صحيح البخاري
صحیحین کی ارجحیت / ابن الھمام کے اعتراض کا جواب / قول الحاکم علی شرطھما:
تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح حفظ اللہ
اب یہاں ہم صحیحین کی ارجحیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا تعلق صحیحین کی شرط سے ہے اور احناف نے اس کی نفی کر کے حنفی فقہ کو مؤید کرنے کی کوشش کی ہے،
ابن الحمام التحریر فی الاصول اور فتح القدیر شرح ھدایہ میں لکھتے ہیں:
«كون ما فى الصحيحين راجحا على ماروي برجالهما فى غير هما اوما تحقق فيه شرطها بعد امامة المخرج تهكم .»
یعنی صحیحین کی ارجحیت ان کے رجال کے معتبر شروط کی وجہ سے ہے اگر وہی شروط ان رواۃ کی حدیث میں پائی جائیں جو حدیث کی دوسری کتابوں (سنن وغیرہ) میں ہے تو پھر ما فی الصحیحین پر اصحیت کا حکم لگانا سراسر تحکم ہے۔ ابن الحمام کی دونوں جگہ کلام کا مطلب ایک ہی ہے یعنی دوسری حدیث کی کتابوں میں بھی انہی رجال کے ساتھ حدیث پائی جائے تو پھر صحیحین کو راجح کہنا خلاف واقعہ ہے آگے چل کر لکھتے ہیں:
کسی معین راوی پر یہ حکم لگانا کہ اس میں شروط عدالت وضبط قطعی طور پر پائی جاتی ہیں یہ بھی خلاف واقعہ ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس میں شروط قبولیت متحقق نہ ہو ں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح مسلم میں بہت سے رواۃ ہیں جو عوامل جرح سے بری نہیں ہیں یہی حال صحیح بخاری کا ہے کہ روا ۃ کی ایک جماعت پر جرح کی گئی ہے معلوم ہوا کہ ائمہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں راوی متصف مبصفات قبولیت ہے اور فلاں نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ایک محدث ایک راوی کی تضعیف کرتا ہے اور دوسرا اس کی توثیق کرتا ہے اور دونوں اپنے اپنے علم کے مطابق حکم لگاتے ہیں واقعہ کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے۔
ابن الھمام کے اعتراض کا جواب:
اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ صحیحین کی راجحیت صرف رجال اور شروط پر موقوف نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو بلاشبہ انہی روا ۃ سے خارج از صحیحین روایت بھی صحیحین کی روایت کی مثل ہو سکتی تھی مگر یہاں پر ارجحیت کے دیگر عوامل بھی ہیں جو صحیحین کے سوا دوسری کتابوں میں نہیں پائے جاتے۔ علماء نے احادیث صحیحہ کی درجہ بندی کی ہے اور ان کے ساتھ درجے قرار دئیے ہیں اور وہ درجہ بندی جو مقدمہ ابن الصلاح میں مذکور ہے تمام علماء اس پر متفق ہیں:
➊ ما اتفق علیه البخاری و مسلم
➋ ما انفرد به البخاری
➌ ما انفرد به مسلم
➍ صحیح علی شرطها ولم یخرج واحد منھما
➎ صحیح علی شرط البخاری
➏ صحیح علی شرط مسلم
➐ صحیح عند غیرھما
پس صرف رجال اسناد کی بات نہیں ہے بلکہ صحیحین کو تلقی بالقبول ہونے کی وجہ سے بھی ارجحیت حاصل ہے اور اس فضیلت میں کوئی دوسری کتاب ان کی سحیم و حصہ دار نہیں ہے۔ دراصل مثل رجال قرار دینے سے احناف کی غرض یہ ہے کہ فقہاء حنفیہ اور محدثین مابین معارضہ پیدا کر کے حنفیت کی تائید کے لیے راستہ ہموار کیا جا ئے چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی شرح سفر السعاد ۃ کے مقدمہ میں ابن حمام کی اس تنقید کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:
«وهذا مفيد نافع فى غرضنا من شرح هذا الكتاب وهو تائيد المذهب الحنفي .»
اس کتاب کی شرح ہمارے مقصد کے اعتبار سے مفید اور نفع بخش ہے اور اس میں حنفی مذہب کی تائید ہے۔
شیخ دہلوی کی اس تصریح سے صاف ظاہر ہے کہ ابن الحمام اس تنقید سے حنفیہ کے لیے راستہ نکالنا چا ہتے ہیں کیونکہ صحیحین دو ایسی کتابیں ہیں جن میں حنفیت کے خلاف زیادہ مواد پایا جاتا ہے کاش احناف یہ کوشش نہ کرتے اور امام بخاری رحمہ اللہ کے بلند مرتبہ ہو نے پر حسد سے کام نہ لیتے امام بخاری رحمہ اللہ کی شخصیت وہ ہے کہ ابن المدینی جیسے علل حدیث کے علامہ ان کی قدر و منزلت کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیحین کے فضل و مرتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:
«لم يبق سبيل الي ضبط ماراعاه واحطاطاه على مبلغ كما لهما وخبرتهما فى دقائق الصصيح والعلل فى كتابها وقد ثبت انهما اخرجهما عن الوف من الصحاح الثابة عندهما حتيٰ قال البخاري احفظ مائة الف حديث صحيح ومائتي الف حديث غير صحيح وقال مسلم ليس عندي كل شئي من العصصيح وضعته ههنا وانما وضعت ههنا ما اجمعوا على فدققا النظر فى العصصيح عندهما واخر جا منها اللب .»
شیخین نے انتہائی احتیاط اور فن تصحیح وعلل میں اپنی کمال واقفیت کی بنا پر اپنی صحیحین میں احادیث درج کرنے میں محنت میں کوئی کمی نہیں کی اور تحقیق میں کوئی وقیقہ فرو گزاشت نہیں جانے دیا جبکہ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے لاکھوں صحاح احادیث سے ان روایات کو اپنی کتاب میں درج کرنے کے لیے اخذ کیا۔ حتیٰ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے ایک لاکھ صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح روا یات اس کتاب میں جمع نہیں کر دیں بلکہ فقط وہ احادیث شامل کی ہیں جن کی صحت پر اجماع ہے مزید برآں بخاری و مسلم رحمہم اللہ نے ان احادیث کی صحت کی چھان پھٹک میں بہت وقت نظر سے کام لیا ہے۔
اور یہ تدقیق اور مغز کا نکالنا ان کی شروط کی بنا پر ہے اور چونکہ شروط کی انہوں نے تصریح نہیں کی لہٰذا ضروری ہے کہ بعینہ ان رجال سے روایت لائی جائے۔
اور امام نووی بھی لکھتے ہیں:
علماء کا کسی روایت کو علیٰ شرط شیخین کہہ دینے سے مراد یہ ہے کہ اس روایت کے راوی صحیحین کے رجال میں سے ہیں۔ [مقدمه]
اور شیخین کے زمانہ اور اس کے بعد شیخین کے برابر کا کوئی حاذق فن نہیں ہوا، لہٰذا علی شرط الشیخین کا مطلب یہی ہے کہ ان کے رجال سے روایت لائی جائے اور انہی رجال سے روایت لانے سے شیخین کی راجحیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا یعنی ارجحیت پھر بھی قائم رہے گی اس کی متعدد وجوہ ہیں:
➊ شیخین کا کسی حدیث کی تصحیح کا مدار صرف راوی کی عدالت اور اتصال پر نہیں ہے بلکہ راوی کے اپنے مروی عنہ سے طول ملازمت اور اس کی حدیث کی ممارست پر ہے۔ [كمامر فى بيان الطبقات]
➋ بسا اوقات شیخین ان ثقات سے روایت کرتے ہیں جو مخصوص اشخاص سے روایت میں ضعیف سمجھے گئے ہیں لیکن شیخین ان سے ان لوگوں کی حدیث لاتے ہیں جن میں ضعف نہیں ہوتا، مثلاً ہشیم ثقہ ہے مگر زھری سے اس کی روایت ضعیف ہے، اسی طرح حمام ثقہ ہے مگر ابن حمام اس کی روایت ضعیف ہے حالانکہ یہ دونوں راوی صحیحین کے ہیں لیکن شیخین ان کی روایت زھری اور ابن جریج سے نہیں لاتے جن سے ان کی روایت ضعیف سمجھی گئی ہے اس بناء پر ابن الصلاح لکھتے ہیں: [مقدمه شرح مسلم لا بن الصلاح: ص8]
«من حكم لشخص بمجرد رواية مسلم عنه فى صحيحه – فقد غفل وأخطأ -، بل ذلك يتوقف على النظر فى كيفية رواية مسلم عنه، وعلى أى وجه اعتمد عليه .»
جو آدمی فقط امام مسلم کا کسی شخص سے اپنی کتاب میں روایت لانے کو اس کا پیمانہ سمجھ بیٹھے کہ یہ تو راوی اعلیٰ شرط صحیح ہے تو ایسا آدمی واضح غلطی پر ہے اسے دیکھنا ہو گا کہ امام مسلم نے اس سے کس کیفیت میں حدیث حاصل کی اور کن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا اور کس بنا پر اعتماد کیا؟
➌ جو لوگ ان کے رجال سے ملفق اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں اسے بھی علی شرط صحیحین نہیں کہہ سکتے مثلاً: «سماك عن عكر مه عن ابن عباس رضي الله عنه» کہ سماک رجال مسلم سے ہے اور عکرمہ رجال بخاری سے لہٰذا ملفقاً ان کی روایت کو علی شرط الشیخین نہیں کہہ سکتے۔
➍ شیخین نے ایک راوی سے اختلاط سے قبل روایت لی ہوتی ہے اب اختلاط سے بعد والی روایت کو علی شرط احدھما نہیں کہہ سکتے مثلاً احمد بن عبد الرحمٰن ابن اخی عبداللہ بن وھب کی روا یت جو 250ھ کے بعد (جب امام مسلم مصر سے چلے آئے تھے) مختلط ہو گیا تھا لہٰذا اختلاط سے بعد والی روایت کو علی شرط مسلم نہیں کہہ سکتے۔
➎ امام مسلم بعض ضعفاء کی روایت صحیحہ درج کرتے ہیں جیسا کہ معترض نے بیان کیا ہے مگر وہ روایات متابعات و شواھد میں لاتے ہیں اصالتہً نہیں لہٰذا صحیح کے مقصد کے خلاف نہیں ہیں پس ایسی روایت کو علی شرط مسلم نہیں کہہ سکتے۔
➏ بعض اوقات امام مسلم غیر اثبات کی اس روایت کو بھی لے آتے ہیں جو اثبات نے بھی ان شیوخ سے روایت کی ہوتی ہے لیکن وہ سند نازل کے ساتھ ہوتی اور امام مسلم علو والی روایت لاتے ہیں مثلاً اسباط بن نصر، قطن اور احمد بن عیسیٰ سے روایت پر جب ابوزرعۃ نے ملامت کی تو امام مسلم نے معذرت کی اور کہا:
«إنما أدخلت من حديثهم ما رواه الثقات عن شيوخهم، إلا أنه ربما وقع إليّ عنهم بارتفاع، ويكون عندي . . . إلا أنه ربما وقع إلى عنهم بارتفاع، ويكون عندي من رواية أوثق منهم بنزول، فأقتصر على ذلك .»
میں نے اپنی صحیح میں ان ثقہ راویوں کی حدیث ذکر کی ہے جو اپنے ثقہ شیوخ سے حدیث بیان کریں الا یہ کہ میرے پاس کسی ثقہ راوی کی علو والی روایت ہو اور اس سے اوثق کی روایت بھی موجود ہو جو کہ نازل ہو تو تب میں عالی روایت کو ذکر کرتا ہوں اور اثق کی روایت ترک کر دیتا ہوں۔ [مقدمه صحيح مسلم للنووي رحمه الله]
اور اس کا باعث علو ہی نہیں ہو تا بلکہ متہم راوی کی روایت میں متعدد محاسن بھی پائے جا تے ہیں مثلاً بخاری کی بعض اسانید میں مردان مذکور ہے تاہم وہ روایت دوسرے طریق سے بھی آئی ہوتی ہے اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ مردان والی روایت لے آتے ہیں تو یہ کوئی اعتراض کی چیز نہیں ہے۔ مثلاً «علي بن حسين بن على بن ابي طالب عن مردان بن الحكم» والی روا یت! تو جو حقیقت حال سے آگا ہ نہیں وہ مردان کو علی بن حسین کا شیخ سمجھ لیتا ہے۔ «وهذا والله لجفاء عظيم»
اور محدثین باوجود اس کے کہ ان کو کسی راوی کے کذاب ہو نے کا علم ہوتا ہے مگر اس سے وہ متعلق مشہور ہے وہ کہا کرتے: «حدثني فلان وهو كذاب» پس ہمارے اس بیان سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دوسروں کی شیخین کے رجال سے روایت مساوات کی مقتضی نہیں ہے۔
➐ اگر ابن ماجہ وغیرہ کی بعض اسنید کو صحیحین کی اسانید کے برابر بھی فرض کر لیں تو پھر بھی دوسری کتابوں کی مرویات صحیحین کے مساوی نہیں ہو سکتیں کیونکہ علل متن کی معرفت میں دوسرے مشائخ امام بخاری رحمہ اللہ اور مسلم کے برابر نہیں ہو سکتے لہٰذا صحیحین کی روایت اصحاب التصانیف میں راجحیت کا وصف قائم رہے گا ابن الصلاح نے مقدمہ میں ایسی امثلہ ذکر کی ہیں جو صحت سند کے باوجود معلول ہیں۔
➑ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ صحیحین کو تلقی بالقبول کی خصوصیت حاصل ہے جو تواتر کے ساتھ منقول ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے کہ جو دوسری کسی کتاب کو حاصل نہیں ہے اور اس کا تعلق نفس صحت کے ساتھ ہے اس بنا ء پر صحیحین کی آحاد بھی وجوب عمل میں قطعی ہیں اور جن اسانید پر جرح کی گئی ہے ان میں بھی ہم کہتے ہیں کہ شیخین نے ان کی روایت کے شفاف ہونے میں اپنی طاقت صرف کی ہے اور ان اسانید کی تصحیح کی ہے اور جرح کرنے والے شیخین کے مقابلہ میں ہیچ ہیں، لہٰذا ان کی جرح غیر معتبر ہے اور علماء نے ہر حدیث پر اعتراض کے جوابات دئیے ہیں اور اس پر مستقل رسالے لکھے گئے ہیں اور پھر امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ جرح کرنے والے بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا تدارک ہو سکتا ہے۔ صحیحین کی راجحیت کی یہ آٹھ وجوہ ہیں ان میں سے بعض کی تفصیل آئندہ قول الحاکم علی شرطحما میں آ رہی ہے۔ یہ بحث دراصل شرط الصحیحین کا تتمہ ہے جسے الگ شذرہ کی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے۔ [مرتب]
قول الحاکم علی شرطھما:
امام حاکم رحمہ اللہ کی المستدرک پر مختلف علماء نے اظہار خیال کیا ہے جن میں ابن الصلاح اور ان کے بالتبع ابن وقیق العید اور امام ذہبی ہیں ابن الصلاح لکھتے ہیں:
امام حاکم رحمہ اللہ شرط صحیح میں تمساھل ہیں اس لیے ان کے بارے میں توسط سے کام لیا جائے جس حدیث پر صحت کا حکم لگانے میں منفرد ہوں اگر یہ صحیح نہیں ہے تو من قبیل حسن ہے لہٰذا وہ قابل مل و احتجاج ہے الایہ کہ اس میں سبب ضعف ظاہر ہو جا ئے۔
علامہ مالینی کی را ئے:
اس کے برعکس علامہ مالینی لکھتے ہیں:
«طالعت المستدرك على الشَّيخيْن الذي صنَّفه الحاكم من أوّله إلى آخره، فلم أر حديثاً على شرطهما.»
میں نے امام حاکم رحمہ اللہ کی تصنیف مستدرک علی الشیخین کا شروع تا آخر مطالعہ کیا ہے اور مجھے اس میں کوئی بھی حدیث شیخین کی شرط پر نہیں ملی۔
حافظ عبد الغنی المقدسی (600ھ) کا قول ہے۔
«نظرت إلى وقت إملائي عليك هذا الكلام فلم أجد حديثاً على شرط البخاري و مسلم لم يخرجاه إلا أحاديث:»
«حديث أنس يطلع عليكم الآن رجل من أهل الجنة .» [مستدرك ومسند احمد 3/166 فى حديث طويل]
«وحديث الحجاج بن علاط لما أسلم .»
«. . . وحديث على ـ رضى الله عنه ـ لا يؤمن العبد حتى يؤمن بأربع، انتهى»
آپ کو املا لکھواتے ہوئے میری اس کلام پر نگاہ پڑی پس میں نے اس کتاب میں شیخین کی شرط پر تین احادیث کے ماسوا کسی حدیث کو نہیں پایا۔
علامہ ذہبی نے المالینی کے قول پر تعاقب کیا ہے اور لکھا ہے:
«هذا غلو وإسراف وإلا ففي المستدرك جملة وافرة على شرطهما وجملة كثيرة على شرط أحدهما وهو قدر النصف . وفيه نحو الربع مما صح مسنده أو حسن . وفيه بعض العلل . و باقيه مناكير وفي بعضها موضوعات قد ألإردتها فى جزء انتهى»
امام مالینی رحمہ الله کا یہ قول افراط و تفریط کا شکار ہے وگرنہ مجھے مستدرک میں بے شمار احادیث دونوں یا کسی ایک کی شرط پر ملی ہیں اور ان کی تعداد تقریباً تمام کتاب کا نصف ہے جو کہ علی شرط شیخین ہیں اور تقریباً چوتھائی احادیث صحیح یا حسن درجے کی ہیں۔ کچھ احادیث معلول بھی ہیں کچھ مناکیر اور موضوعات بھی ہیں جنہیں میں نے اپنی کتاب میں ذکر کر دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی تقریباً ذہبی رحمہ الله کے تبصرہ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں وہ لکھتے ہیں:
مستدرک کی متعدد اقسام ہیں ہر قسم کی تقسیم ممکن ہے کچھ شروط کے ساتھ تو کہہ سکتے ہیں کہ کو ئی روایت ایسی نہیں ہے جس کی اصل یا نظیر کو شیخین نے روایت نہ کیا ہو۔ اب ہم اصل بحث پر آتے ہیں کہ جب امام حاکم رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں:
«الحديث صحيح على شرطهما ولم يخرجاه»
یہ حدیث بخاری و مسلم کی شروط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس حدیث کو نہیں ذکر کیا۔
تو اس جملہ کاکیا مطلب ہے؟ علماء نے اس کی تشریح میں بھی اختلاف کیا ہے اور ہر ایک نے تتبع سے اپنی رائے قائم کی ہے۔ ابن الصلاح ابن وقیق العید اور علامہ ذہبی تو علی شرطھما سے بعینہ روا ۃ اور رجال لیتے ہیں لیکن علامہ عراقی نے اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ مستدرک کے خطبہ میں امام حاکم رحمہ اللہ نے خود لکھا ہے۔
«وأنا أستعين الله تعالى على إخراجي أحاديث رواتها ثقات، قد احتج بمثلها . الشيخان او احد هما .»
اور میں ایسی احادیث کو اپنی کتاب میں لانے کے لیے اللہ کی توفیق کا طالب ہوں کہ جو ثقہ سے مروی ہوں یا ان سے مروی ہوں جنہیں امام بخاری، مسلم یا کسی ایک نے اپنی کتب میں بطور حجت ذکر کیا ہو۔
جس سے واضح ہوتا ہے کہ بعینہ رجال صحیحین مراد نہیں ہیں بلکہ ان کی صفات کے رجال مراد ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ھا ضمیر کا مرجع احادیث ہوں یعنی شیخین نے ان جیسی احادیث سے استدلال کیا ہو۔ یہ صحیح ہے کہ مثل کا لفظ غیریت کو چاہتا ہے لیکن محاورہ میں «مثل الشئيي» کا لفظ «عين شيئي» پر بھی بولا جاتا ہے پس عین رجال مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ جب کسی حدیث کی اسناد میں ایسا راوی ہوتا ہے جو صحیحین کا راوی نہیں ہوتا تو امام حاکم رحمہ اللہ ایسی حدیث کے بعد «علي شرطمها» نہیں کہتے بلکہ «هذا حديث صحيح الاسناد» کہتے ہیں: مثلاً باب التوبہ میں ایک حدیث «عن ابي عثمان عن ابي هريره رضي الله عنه» مرفوعاً ہے «لاتنزع الرحمة الا من شقي» امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی تخریج کے بعد صرف «هذاحديث صحيح الاسناد» کہا ہے اور لکھا ہے:
«وأبو عثمان هذا ليس هو النهدي، ولو كان هو النهدي لحكمت بالحديث على شرط .»
اور یہ ابوعثمان۔۔۔ النھدی نہیں ہے اگر یہ النہدی ہوتا تو میں اس حدیث پر علی شرط شیخین کا حکم لگاتا پس امام حاکم رحمہ اللہ کے اس قول سے حافظ ابن الصلاح وغیرہ کی تائید ہوتی ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے احادیث پر صحت کا حکم لگانے اور «لم يخرجاه» کہنے میں تساہل سے کام لیا ہے تاہم «علي شرطهما» کی تشریح میں مزید تفصیل کی ضرورت ہے جو حسب ذیل ہے:
(الف) یہ «علي شرطهما» کا حکم کل رواۃ کے مجموعہ کے اعتبار سے ہوتا ہے ورنہ بعض احادیث کی اسانید ملفق ہوتی ہیں یعنی شیخین نے انفراداً ان روا ۃ سے احتجاج کیا ہوتا ہے لیکن اجتماعاً نہیں۔ لہٰذا ایسی اسناد کو «علي شرطهما» نہیں کہہ سکتے مثلاً سفیان بن حسین عن الزھری کہ یہ دونوں صحیحین کے راوی ہیں اور سفیان فی نفسہ ثقہ بھی ہے مگر زھری سے ضعیف ہے اس لیے سفیان بن حسبن عن الزھری کے مجموعہ کو «علي شرطهما» نہیں کہہ سکتے اور محدثین جب «فلا نعن فلان ضعيف» کہتے ہیں تو اس کا بھی یہی مطلب ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی اسناد میں دو راوی ایسے ہوں کہ ایک سے بخاری نے احتجاج کیا ہو اور دوسرے سے مسلم نے مثلاً «شعبه عن سماك بن حرب عن عكر مه عن ابن عباس» کہ سماک سے امام مسلم نے احتجاج کیا بشرطیکہ اس سے راوی ثقہ ہو اور امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف عکر مہ سے احتجاج کیا ہے تو ایسی اسناد کو بھی «علي شرطهما» نہیں کہہ سکتے۔
اور پھر یہ بھی شرط ہے کہ اس اسناد میں کسی مدلس کا عنعنہ نہ ہو اور نہ ہی مختلط راوی ہو۔ جس سے بعد از اختلاط روایت لی گئی ہو کیونکہ ایسی سند کو بھی «علي شرط الشيخين» نہیں کہہ سکتے ہاں اگر مدلس کی تحدیث ثابت ہو جا ئے اور یہ بھی ثابت ہو جائے کہ مختلط سے قبل از اختلاط روایت لی گئی ہے تو اس کو «علي شرط الشيخين» کہہ سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا شروط کے ساتھ المستدرک میں شاذ نادر ہی کوئی ایسی حدیث ہو گی جس کی نظیر یا مثل صحیحین میں نہ ہو یا شیخین نے اصول میں اس کو روایت نہ کیا ہو۔ تاہم المستدرک میں بہت سی روایات ہیں جن کی صحیحین میں بھی تحریج کی گئی ہے لیکن امام حاکم رحمہ اللہ نے تو ہما «ولم يخرجاه» کہہ دیا ہے۔ المستدرک میں ایسی روایات بھی ہیں جن کے رواۃ سے شیخان نے تخریج کی ہے لیکن ان کو شواہد و متابعات یا تعالیق میں ذکر کیا یا مقرون بغیرہ مذکور ہیں یا کوئی ایسا راوی ہے جو رجال صحیحین سے ہے مگر تفرد یا ثقات کی مخالفت کی وجہ سے اس سے گریز کیا ہے مثلاً امام مسلم نے اپنی صحیح میں «العلاء بن عبد الرحمٰن عن ابيه عن ابي هريره رضي الله عنه» کے نسخہ سے بعض روا یات درج کی ہیں لیکن وہ بھی جن میں تفرد نہیں ہے اور باقی روایات کو چھوڑ دیا ہے جن میں تفرد پایا جاتا ہے لہٰذا ان باقی کو «علي شرطهما» نہیں کہہ سکتے حالانکہ نسخہ ایک ہی ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے المدخل میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے جس میں ان رواۃ کا ذکر کیا ہے جن کی احادیث شیخین متابعت اور شواہد کے طور پر لاتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی روایات کو «علي شرطهما» کہہ دیا ہے حالانکہ ان روا ۃ کی احادیث درجہ الصحیح سے کم تر ہیں اور شاذ و نادر ضعیف بھی ہیں اور اکثر احادیث درجہ حسن پر ہیں اور پھر امام حاکم رحمہ اللہ تقسیم ثنائی کے قائل ہیں جو حسن کو صحیح میں داخل کرتے ہیں تاہم «علي شرطهما» کہنے پر ان سے مناقشہ کیا جائے گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وهذا لقسم هو عمدة الكتاب .»
المستدرک میں اس نوع کی احادیث بہت ہیں جو صحیحین میں نہ تو اصالتہً مذکور ہیں اور نہ ہی شواہد ومتابعات میں، مگر امام حاکم رحمہ اللہ ان کو «هذا حديث صحيح» کہہ دیتے ہیں مثلاً باب التزین للعیدین میں ہے «الليث عن اسحاق بزرج عن الحسن بن رضى الله عنه»
اس روایت کے بعد امام حاکم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«لو لا جهالة إسحاق لحكمت بصحته .»
اگر اسحٰق جہالت سے متصف نہ ہوتا تو میں اس کی روایت کو صحیح گردانتا۔
اس کے بعد ابن حجر لکھتے ہیں:
بڑی آفت یہ ہے کہ اس قسم کی احادیث المستدرک میں مذکور ہیں اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ان پر صحت کا حکم لگایا ہے۔
مزید برآں امام حاکم رحمہ اللہ نے «عبدالرحمٰن بن زيد بن اسلم عن ابيه» کا ترجمہ المستدرک میں درج کر دیا اور یہاں تک کہہ دیا ہے:
«هذا صحيح الإسناد وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن .»
یہ حدیث سنداً صحیح ہے اور یہ پہلی صحیح حدیث ہے جس کو میں نے عبد الرحمٰن سے ذکر کیا ہے۔
راقم الحروف کہتا ہے کہ یہ وہی حدیث ہے جسے قصہ آدم میں ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ (1/81) میں ذکر کیا ہے۔
«رايت على قوام العرش مكتو با لا الٰه الا الله محمد رسول الله .»
اور لکھا ہے: «رواة الحاكم والبيهقي و ابن عساكر و عبد الرحمٰن بن زيد عن ابيه ضعيف» مگر حافظ ذہبی رحمہ اللہ رحمہ الله نے اس کے متعلق لکھا ہے: [المستدرك 3/615]
«موضوع وعبدالرحمٰن واه رواه عنه عبدالله بن مسلم الفهري ولا ادري من ذا؟»
موضوع حدیث ہے اور عبدالرحمٰن کچھ بھی نہیں ہے اس سے عبداللہ بن مسلم الفہری نے روایت کیا ہے مجھے معلوم نہیں یہ کون ہے؟ پھر امام حاکم رحمہ اللہ نے خود ہی کتاب الضعفاء میں اسی عبدالرحمٰن کے متعلق لکھا ہے:
«عبدالرحمان زيد بن اسلم يروي عن ابيه احاديث موضوعة لايخفي على من تاملها من اهل الصنعة بان الحمل فيها عليه لان الجرح لاستحله تقليداً .»
عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم اپنے باپ سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے اور اہل فن میں سے جنہوں نے ان احادیث پر تامل کیا ان پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ان احادیث میں یہی شخص مجروح ہے اور میں جرح میں تقلید کا قائل نہیں ہوں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تساہل اور تسامح کے ساتھ امام حاکم رحمہ اللہ کے کلام میں تضاد بھی پایا جاتا ہے بایں وہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فكان هذا من عجائب ماوقع له من النساها والغفلة والله اعلم بالصواب .»
ان سے اس قدر تساہل اور غفلت کا صدور عجیب بات ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث جنوری 1993، امام بخاری اور الجامع الصحیح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.