رسالہ اصول السنۃ کی امام حمیدی کی طرف نسبت:
اصول السنة:
یہ بھی امام حمیدی کی تصنیف ہے۔
اس میں انہوں نے اختصار کے ساتھ اپنا عقیدہ ومنہج بیان کیا ہے۔ اس رسالے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حمیدی رحمہ اللہ سلف کے منہج پر تھے اور ان کا عقیدہ و منہج قرآن و حدیث کے مطابق تھا۔ «والحمد لله»
رسالہ اصول السنۃ کی امام حمیدی کی طرف نسبت:
یہ رسالہ امام حمیدی کی تصنیف ہے۔
اس پر بے شمار دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
➊۔۔۔۔۔ اس رسالے کو محدثین کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے کہ یہ امام حمیدی کا رسالہ ہے۔
➋۔۔۔۔۔ مسند حمیدی کے تمام قلمی مخطوطات کے آخر میں یہ رسالہ موجود ہے پھر جن محدثین نے اس رسالہ کو سنا ان کے سماعات بھی موجود ہیں۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسالہ امام حمیدی کا ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔
➌۔۔۔ اس رسالہ کی سند موجود ہے جس کو محدثین نے اپنی کئی ایک کتب میں نقل کیا۔
➍۔۔۔۔ کئی ایک معتبر محدثین نے اس رسالے کو امام حمیدی کی طرف منسوب کیا ہے مثلاًً:
امام ابن قدامہ المقدسی نے [ذم التاويل، ص: 93] میں اپنی سند سے اس رسالہ کو بیان کیا ہے۔ اس میں امام حمیدی کا بھی ذکر ہے پھر اس سے کچھ چیزیں بیان کی ہیں۔
➎۔۔۔۔۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس رسالے کو امام حمیدی سے ثابت کیا ہے۔ [مجموع الفتاوي: 6/4]
➏۔۔۔۔۔ امام ابن قیم الجوزیہ نے بھی اس رسالے سے کچھ نقل کیا ہے۔ [اجتماع جيوش الاسلاميه ص: 86]
➐۔۔۔۔ امام ذہبی نے بھی اس رسالے کو امام حمیدی کی طرف منسوب کیا ہے۔
[تذكرة الحفاظ: 414/2، ترجمه: 419، العلو، ص: 180، الاربعين فى صفات رب العالمين، ص: 77]
رسالے کا نام:
بشر بن موسی نے اپنے استاد محتر م امام حمیدی سے اس رسالے کانام ”اصول السنۃ“ بیان کیا ہے۔
رسالے کی اہمیت:
یہ رسالہ بہت زیاد اہمیت کا حامل ہیں کیونکہ یہ سلفی و اہل الحدیث کے عقائد پر مشتمل ہے۔ ایک بہت بڑے امام کی تالیف ہے۔ عقیدے کے باب میں بہت زیادہ محدثین نے اس رسالے پر اعتماد کیا ہے اور امام حمیدی کے اقوال کو اپنی کتب کی زینت بنایا ہے۔ اس میں امام حمیدی کے اپنے عقیدے و منہج کا بیان ہے۔ یہ رسالہ سلف صالحین کے ہاں مقبول تھا اور اولین محدثین میں سے ایک محدث کا ہے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ کے مزید حالات کے لیے دیکھیں:
[تقريب التهذيب: 415/1، خلاصة تهذيب الكمال: 56/2، الكاشف: 86/2، التاريخ الصغير للبخاري: 339/2، الوافي بالوفيات: 179/17، طبقات الحفاظ للسيوطى: 181/450، ترتيب المدارك للقاضي عياض: 522/2، حسن المحاضره: 437/1، شذرات الذهب: 45/2، طبقات ابن سعد: 386/5، طبقات الشافعيه للسبكي: 140/2، طبقات الشيرازي، رقم: 99، العبر للذهبي: 297/1، البداية والنهاية لابن كثير: 282/10، النجوم الزاهره: 132/2]
اصول السنة، عقائد سنت:
امام حمیدی رحمہ اللہ نے کہا:
ہمارے نزدیک سنت یہ ہے کہ انسان تقدیر پر ایمان لائے وہ خیر ہو یا شر ہو، وہ میٹھی و خوشگوار ہو یا ناگوار اور کڑوی ہو۔
اور وہ علم یقین سے جانتا ہو کہ جو بھی اس کو پیش آیا اور پہنچا ہے وہ ہرگز ٹلنے والا نہ تھا
اور جو اس کو نہیں ملا وہ اس کو حاصل ہونے والا ہرگز نہیں تھا۔
اور یہ کہ تمام امور اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے ہیں اور ایمان نام ہے قول و عمل کا، وہ کم اور زیادہ ہوتا ہے،
قول عمل کے بغیر نفع نہیں دیتا اور عمل و قول نیت کے بغیر فائدہ نہیں دیتے
اور قول و فعل نیت سمیت نفع نہیں دیتے مگر سنت کے ساتھ،
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے دل سے رحمت طلب کرنا،
پس تحقیق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے وہ کہیں گے:
اے ہمارے رب!
ہمیں بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے ہیں
سو ہمیں تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کے لیے بخشش طلب کریں تو جو شخص ان سب کو یا ان میں سے بعض کو یا کسی ایک کو گالی دے یا بدی سے یاد کرے تو وہ سنت پر قائم نہیں ہے
اور ایسے آدمی کا مال غنیمت میں کوئی حق نہیں ہے۔
اس قول کی خبر بہت سے لوگوں نے دی ہے کہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے کہا ہے:
اللہ تعالیٰ نے مال فے کی تقسیم اس طرح فرمائی ان فقراء مہاجرین کے لیے جو ان کے گھروں سے نکالے گئے ہیں
پھر فرمایا اور ان لوگوں کے لیے ہے جو ان کے بعد آئیں گے وہ کہیں گے:
اے ہمارے رب ہمیں بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو، تا آخر آیت۔
پس جو صحابہ کے لیے یہ نہیں کہتا ہے تو وہ ان لوگوں میں شمار نہیں ہے جن کے لیے مال فے میں حصہ لگایا گیا ہے۔
قرآن اللہ کا کلام ہے، میں نے سفیان سے سنا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو جو شخص قرآن کو مخلوق کہتا ہے بدعتی ہے، اس لیے کہ یہ قول پہلے کسی نے نہ تو کہا اور نہ ہم نے کسی سے سنا ہے
اور میں نے سفیان سے سنا ہے، کہا:
ایمان قول و عمل کا مجموعہ ہے وہ کم ہوتا اور بڑھتا ہے تو اس کے بھائی ابراہیم بن عیینہ نے کہا: اے ابو محمد ایمان کم ہونے کی بات نہ کرو۔ تو سفیان نے غصہ کے ساتھ کہا: نابالغ لڑکے خاموش رہو، اتنا کم بھی ہوتا ہے کہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا ہے
اور رؤیت باری تعالیٰ کا اقرار کرنا
اور ہر اس صفت کو ماننا جو قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے
جیسا اس آیت میں ”یہود نے کہا: اللہ کا ہاتھ بند ہے بلکہ انھی کے ہاتھ بند ہیں“ تا آخر آیت
اور مثلاََ ”آسمان لپٹیے ہوں گے اس کے دائیں ہاتھ میں۔“
اس طرح تمام وہ صفات جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں نہ ان میں اضافہ کیا جائے نہ ان کی تفسیر و تشریح کی جائے وہاں ہی ٹھہر جائے جہاں قرآن و سنت ٹھہرے ہیں
اور کہے کہ رحمٰن نے عرش پر قرار پکڑا اور جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے گا تو وہ ذات حق کو معطل و مہمل تسلیم کرنے والا جہنمی فرقہ سے ہو گا
اور خوارج کی طرح یہ بھی نہ کہے کہ جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا وہ کافر ہے۔
تحقیق کفر لازم ہوتا ہے ان پانچ میں سے کسی ایک کے انکار سے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر بیان کیا ہے:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:
گواہی دینا کہ نہیں کوئی عبادت کے لائق سوا اللہ تعالیٰ کے اور گواہی دینا کہ تحقیق محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔
ان میں پہلے تین امور میں تاخیر کرنے والے کو مہلت نہیں دی گئی جو کلمہ شہادت نہ پڑھے اور روزہ بروقت نہ رکھے تو مجرم ہو گا اور جان بوجھ کر بروقت جو بجا نہ لائے تو اس کی اس تفریط اور زیادتی کی تلافی قضاء سے بھی نہ ہو گی اور تاخیر کرنا جرم ہی رہے گا۔ خواہ فریضہ ادا ہو جائے گا۔
اور زکاۃ جب بھی ادا کر دی بس ادا ہو جائے گی مگر روکے رکھنے کا جرم تو ہو گا
اور حج جس پر فرض ہو گا تو تمام سہولتیں راستہ وغیرہ کی میسر آنے پر ادا کرنا ہو گا اور اسی سال ادا کرنا لازم نہ ہو گا جب ادا کرے گا تو ادا کرنے والا شمار ہو گا اور تاخیر کرنے پر مجرم نہ ہو گا جیسا زکاۃ کی تاخیر سے مجرم قرار پایا تھا، اس لیے کہ زکاۃ تو مسلمان غرباء کا حق ہے جو ان تک پہنچنے سے اس نے مؤخر کیا ہے اور روکے رکھا ہے تو ان تک ان کا حق وصول ہونے تک گناہ گار ہوگا۔
اور رہے گا حج تو بندے اور اس کے رب کے درمیان کا معاملہ ہے جب ادا کیا ادا ہوا اور جس نے طاقت و استطاعت ہوتے ہوئے حج ادا نہ کیا اور فوت ہو گیا تو مرنے کے بعد وہ دنیا میں لوٹنے کا سوال کرے گا تاکہ وہ حج کرے اور اس کے ورثاء پر لازم ہو گا کہ وہ اس کی طرف سے حج کریں اور امید ہے کہ اس کی طرف سے ادا ہو جائے گا جیسا کہ اس کا قرض ادا کیا جائے اس کے مرنے کے بعد۔ [رساله اصول السنۃ]