارا نکاح ایک کنواری لڑکی سے نہ کرا دیں شاید کہ وہ تمہیں تمہارا جوانی کا وقت یاد دلا دے۔ تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر آپ کہتے ہیں۔ اگے وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ”اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو خرچ کی طاقت رکھے وہ نکاح کر لے اس لیے کہ نکاح آنکھوں کو نیچا کر دیتا ہے اور فرج (شرمگاہ کو) زنا وغیرہ سے بچا دیتا ہے اور جو خرچ کی طاقت نہ رکھے وہ روزہ رکھے کہ گویا یہ اس کے لیے خصی کرنا ہے۔“
عبدالرحمٰن بن یزید نے کہا کہ میں اور میرے چچا علقمہ اور اسود، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ اور میں ان دنوں جوان تھا تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی یعنی وہی جو اوپر گزری اور میں جان گیا کہ انہوں نے میرے ہی لیے وہ حدیث بیان کی، اور روایت میں یہ بھی زیادہ ہے سیدنا ابومعاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے عبدالرحمٰن نے کہا کہ پھر میں نے نکاح میں کچھ دیر نہیں کی اور نکاح کر لیا۔
مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا مگر اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ پھر میں نے نکاح کرنے میں کچھ دیر نہیں کی اور نکاح کر لیا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں رضی اللہ عنہن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفیہ عبادت کا حال پوچھا۔ یعنی جو عبادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کرتے تھے اور پھر ایک نے ان میں سے کہا کہ میں کبھی عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔ کسی نے کہا: میں کبھی گوشت نہ کھاؤں گا۔ کسی نے کہا: میں کبھی بچھونے پر نه سوؤں گا۔ سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی یعنی خطبہ پڑھا اور فرمایا: ”کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسا ایسا کہتے ہیں اور میرا تو یہ حال ہے کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں یعنی رات کو اور سو بھی جاتا ہوں، اور روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ سو جو میرے طریقہ سے بے رغبتی کرے وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے جب عورتوں سے جدا رہنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات رد کر دی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیتے تو ہم سب خصی ہو جاتے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
|