وحدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة . ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة واللفظ له قال: حدثنا عبد الله بن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فاطال القيام جدا، ثم ركع فاطال الركوع جدا، ثم رفع راسه فاطال القيام جدا، وهو دون القيام الاول، ثم ركع فاطال الركوع جدا، وهو دون الركوع الاول، ثم سجد، ثم قام فاطال القيام، وهو دون القيام الاول، ثم ركع فاطال الركوع، وهو دون الركوع الاول، ثم رفع راسه، فقام فاطال القيام، وهو دون القيام الاول، ثم ركع فاطال الركوع، وهو دون الركوع الاول، ثم سجد ثم انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تجلت الشمس، فخطب الناس فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: " إن الشمس والقمر من آيات الله، وإنهما لا ينخسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتموهما فكبروا وادعوا الله، وصلوا وتصدقوا يا امة محمد، إن من احد اغير من الله ان يزني عبده او تزني امته، يا امة محمد والله لو تعلمون ما اعلم لبكيتم كثيرا ولضحكتم قليلا، الا هل بلغت ". وفي رواية مالك: " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَأَطَالَ الْقِيَامَ جِدًّا، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ جِدًّا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ جِدًّا، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ جِدًّا، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَكَبِّرُوا وَادْعُوا اللَّهَ، وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، إِنْ مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ، يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ ". وَفِي رِوَايَةِ مَالِكٍ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گہن ہوا، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا، پھر رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا، اور دیر تک کھڑے رہے، اور بہت قیام کیا، مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا (یہ ایک رکعت میں دو رکوع ہوئے۔ اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے) پھر کھڑے ہوئے اور دیر تک قیام کیا مگر قیام اول سے کم۔ پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم۔ پھر سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے، مگر قیام اول سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم، (یہ بھی دو رکوع ہوئے) پھر سجدہ کیا اور فارغ ہوئے اور آفتاب اتنے میں کھل گیا تھا۔ پھر لوگوں پر خطبہ پڑھا اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اور ان میں گہن نہیں لگتا کسی کی موت سے، نہ زندگی سے۔ پھر جب تم گہن دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس سے دعا کرو اور نماز پڑھو اور خیرات کرو۔ اے امت محمد! اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اس بات میں کہ اس کا غلام یا باندی زنا کرے۔ اے محمد کی امت! اللہ کی قسم ہے جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے ہوتے تو بہت روتے اور تھوڑا ہنستے۔ سن لو! میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا۔“ اور مالک کی روایت میں یہ ہے کہ ”سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔“
وحدثناه يحيى بن يحيى ، اخبرنا ابو معاوية ، عن هشام بن عروة بهذا الإسناد، وزاد، ثم قال: " اما بعد فإن الشمس والقمر من آيات الله "، وزاد ايضا: " ثم رفع يديه فقال اللهم هل بلغت ".وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ "، وَزَادَ أَيْضًا: " ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ".
ہشام بن عروہ نے اسی سند سے بیان کیا اور یہ زیادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد کے بعد فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہیں اور یہ بھی زیادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ آگاہ رہو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔“
حدثني حرملة بن يحيى ، اخبرني ابن وهب ، اخبرني يونس . ح وحدثني ابو الطاهر ، ومحمد بن سلمة المرادي ، قالا: حدثنا ابن وهب ، عن يونس ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: خسفت الشمس في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسجد، فقام وكبر وصف الناس وراءه، فاقترا رسول الله صلى الله عليه وسلم قراءة طويلة، ثم كبر فركع ركوعا طويلا، ثم رفع راسه، فقال: " سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد "، ثم قام فاقترا قراءة طويلة هي ادنى من القراءة الاولى، ثم كبر فركع ركوعا طويلا هو ادنى من الركوع الاول، ثم قال: " سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد "، ثم سجد، ولم يذكر ابو الطاهر، ثم سجد، ثم فعل في الركعة الاخرى مثل ذلك، حتى استكمل اربع ركعات واربع سجدات، وانجلت الشمس قبل ان ينصرف، ثم قام فخطب الناس فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا يخسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتموها فافزعوا للصلاة "، وقال ايضا: " فصلوا حتى يفرج الله عنكم "، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " رايت في مقامي هذا كل شيء وعدتم، حتى لقد رايتني اريد ان آخذ قطفا من الجنة حين رايتموني جعلت اقدم "، وقال المرادي: " اتقدم ولقد رايت جهنم يحطم بعضها بعضا حين رايتموني تاخرت، ورايت فيها ابن لحي وهو الذي سيب السوائب ". وانتهى حديث ابي الطاهر عند قوله: " فافزعوا للصلاة "، ولم يذكر ما بعده.حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ وَكَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "، ثُمَّ قَامَ فَاقْتَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "، ثُمَّ سَجَدَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبُو الطَّاهِرِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، حَتَّى اسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَافْزَعُوا لِلصَّلَاةِ "، وَقَالَ أَيْضًا: " فَصَلُّوا حَتَّى يُفَرِّجَ اللَّهُ عَنْكُمْ "، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ فِي مَقَامِي هَذَا كُلَّ شَيْءٍ وُعِدْتُمْ، حَتَّى لَقَدْ رَأَيْتُنِي أُرِيدُ أَنْ آخُذَ قِطْفًا مِنَ الْجَنَّةِ حِينَ رَأَيْتُمُونِي جَعَلْتُ أُقَدِّمُ "، وقَالَ الْمُرَادِيُّ: " أَتَقَدَّمُ وَلَقَدْ رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ، وَرَأَيْتُ فِيهَا ابْنَ لُحَيٍّ وَهُوَ الَّذِي سَيَّبَ السَّوَائِبَ ". وَانْتَهَى حَدِيثُ أَبِي الطَّاهِرِ عِنْدَ قَوْلِهِ: " فَافْزَعُوا لِلصَّلَاةِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں سورج گہن ہوا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے مسجد اور نماز کو کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی قرأت پڑھی، پھر اللہ اکبر کہا اور بہت لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا اور «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» اور پھر کھڑے رہے اور لمبی قرأت پڑھی کہ پہلی قرأت سے ذرا کم تھی۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر دوسرا رکوع کیا لمبا مگر پہلے رکوع سے کم پھر کہا «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» پھر سجدہ کیا اور ابوطاہر راوی نے ذکر نہیں کیا کہ پھر سجدہ کیا اور دوسری رکعت میں ایسا ہی کیا یہاں تک کہ چار رکوع ہوئے، اورچار سجدے (یعنی دو رکعت میں، ہر رکعت میں دو رکوع کئے اور دو سجدے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فارغ ہونے سے پہلے سورج صاف ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں پر خطبہ پڑھا اور اللہ کی تعریف کی ان لفظوں سے جو اس کی شان کے لائق ہیں۔ پھر فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور کسی کی موت اور زندگی کے سبب سے ان میں گہن نہیں ہوتا (یعنی صرف اللہ کے حکم سے ہوتا ہے) پھر جب تم گہن کو دیکھو تو جلدی نماز پڑھنے لگو۔“ اور یہ بھی فرمایا: ”یہاں تک نماز پڑھو کہ اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے اوپر سے کھول دے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: ”میں نے اس جگہ وہ سب چیزیں دیکھیں جن کا تم سے وعدہ ہوا ہے، چنانچہ میں نے خود کو دیکھا کہ چاہتا ہوں کہ ایک گچھا لے لوں جنت میں، جب تم نے مجھ کو د یکھا تھا کہ میں آگے بڑ ھا تھا۔ اور مرادی راوی نے «أَتَقَدَّمُ» کہا۔ (معنی دونوں کےایک ہیں)۔ اور بیشک میں نے جہنم کو دیکھا کہ ایک ٹکڑا دوسرے کو توڑ رہا ہے جب تم نے مجھ کو دیکھا تھا کہ میں پیچھے کو ہٹا تھا اور میں نے جہنم میں عمر بن لحیی کو دیکھا (ایک آدمی کا نام ہے) اور اسی نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑے۔“ اور ابوطاہر راوی کی حدیث تو وہیں تمام ہو گئی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جلدی نماز پڑھو اور اس کے بعد کچھ ذکر ہی نہیں کیا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج گہن ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ایک پکارنے والے کو بھیجا کہ یوں پکار دے کہ ”سب لوگ مل کر نماز ادا کرو۔“ غرض لوگ جمع ہو گئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر تکبیر کہی (یعنی تکبیر اولیٰ) اور چار رکوع کئیے دو رکعتوں میں اور چار سجدے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گہن کی نماز میں قرأت پکار کر پڑھی اور چار رکوع کئیے اور چار سجدے دو رکعتوں میں۔
(حديث موقوف) قال قال الزهري ، واخبرني كثير بن عباس ، عن ابن عباس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " انه صلى اربع ركعات في ركعتين واربع سجدات ".(حديث موقوف) قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ ".
زہری نے کہا کہ خبر دی مجھے کثیر بن عباس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکوع کیے دو رکعتوں میں اور چار سجدے کیے۔
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، قال: سمعت عطاء يقول: سمعت عبيد بن عمير يقول: حدثني من اصدق حسبته يريد عائشة ، ان الشمس انكسفت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام قياما شديدا يقوم قائما، ثم يركع، ثم يقوم، ثم يركع، ثم يقوم، ثم يركع ركعتين في ثلاث ركعات واربع سجدات، فانصرف وقد تجلت الشمس، وكان إذا ركع، قال: " الله اكبر "، ثم يركع وإذا رفع راسه، قال: " سمع الله لمن حمده "، فقام فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال: " إن الشمس والقمر لا يكسفان لموت احد ولا لحياته، ولكنهما من آيات الله، يخوف الله بهما عباده، فإذا رايتم كسوفا فاذكروا الله حتى ينجليا ".وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ: حَدَّثَنِي مَنْ أُصَدِّقُ حَسِبْتُهُ يُرِيدُ عَائِشَةَ ، أَنَّ الشَّمْسَ انْكَسَفَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ قِيَامًا شَدِيدًا يَقُومُ قَائِمًا، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ فِي ثَلَاثِ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، فَانْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ "، ثُمَّ يَرْكَعُ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ، قَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ "، فَقَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَكْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِمَا عِبَادَهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ كُسُوفًا فَاذْكُرُوا اللَّهَ حَتَّى يَنْجَلِيَا ".
عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ روایت کی مجھ سے اس شخص نے جس کو میں سچا جانتا ہوں۔ مراد اس شخص سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں، کہ ایک بار سورج گہن ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بڑی دیر کھڑے رہے، اس طرح کہ ایک بار کھڑے ہوتے، پھر رکوع کرتے، پھر کھڑے ہوتے، پھر رکوع کرتے، پھر کھڑے ہوتے، پھر رکوع کرتے۔ غرض پڑھتے دو رکعت کہ ہر رکعت میں تین رکوع ہوتے اور دونوں رکعتوں میں چار سجدے۔ اور جب فارغ ہوئے آفتاب صاف ہو گیا اور جب رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر رکوع میں جاتے اور جب سر اٹھاتے «سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ» کہتے اور بعد نماز خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی۔ پھر فرمایا کہ ”سورج اور چاند میں کسی کی موت و حیات کے سبب گہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ ان سے اللہ ڈراتا ہے پھر جب تم گہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو یہاں تک کہ دونوں صاف ہو جائیں۔“