شروط البخاری، حافظ ابن حجر، علامہ حازمی کی را ئے، طبقات رواۃ:
تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح حفظ اللہ
اس باب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ الله (752ھ) نے نہایت دقیق و مفید بات کہی ہے وہ اپنی کتاب ”فتح الباری“ میں لکھتے ہیں:
حدیث صحیح کی روایت میں امام بخاری رحمہ اللہ کی شروط کو دو طریق سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
➊ خود کتاب کے نام سے جو امام بخاری رحمہ اللہ نے رکھا ہے۔
➋ امام کے تصرف سے استقراء کے ذریعہ جو عموماً آئمہ نے بیان کی ہیں۔
پہلی بات ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا نام ”الجا مع الصحیح المسند المختصر من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننه وايامه“ رکھا ہے۔
➊ «الجامع» کے لفظ سے معلوم ہو تا ہے کہ مصنف نے حدیث کی کسی ایک صنف کو خاص نہیں کیا بلکہ حدیث کے ”انواع ثمانيه“ سے انتخاب کیا ہے اس بناء پر اس کا نام الجامع رکھا ہے۔
➋ «الصحيح» کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ضعیف روایت درج نہیں کی گئی چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خود بھی تصریح کی ہے۔
«ما ادخلت فى الجامع الاماصح»
”میں نے اپنی ”الجامع“ میں صحیح احادیث ہی درج کی ہیں۔“
➌ «المسند» اس سے بتایا ہے کہ اصل میں وہ احادیث لائیں گے جن کی اسناد متصل اور مرفوع ہو گی عام اس سے کہ وہ حدیث قولی فعلی ہو یا تقریر اور اگر کسی موقع پر اس کے خلاف آیا ہے وہ تبعاً اور عرضاً آیا ہے نہ کہ اصل مقصود کے لحاظ سے، اب رہی دوسری صورت یعنی مصنف کے تصرف سے استقراء اور تتبع تو علماء نے اس پر طبع آزمائی کی ہے اور یہ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح حدیث کی تعریف جاننے پر موقوف ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک صحت حدیث کے لیے اتصال اسناد شرط ہے یعنی راوی کی اپنے مروی عنہ سے لقاء ہو جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس راوی کی حدیث لاتے ہیں جو «اكثر صحة مع شيخه واعرفهم بحديثه» ہو اور اگر اس صفت پر نہ ہو تو اس کی روایت متابعات میں لے آتے ہیں جبکہ قرینہ ہو کہ راوی نے اس کو ضبط کیا ہے یہی وجہ ہے کہ علماء نے صحیح بخاری کو ”اصح الکتب“ کہا ہے اب ہم استقراء کے متعلق علماء کے خیالات مفصل بیان کرتے ہیں۔
علامہ حازمی کی را ئے:
اوپر جو کچھ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے دراصل یہ علامہ حازمی۔ کی رائے ہے جو انہوں نے ”شروط الائمہ الخمسہ“ میں امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کی وضاحت کے سلسلہ میں ذکر کی ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
جن محدثین نے حدیث صحیح لانے کا التزام کیا ہے وہ مشائخ سے راوی عدل کا التزام کرتے ہیں اور جس سے وہ روایت کرے وہ بھی عدل ہو کیونکہ مشائخ سے روایت کرنے والے صحیح اور موصول دونوں قسم کی روایت کرتے ہیں اور یہ دوسری قسم شواھد و متابعات میں لانے کے قابل تو ہو سکتی ہے اصول میں لانے کے قابل نہیں ہوتی اس کی وضاحت کے لیے ہم رواۃ کو پانچ طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ صحیحین اور سنن کی روایات میں تفاوت درجات کی نشاندہی ہو سکے۔
طبقات رواۃ:
ہر راوی الاصل یعنی جو کثیر الروایہ راوی ہو علماء نے اس کے اصحاب کو پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے اور ہر طبقہ کا مقام و مرتبہ متعین کیا ہے مثلاً امام زھری کے تلامذہ کے پانچ طبقے ہیں:
➊ جو عدل واتقان میں تام ہوں اور کمال حفظ کے ساتھ متصف ہوں اور پھر ان کو زھری کے ساتھ طول ملازمت کا شرف بھی حاصل ہو اور حضر وسفر میں امام زھری کے ساتھ رہے ہوں امام زھری کی احادیث کو جانچنے کا موقعہ ملا ہو اس طبقہ کی روایت امام بخاری رحمہ اللہ اصالتاً لاتے ہیں۔
➋ عدل و ضبط میں پہلے طبقہ کے ساتھ شریک ہو مگر طبقہ اولی کی مثل طول ملازمت حاصل نہ ہو اور نہ ہی روا یات کی پو ری طرح ممارست کا مو قع ملا ہو اور اتقان میں بھی پہلے طبقہ سے کمتر ہو اس طبقہ کی روا یا ت امام مسلم تو اصالتہً لاتے ہیں لیکن امام بخاری رحمہ اللہ متابعات اور شواہد میں لاتے ہیں۔
➌ وہ جماعت جو طبقہ اولی کی طرح امام زھری سے اتصال تو رکھتی ہو لیکن عوامل جرح سے سالم نہ رہی ہو یعنی رد و قبول میں بین بین سی ہو یہ امام ابوداود اور امام نسائی کی شرط ہے یعنی اس طبقہ کی روا یت کو وہ بطور استدلال لے آتے ہیں۔
➍ جو جرح و تعدیل میں طبقہ ثالثہ کے ہم درجہ ہوں لیکن زھری کی حدیث کی ممارست بھی بہت کم کی ہو کیونکہ زھری کے ساتھ رہنے کا ان کو بہت کم موقع ملا ایسے رواۃ جامع ترمذی کی شرط ہیں۔
➎ طبقہ ضعفاء و مجھولین جن کی روایت ابواب احکام کی کتابوں میں صرف اعتبار و استشہاد کے طور پر لائی جا سکتی ہیں جیسا کہ اصحاب سنن کرتے ہیں سخیین ان کے نزدیک تک نہیں جا تے۔
آمدم برسر مطلب:
اس کے بعد علامہ حازمی رحمہ الله لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود پہلے طبقہ کی روایت کو جمع کرنا ہے مگر کبھی دوسرے طبقہ کے اعیان سے بھی لے آتے ہیں اور امام مسلم دوسرے کے بعد تیسرے طبقہ کے اعیان کی روایت لے آتے ہیں اور امام ابوداؤد تیسرے کے بعد چوتھے طبقہ کے مشاہیر سے بھی حازمی کے اس کلام کی تلخیص کے بعد ابن حجر رحمہ الله لکھتے ہیں:
”طبقات رواۃ کی یہ درجہ بندی مکثرین کے حق میں ہے لہٰذا زھری کے اصحاب پر نافع اعمش اور قتادہ وغیرھم کے اصحاب کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ باقی رہے غیر مکثرین تو شیخین صرف انہی کی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں جو ثقہ عدل ہوں اور قلت خطا کے ساتھ متصف ہوں پھر جس پر اعتماد قوی ہو تفرد کی صورت میں بھی اس کی روایت لے آتے ہیں جیسے یحییٰ بن سعید انصاری وغیرہ اور جس پر اعتماد قوی نہ ہو تو اس کی روایت مقرون لاتے ہیں۔
اب اس کے بعد مقدسی اور امام حاکم رحمہ اللہ کی تتبع اور استقراء پر نظر ڈالیں حافظ ابوالفضل بن طاہر المقدسی اپنی کتاب ”شروط الائمہ“ میں لکھتے ہیں۔
«لم ينقل عن واحد منهم أنه قال: شرطتُ أن أخرج فى كتابي ما يكون على الشرط الفلاني، وإنما يعرف ذلك من سبر كتبهم، فيعلم بذلك شرطُ كل رجلٍ منهم .»
”ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ میں نے اپنی کتاب فلاں شرط ملخوظ رکھتے ہوئے ترتیب دی ہے جو آدمی ان کتب کا بغور مطالعہ کرتا اور کھنگالتا ہے وہ استقراء کے ذریعے ان شروط کو پا سکتا ہے۔“ اس کے بعد تتبع اور استقراء سے صحیحین کی شروط بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:
«واعلم أن شرط البخاري و مسلم أن يُخرجا الحديث المُتفق على ثقة نقلته إلى الصحابي المشهور، من غير اختلاف بين الثقات الأثبات، ويكون إسناده متصلاً غير مقطوع، فإن كان للصحابي راويان فصاعداً فحسن، وإن يكن له إلا راوٍ واحد إذا صح الطريقُ إلى الراوي أخرجاه .»
”جاننا چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور مسلم رحمہ اللہ کی یہ شرط ہے کہ ایسے راوی سے حدیث لیں گے جس کی صحت متفقہ ہو اور وہ اس حدیث کو ثقات ضابط راویوں کے اختلاف کے بغیر اتصالاً مشہور صحابی سے روا یت کرے اور اگر صحابی سے دو یا دو سے زیادہ راوی روایت کریں تو بہت بہتر ہے تاہم اگر ایک ہی راوی صحیح طریق سے مع اتصال سند روایت کرے تو اس کی روایت بھی کتاب میں لے آئیں گے۔“
لیکن امام حاکم رحمہ اللہ ”معرفتہ علوم الحدیث“ اور ”المدخل“ میں صحابہ سے نیچے ہر درجہ میں دو راویوں کا ہونا شیخین کی شرط قرار دیتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ اور مسلم نے صحیح احادیث کے اقسام میں درجہ اولیٰ کو اختیار کیا ہے یعنی وہ حدیث جو صحابی مشہور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرے پھر اس سے دو ثقہ تابعین روایت کریں اور تابعی سے دو متقن اور مشہور تتبع تابعین روایت کریں پھر اس سے طبقہ رابعہ کے راوی روایت کریں اور بخاری اور مسلم کے شیوخ بھی حافظ متقن اور مشہور ہوں۔
ایک اعتراض:
علامہ حازمی نے شروط بخاری میں جو طول ملازمت کی شرط لگائی ہے اس پر یہ اعتراض ہو تا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تو صحت حدیث کے لیے مطلق لقاء کی شرط لگاتے ہیں «ولو مرة» تو یہ ملازمت طویلہ کی شرط کہاں سے آگئی۔۔۔؟
علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ «لقاءة مرة» کی شرط طبقہ ثانیہ میں ہے جبکہ احادیث توابع اور شواہد کے طور پر لائی جا تی ہیں چنانچہ ابن الوزیر ”التنقیح“ لکھتے ہیں:
«وَإِنَّهُ قَدْ يُخَرِّجُ أَحْيَانًا مَا يَعْتَمِدُهُ عَنْ أَعْيَانِ الطَّبَقَةِ الَّتِي تَلِي هَذِهِ فِي الْإِتْقَان ِوالملازمة لمن روداعنه فلم يلا زمره الا ملاذمة يسيرة .»
”اور کبھی کبھی وہ اس طبقہ سے بھی روایت لیتے ہیں جو اتقان اور ملازمت کے اعتبار سے اس طبقے سے کمتر ہیں اور انہوں نے فقط ایک مرتبہ ملاقات کافی سمجھی ہے۔ لہٰذا اس پر کچھ اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی تضاد ہے بعض اوقات ایک راوی ثقہ ہوتا ہے لیکن بعض دوسرے رجال سے اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے جیسے حماد بن سلمہ کے متعلق ہے۔ «اثبت الناس فى ثابت البناني» لیکن محدثین نے لکھا ہے کہ ثابت کے علاوہ کسی دوسرے سے روایت میں ضعیف ہے مثلاً ایوب داؤد بن ابی ہند یحییٰ بن سعید عمرو بن دینار وغیرھم سے اس کی روا یت ضعیف ہے «لانه يخطي فى حديثهم كثيرا» تو ایسے ثقہ سے شیخین روایت لے آتے ہیں اسی طرح بہت سے ثقات جو ”متہم بالبدعتہ“ ہیں ان کی ایک جماعت سے بھی شیخین نے روا یت لی ہے جو ”داعي الي البدعة“ نہ تھے اور اکثر محدثین نے ایسے اھل بدعت سے احتجاج کیا ہے۔
ابن طاہر المقدسی امام حاکم رحمہ اللہ کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امام حکام کی بیان کردہ شرط حسن ہے۔ لیکن یہ قاعدہ ”غرائب الصحیحین“ میں ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاًً امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ الله وفات ابی طالب کے قصہ میں ”مسیب بن حزن“ یہ حدیث لائے ہیں۔ مگر اس سے یہ حدیث سعید بن مسیب نے ہی روایت کیا ہے اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ عمرو بن تغلب کی حدیث «إني لأ عطي الرجل والذي أدع أحب إلي» لائے ہیں۔
جب کہ عمرو بن تغلب سے صرف حسن بصری نے ہی روایت کی ہے۔ اس طرح امام مسلم اپنی صحیح میں «كتاب الايمان والنذور باب من حلف بلات والعزي» میں زھری کی روایت کے بعد لکھتے ہیں:
«قال أبو الحسين مسلم هذا الحرف يعني قوله تعالى أقامرك فليتصدق لا يرويه أحد غير الزهري قال وللزهري نحو من تسعين حديثا يرويه عن النبى صلى الله عليه وسلم لا يشاركه فيه أحد بأسانيد جياد .»
امام ابوالحسن مسلم رحمہ الله نے فرمایا کہ زہری رحمہ الله کے علاوہ اس سے کوئی روایت نہیں کرتا اور زہری کی اس سے تقریباً 90 روایات ایسی ہیں جو مرسل ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی اعلیٰ سند کے ساتھ شریک نہیں ہوا ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ الله لکھتے ہیں:
«عدي بن عمير الكندي ومرادس السلمي اخرج لهما مسلم وما روي عنها غير قيس بن ابي حازم وقطة ابن مالك خرج له مسلم وما حدث عنه سوي زياد بن علافة وخرج مسلم لطارق بن اشيم وماروي عنه الا ولده ابومالك الاشجعي وخرج لبنيشة الخير وماروي عنه الا ابوالمليح الهذلي .»
عدی رحمہ الله بن عمیر الکندی اور مرداس اسلمی کی احادیث امام مسلم رحمہ الله نے ذخر کی ہیں قیس بن ابی حازم اور قطبہ بن مالک کے ماسوا کوئی دوسرا ان دونوں سے روایت کرے تو اس کی روایت بھی لے آتے ہیں سوائے زیادہ بن علاقہ کے اور امام مسلم طارق بن اشیم اور طارق سے اس کے بیٹے ابومالک الا شجعی کی بھی روایت کرے ان کی بھی امام مسلم اپنی کتاب میں احادیث لا ئے ہیں لیکن جب ابوالملیح الہذلی نبشہ سے روایت کرے تو نہیں ذکر کرتے۔
یہ چند امثلہ ہم نے ذکر کی ہیں جو امام حاکم رحمہ اللہ کے دعویٰ کی تردید کے لیے کافی ہیں کہ شیخین صرف انہی سے روایت کرتے ہیں جن سے دو یا دو سے زیادہ راوی ہوں۔ امام حاکم رحمہ اللہ کے اس قول سے علامہ حازمی نے یہ سمجھا ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ اول تا آخر دو راوی عدل قرار دیتے ہیں اور ابوالعباس قرطبی نے بھی حازمی کے بالتبع امام حاکم رحمہ اللہ پر اعترا ض کیا ہے کہ «اثنين عن اثنين» والی روایات تو صحیحین میں بہت کم پائی جاتی ہیں تاہم امام حاکم رحمہ اللہ کا یہ مطلب نہیں ہے کیونکہ صحیحین میں غرا ئب بھی ہیں مثلاً ابوجمیلہ۔۔۔ کہ ان سے زھری کے سوا کسی نے بھی صحت سند کے ساتھ روایت نہیں کی ربیعہ بن کعب سلمی کہ ان سے صرف ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن ہی راوی ہیں اور امام ذہبی نے بخاری میں دس ایسے صحابہ کے نام ذکر کئے کہ ان سے صرف ایک ہی راوی ہے صحابہ کی حد تک تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو تو امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی مستثنیٰ کیا ہے جیسا کہ سخاوی نے لکھا ہے اور وغیر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سلسلہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«والشرط ما ذكره الحاكم وإن كان منتقضا فى حق بعض الصحابة الذين أخرج لهم, إلا أنه معتبر فى حق من بعدهم, فليس فى الكتاب حديث أصل من رواية من ليس له إلا راو واحد فقط .»
”اور وہ شرط جس کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اگرچہ صحابہ اس سے مستثنیٰ ہیں لیکن بعد میں آنے والے راویوں میں یہ شرط معتبر ہے کتاب میں ایسے راوی کی کوئی حدیث نہیں ہے جس سے صرف ایک راوی نے روایت کی ہو۔ ”پس امام حاکم رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کے بعد کے رواۃ صحیحین کے راوی سے فی الجملہ دو کا روایت کرنا ضروری ہے تاکہ جھالت سے نکل جا ئے یہ نہیں کہ اس خاص حدیث میں یہ ضروری ہے پھر حافظ لکھتے ہیں:
”علوم الحدیث“ میں تو حاکم نے فی الجملہ حدیث صحیح کے لیے دو کی روایت کو شرط قرار دیا ہے لہٰذا ”المدخل“ کی بنسبت ”علوم الحدیث“ کی عبارت پر زیادہ اعتراض ہے۔ ”ابوحفص رحمہ الله المیانجی نے حازمی سے بڑھ کر دعویٰ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ شیخین نے اپنی کتابوں میں صحت حدیث کے لیے عدد کی شر ط لگائی ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب ”مالایتع المحدث جھلہ“ میں لکھتے ہیں:
«إن شرط الشيخين فى صحيحهما أن لا يدخلا فيه إلا ما صح عندهما وذلك ما رواه عن رسول الله عليه الصلاة والسلام اثنان فصاعداً ومانقله عن كل واحد من الصحابة أربعة من التابعين فأكثر وأن يكون عن كل واحد من التابعين أكثر من أربعة .»
”شیخین نے اپنی صحیح میں یہ شرط لازم کی ہے کہ صرف اسی سے روایت لیں گے جو ان کے نز دیک صحیح ہو اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک دو یا دو سے زیادہ راویوں سے روایت کرے اور لازمی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس حدیث کو چار تابعین نے سنا ہو اور تابعین سے کم از کم چار راویوں نے اس حدیث کا سماع کیا ہو۔
ابوحفص رحمہ الله کے اس قول کی تردید کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ شیخین میں کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا اور صحیحین میں کتنی ایسی احادیث ہیں جن کو صرف ایک ہی صحابی نے روایت کیا ہے اور ان میں کتنی ایسی احدیث ہیں جن کو صرف ایک ہی تابعی نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام مسلم کی تصریح گزر چکی ہے۔ اور مطلق صحیح حدیث میں عدد کی شرط تو ابراہیم بن اسماعیل بن علیہ وغیرہ سے بھی منقول ہے۔ امام شافعی نے الرسا لہ (458۔ 369) میں خبر واحد کے «وضو بالعمل» ہونے پر باب قائم کیا ہے اور اصول فقہ کی اصطلاح میں اخبار آحاد ”اخبار کو کہا جاتا ہے جو متواتر نہ ہوں عام اس سے کہ اس کا راوی ایک ہو یا ایک سے زیادہ۔“
معتزلہ نے قبول خبر کے لیے چار کی شرط لگائی ہے ابوعلی الجبائی المعتزلی ابن الحسین کی کتاب المعتمد کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
«أن الخبر لا يقبل إذا رواه العدل الواحد إلا إذا انضم إليه خبر عدل آخر» (الخ)
”اس عادل راوی کی اس وقت تک حدیث قبول نہ کی جائے گی جب تک کہ وہ اکیلا روایت کرے حتیٰ کہ اس کے ساتھ ایک اور عادل راوی کی روایت بھی مل جا ئے۔“
علاوہ ازیں ابومنصور البغدادی نے «اثنين عن اثنين» کی شرط لگائی ہے اور انہوں نے اپنے دلائل میں چار احادیث پیش کی ہیں۔
«قصه زي اليدين فى السهو فى الصلاة قصه ابي بكر فى ميراث الجدة قصة عمر مع ابي موسيٰ الاشعري فى الاستيذان قصه على استحلاف من حدثه .»
➊ ذوالیدین کا نماز میں بھولنے والا قصہ
➋ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دادی کی میراث والاواقعہ
➌ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا حضرت موسیٰ اشعری رحمہ الله سے استیذان والا قصہ
➍ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا روایت پر قسم لینے والا قصہ
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ان چاروں احادیث کا جواب بالکل واضح ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے۔
➊ ذوالید ین کی خبر قبول کرنے میں توقف اس ظاہری شک کی وجہ سے تھا کہ اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مو جودگی میں یہ اکیلا خبر دے رہا تھا ورنہ متعدد مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے کی خبر پر اعتماد کیا ہے دیکھئے بخاری ”کتاب اخبار الاحاد۔“
➋ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے محض تشبت کے لیے توقف کیا ورنہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کفن کی مقدار میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اکیلی کی روا یت پر عمل کیا۔۔۔ وغیرہ
➌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تشبت چاہتے تھے کیونکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انکار پر یہ حدیث سنا ئی تھی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجوس ھجر سے جزیہ کے بارے میں اکیلے عبد الرحمٰن بن عوف کی خبر پر عمل کیا علاوہ ازیں بہت سے واقعات ہیں جن میں حضرت عمر نے خیر واحد پر اعتماد کیا۔
➍ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے استحلاف والی روایت اولاً تو ضعیف ہے کہ اس کے تمام طرق میں اسماء بن الحکم الفزاری ہے امام بخاری رحمہ اللہ ”التاریخ الکبیر“ میں لکھتے ہیں:
«لم يروعنه الا هذا الحديث وحديث الا خر لم يتابع عليه»
”اس سے اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث کی روایت نہیں کی گئی اور دوسری حدیث کی متابعت نہیں ہے۔“ اور صحابہ کرام روایات پر قسم نہیں لیتے تھے۔ الغرض اسماء بن الحکم مجہول ہے اور اگر یہ حدیث ثابت بھی ہو تو احتیاط میں مبالغہ پر مہمول ہے۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث جنوری 1993، امام بخاری اور الجامع الصحیح