سفر حج:
سید المحدثین امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ اپنی عمر کے سولہویں سال 210ھ میں اپنی والدہ محترمہ اور محترم بھائی احمد کے ساتھ سفر حج پر روانہ ہوئے اور مکة المکرمہ پہنچے۔ آپ نے اس مرکز اسلام میں بڑے بڑے علمائے کرام و محدثین سے ملاقات فرمائی، اور حج کے بعد والدہ محترمہ کی اجازت سے تحصیل علوم حدیث کے لئے مکہ ہی میں سکونت اختیار کی۔ اس وقت مکہ شریف کے ارباب علم و فضل میں عبداللہ بن یزید، ابوبکر عبداللہ بن الزبیر، ابوالولید احمد بن الارزقی اور علامہ حمیدی وغیرہ ممتاز شخصیتوں کے مالک تھے۔
آپ نے پورے دو سال مکة الکرمہ میں رہ کر ظاہری و باطنی کمالات حاصل فرمائے اور 212ھ میں مدینہ المنورہ کا سفر اختیار فرمایا اور وہاں کے مشاہیر محدثین کرام مطرف بن عبداللہ، ابراہیم بن منذر، ابو ثابت محمد بن عبیداللہ، ابراہیم بن حمزہ وغیرہ وغیرہ بزرگوں سے اکتساب فیض فرمایا۔
بلاد حجاز میں آپ کی اقامت چھ سال رہی۔ پھر آپ نے بصرہ کا رخ فرمایا۔ اس کے بعد کوفہ کا قصد کیا۔ سیدنا وراق بخاری نے کوفہ اور بغداد کے بارے میں آپ کا یہ قول نقل کیا ہے ”میں شمار نہیں کر سکتا کہ کوفہ اور بغداد میں محدثین کے ہمراہ کتنی مرتبہ داخل ہوا ہوں“۔
بغداد چونکہ عباسی حکومت کا پایہ تخت رہا ہے اس لئے وہ علوم و فنون کا مرکز بن گیا تھا۔ بڑے بڑے اکابر عصر بغداد میں جمع تھے۔ اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے بار بار بغداد کا سفر فرمایا۔ وہاں کے مشائخ حدیث میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا نام نامی خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ آٹھویں مرتبہ جب امام بخاری رحمہ اللہ بغداد سے آخری سفر کرنے لگے تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے بڑے پر درد لہجے میں فرمایا ”کیا آپ لوگوں کو اوربغداد کے اس زمانہ کو اور یہاں کے علوم و فنون کے مراکز کو چھوڑ کر خراسان چلے جائیں گے؟“ بخارا کے ابتلائی دور میں جب کہ وہاں کا حاکم آپ سے ناراض ہو گیا تھا، آپ امام احمد رحمہ اللہ کے اس مقولہ کو بہت یاد فرمایا کرتے تھے۔