تجرید احادیث صحیحہ کی پہلی کوشش، شاہ ولی اللہ دہلوی، امام نووی، ابن حجر، انور شاہ کشمیری، علامہ ابن خلدون کے بیانات:
تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح حفظ اللہ
الغرض ”الجامع الصحیح“ تجرید احادیث صحیحہ کی پہلی کوشش ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس میں یہ کمال کر دکھایا ہے کہ تراجم ابواب میں اقوال صحابہ و فتاوی تابعین کو مناسب طور پر جمع کر دیا ہے جس کے دو فائدے ہیں اول یہ کہ تجرید احادیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ محدثین کے نزدیک اقوال و آثار صحابہ کی کو ئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ محدثین کے نزدیک مخصوص شرائط کے تحت ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اس سے پیشتر موطا امام مالک کی مثال موجود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے استخراج مسال اور استنباط کے ذریعہ قوانین نقلیہ کو قواعد عقلیہ کے مطابق ڈاھالنے کی کوشش کی ہے اور دوسرے الفاظ میں ان کو معیار عقل پر پر کھا ہے جسے درایت سے تعبیر کر سکتے ہیں اور یہ خوبی ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کے بعد حافظ ابن تیمیہ رحمہ الله اور ان کے تلمیذ ارشد ابن قیم کی تحریرات میں نمایاں نظر آتی ہے اور پھر ابن حزم اور ابن تیمیہ رحمہ الله نے تو عقل و نقل کی مطا بقت پر مستقل کتابیں لکھی ہیں جن پر جدید اسلامی معاشرہ کی تشکیل کی جا سکتی ہے شاہ ولی اللہ دہلوی نے امام کی اس کوشش کی داد دی ہے شرح ترا جم میں لکھتے ہیں:
«وكثيرا ما يستخرج الاداب المفهومة بالعقل من الكتاب والسنة بنحو من الاستدلال والعادات الكائنة فى زمانه صلى الله عليه وسلم ومن ذلك لا يدرك حسنه الا من مارس كتاب الآداب واجال عقله فى بدان آداب قومه ثم طلب ما من السنة اصلاً»
”عموماً ایسے ترا جم ابواب ذکر کرتے ہیں جو کتا ب وسن میں انتہائی غور کے بعد حاصل ہو تے ہیں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہو نے والی عادات سے استدلال اور اس میں وہ بھی چیزیں ہیں جن کے حسن کا ادراک وہی شخص کر سکتا ہے جو صاحب فن ہے اور جس نے آداب کی کتاب پر مشق اور ہمیشگی کی اور اپنی عقل کو اپنی قوم کے آداب کے میدان میں سر گرداں رکھا۔ پھر اس کے لیے سنت سے دلیل تلاش کی۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ضمن میں جو کمال کر دکھایا ہے ابن حجر نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ مقدمہ ”الفتح“ میں لکھتے ہیں:
«وكذلك الجهة العظمى الموجبة لتقديمه-يعني صحيح البخاري- وهى ما ضمّنه أبوابه من التراجم التى حيّرت الأفكار وأدهشت العقول والابصار»
”اسی طرح دوسری بڑی وجہ جو اس کی تقدیم کی موجب ہے یہ ہے کہ ایسے تراجم ابواب پر یہ کتا ب مشتمل ہے جنہوں نے افکار کو حیرت میں ڈال دیا اور عقلوں اور نظروں کو مدہوش کر دیا۔“
یہی نہیں بلکہ موجودہ دور کے علماء نے بھی تراجم کی لطافت کا اقرار کیا ہے چنانچہ مولانا انور شاہ کشمیری ”فیض الباری“ میں لکھتے ہیں:
«كما كان فى تراجمه سباق غايات و صاحب آيات فى وضع تراجم لم يسبق إليها و لم يستطع أن يحاكيه أحد من المتأخرين فنبه على مسائل مظان الفقه من القرآن بل أقامها منه و دل على طرق التأنيس منه و به يتضح ربط الفقه و الحديث بالقرآن بعضه مع بعض فكانت تراجمه صورة حية لاجتهاده و عبقريته و منهجيته .»
”بے شک مصنف مقاصد میں آگے بڑھنے والے ہیں اور متحیر العقول ترا جم ذکر کرتے ہیں متقدمین میں سے اس کا م پر کسی نے پہل نہیں کی اور نہ ہی متاخرین میں سے کسی نے آپ کے مقابلے کی ہمت کی ہے پس آپ ہی اس دروازے کو کھولنے والے ہیں اور آپ اس فن میں آخری ثابت ہو ئے آپ نے اپنے تراجم میں باب سے متعلق مناسب آیات بھی ذکر کی ہیں اور قرآن میں مذکورہ فقہی مسائل کی نشاندہی کی ہے بلکہ قرآن سے ان کو ثابت کیا ہے اور قرآن سے احکام اخذا کرنے کے طریقے بتائے ہیں اسی وجہ سے فقہ اور حدیث کا قرآن سے اور قرآن کے بعض حصے کا بعض سے ربط واضح ہو تا ہے اور یہ آپ کے اجتہاد کی رفعت اور اجتہادیات میں صاحب ذوق ہو نے کی علامت ہے آپ نے ان چیزوں کو ترا جم میں بسط کے ساتھ ذکر کیا ہے مصنف کے ترا جم میں فقہ اصول اور علم کلام کے متعلق مختلف علوم موجود ہیں جس کی طرف بڑے اختصار و ایجاز کے ساتھ اشارہ کیا ہے۔“
اور پھر استنباط فقہ اس خوبی سے کیا ہے کہ ایک ہی حدیث سے مختلف مسائل کا استخراج کرتے چلے گئے اس طرح بعض احادیث متعدد ابواب کے تحت مکرر آگئی ہیں لیکن فقہ اسلامی میں تو سیع کا دروازہ کھولا ہے اور یہ ایسا کارنامہ ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی اس سے متاثر ہو کر برملا اعتراف کرتے ہیں:
«وقد برهن بهذه الطريقة على أنه يفرغ جهده فى الاستنباط فى أحاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم ويستنبط من كل حديث مسائل كثيرة»
”اس طرح آپ نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے مسائل کے استنباط میں اپنی پو ری کوشش صرف کر دیں اور ہر حدیث سے بہت زیادہ مسائل استنباط کریں۔
اس طریق سے ہم آج بھی فقہ اسلامی کو فروغ دے سکتے ہیں موجودہ دور کے علماء میں احمد محمد شاکر محدث مصری رحمہ الله نے جب مسند احمد کی تبویب شروع کی تو انہوں نے بھی یہی طریق اجتہاد اختیار کیا مگر افسوس یہ کا م مکمل نہ ہو سکا تاہم ان کے کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
الغرض امام نووی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی نے الجامع الصحیح کے ترا جم ابواب کی اہمیت پر زور دیا ہے اور علامہ کرمانی لکھتے ہیں:
«ان هذا فهم عجز عنه النهول» اور حقیقت یہ ہے کہ کسی مصنف کی فہم و فہراست نبوغ و تفقہ کا اندازہ کتاب کے عنوانوں سے ہو جاتا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے عموماً ظاہر حدیث کو چھوڑ کر اس کے خفی پہلو سے استنباط کیا ہے اور پھر اہم ترا جم ابواب میں آثار صحابہ و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین درج کر کے کہیں تو اپنے اختیار کر دہ مسلک کی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض مواقع میں حدیث کی تاویل کے پہلو کو واضح کیا ہے اور ترا جم ابواب کے ساتھ حدیث کی مناسبت یا مطابقت بیان کر دی ہے یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری کے حل تراجم پر علماء نے مستقل تصانیف لکھی ہیں جن میں سے چند کا ذکر فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔
➊ کتاب ترجمان الترا جم لابی عبداللہ محمد بن عمر بن رشید البستی (م721ھ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عموماً اس کتاب کا حوالہ دیتے ہیں تا ہم یہ کتا ب الصوم تک نامکمل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«أطال فيه النفس ولم يكمل وله وصل الي كتاب الصيام ولونم لكان فى غاية الفادة وانه كثير الفائدة مع تقصر .»
”اس میں آپ نے طویل عرصہ لگایا لیکن مکمل نہ کر سکے صرف کتاب الصیام تک پہنچے اگر یہ کام مکمل ہو جاتا تو انتہائی مفید ثابت ہوتا۔ اگرچہ اب بھی مختصر ہو نے کے باوجود کثیر الفائدہ ہے۔ ابن رشید کا ترجمہ ”لحظ الالحاظ“ میں ابن فہد نے ذکر کیا ہے اور لکھا ہے:
«عالي الإسناد، صحيح النقل، أصيل الضبط، تام العناية بصناعة الحديث .»
”عالی الاسناد۔ نقل میں صحت اور فن حدیث کا مکمل اہتمام رکھتا ہے۔“
➋ کتاب مناسبات ترا جم البخاری تصنیف قاضی القضاۃ الامام بدرالدین ابن جماعتہ یہ ابن المنیر کی کتاب کا ملخص ہے۔
➌ المتواری علی تراجم البخاری علامہ ناصر الدین احمد بن المنیر خطیب اسندریہ نے (683) اس میں چار سو منتخب ابواب کی شرح نہایت بسط کے ساتھ کی ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”حدی الساری“ میں اس کا ذکر کیا ہے اور فتح الباری کا ماخذ ہے متعدد مواضع میں اس کے حوالہ جا ت مذکور ہیں علامہ زین ابن المنیر کی شرح بخاری ہے جو دس جلدوں سے زائد ہے ولہٰحواش علی ابن بطال۔
➍ علامہ محمد بن منصور السجلماسی نے
«فكّ أغراض البخاري المبهمة فى الجمع بين الحديث والترجمة .»
لکھی جس کے نام سے کتاب کی افادیت واضح ہے صرف ایک سو منتخب ترا جم کی شرح ہے۔
➎ بدر الدین الدمامینی (828ھ) کہ انہوں نے ”تعلیق المصابیح علی ابواب الجامع الصحیح“ لکھی ہے ان کی مصابیح الجامع ”شرح بخاری“ بھی ہے۔
➏ شرح التراجم پر ایک مختصر مگر جامع رسولہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے ”شرح تراجم الابواب“ کے نا م سے لکھا ہے شروع میں تراجم کے متعلق چند اصول ذکر کئے ہیں پھر چار سو سے زائد ترا جم پر مفصل بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے علاوہ ازیں شارحین نے بھی ترا جم پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی ہے جن میں ابن حجر اور علامہ عینی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے اس بحث کے آخر میں ترا جم کے متعلق علامہ ابن خلدون کی رائے نقل کرنا فائدہ سے خالی نہیں وہ اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
«فأما البخاري وهو اعلاها رتبة فاستصعب الناس شرحه واستغلقوا منحاه من أجل ما يحتاج إليه من معرفة الطرق المتعددة ورجالها من أهل الحجاز والشام والعراق ومعرفة أحوالهم واختلاف الناس فيهم ولذلك يحتاج إلى إمعان النظر فى التفقه فى تراجمه لأنه يترجم الترجمة ويورد فيها الحديث مسند أو طريق ثم يترجم أخرى ويورد فيها ذلك الحديث بعينه لما تضمنه من المعنى الذى ترجم به الباب وكذلك فى ترجمة وترجمة إلى أن يتكرر الحديث فى أبواب كثيرة بحسب معانيه واختلافها ومن شرحه ولم يستوف هذا فيه فلم يوف حق الشرح كابن بطال و ابن المهلب و ابن التين ونحوهم .»
”جہاں تک امام بخاری رحمہ اللہ ہیں تو اس معاملہ میں اعلیٰ رتبہ کے حامل ہیں لوگوں نے اس کی شرح کو صعب گردانا اور انہیں ابواب کی شرح میں انتہائی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ان کی شرح کے لیے متعدد طرق کی معرفت اور احادیث کے رجال جو کہ حجاز عراق اور شام تک پھیلے ہو ئے ہیں حالات سے واقفیت اور لوگوں کے اختلاف کا علم ازحد لازمی ہے مزید برآں فقہ تراجم البخاری میں شارح کا عمیق النظر ہونا بھی لازمی وصف ہے کیونکہ آپ ایک جگہ ایک ترجمہ ذکر کرتے ہیں اور اس میں سند یا طریق کے ساتھ حدیث ذکر کرتے ہیں پھر کسی اور مقام پر بعینہ اسی حدیث کو کسی دوسرے ترجمہ کے تحت دوبارہ لاتے ہیں کیونکہ حدیث اس مضمون کو بھی شامل ہو تی ہے اور جا بجا مختلف تراجم میں یہ معاملہ ہو تا ہے حتیٰ کہ ایک حدیث مختلف معانی کی مناسبت اور اختلاف کے باعث متعدد مقامات پر ذکر ہو جاتی ہے۔
الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ”الجامع الصحیح“ کو اس پہلو سے بھی جامع بنایا ہے کہ تراجم میں تقلید ی فقہ کی بجائے تحقیقی فقہ پیش کی ہے اور فقہ اہل الرائے تنقید کی ہے نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے ان نظریاتی تحریکات کا بھی جائزہ لیا ہے جو اس دور میں اسلامی معاشرہ کے لیے چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکی تھیں معتزلہ و جھمیہ نے صفات باری تعالیٰ کی نفی کر دی تھی اور خوارج و مرجیہ نے ایمان و کفر کے پیمانے مقرر کر رکھے تھے اور شیعہ وخوارج نے نظریہ خلافت و حکومت کے سلسلہ میں انتشار پھیلا رکھا تھا امام بخاری رحمہ اللہ نے الجامع میں ان تمام نظریات کو سامنے رکھ کر اپنی کتاب کو مرتب کیا ہے مولانا عبد السلام المبارکپوری کتاب کی جامعیت اور صحت پر بحث کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:
صحیح بخاری ہی ایک ایسی کتاب ہے جس پر صحیح اور جامع دونوں کا اطلاق ہوتا ہے جامعیت کی یہ حا لت ہے کہ کیفیت وحی اور ابتدائے وحی (جس سے اسلام کی بناء قائم ہوتی ہے) سے لے کر تمام فنون عقائد و عبادات معاملات سیر بدئ العالم غزوات و تفسیر فضائل طب آداب رقاق اور توحید وغیرہ 54 فنون اسلامیہ کی جامع کتاب لکھی۔ ملکی سیاسی قوانین کے علاوہ روز مرہ کے جزوی معاملات کس طرح صاف اور روش دلائل سے مستنبط کئے غرض بعد کتاب اللہ یہ ایسی کتاب ہے جو دین اور دنیا دونوں کے معاملات کو سلجھاتی ہے اور مصنفت کے تمام فنون میں قابلیت کی شہادت دیتی ہے۔
اب اس کے بعد بھی مخالفین اگر صحیح بخاری کی عام قبولیت پر شور و شغب مچائیں تو کب قابل التفات ہے۔
«ع: مه نور مے فشاندو سگ بانگ ميز ند»
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث جنوری 1993، امام بخاری اور الجامع الصحیح